جارج واشنگٹن
جارج واشنگٹن امریکہ کا پہلا صدر تھا ۔ اس شخص کو قدرت نے بہتر ین صلاحیتوں سے نوازا۔ امریکہ کی آزادی سے پہلے وہ ریاست ورجینیا کی طرف سے فوجی خدمات بھی سرانجام دیتا رہا۔ یہ اس کی نوجوانی کے دن تھے ۔ بہادر ٗ ذہین اور متحمل مزاج۔برطانیہ اور فرانس کی جنگ کے دوران اس نے بہت نام کمایا۔ جنگ کے بعد وہ اپنی ر ہائش گاہ ‘ماؤنٹ ورنن’ واپس لوٹ آیا اور اپنے خاندان کی روایت کے مطابق سیاست میں حصہ لینے لگا۔ پہلے پہل وہ چاہتا تھا کہ امریکہ پر برطانیہ کی حاکمیت برقرار رہے لیکن آہستہ آہستہ اس تسلط سے بے زار ہونے لگا۔ 1775میں جب امریکی عوام نے آزادی کا نعرہ بلندکیا تو اسے متحدہ افواج کی سربراہی کے لئے چنا گیا۔ اس کا تدبر اور تجربہ اس کے ترکش کے دو بڑے تیر تھے۔ آزادی کی یہ جنگ آسان نہ تھی لیکن فتح نے بالآخر واشنگٹن کے قدم چوم لئے۔ وہ ایک قومی ہیرو بن گیا۔ لیکن اتنی بڑی فتح کے بعد وہ ایک روزخاموشی سے واپس ماؤنٹ ورنن پہنچا اور پھر سے اپنے پالتو کتوں اور گھوڑوں سے دل بہلانے لگا۔ فتح کے بعد ہر سپہ سالار بادشاہت کا تاج پہننا چاہتا ہے لیکن واشنگٹن نے ایسی کسی خواہش کا اظہار نہ کیا۔ یہ خود پر جبر کی ناقابلِ یقین مثال تھی۔ اس کا یہی انداز لوگوں کو بھا گیا اور اسے اتفاقِ رائے سے امریکہ کا پہلا صدر منتخب کر لیا گیا۔ بطور صدر بھی وہ انتہائی قابل منتظم ثابت ہوا۔ اس کا سب سے بڑا چیلنج قومی وحدت کا فروغ تھا۔ وہ اس کے حصول میں کامیاب رہا اور امریکہ کی ریاستیں فیڈرل ازم کے اصولوں کے تحت اپنی اپنی خود مختاری کے باوجود ایک مرکز پہ متفق ہونے لگیں۔
1792میں واشنگٹن دوبارہ صدر منتخب ہوا۔صدارت کے دوسرے دور میں اس کی مشکلات کچھ اوربڑھ گئیں۔ اس وقت برطانیہ اور فرانس عالمی سیاست کے دوبڑے کردار تھے۔جارج واشنگٹن نے ایک نوزائیدہ ریاست کوان طاقتوں سے جس طرح بچایا وہ دنیا کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ مارچ 1797میں اس کی صدارت کا دوسرا دور ختم ہوا۔ وہ چاہتا تو تیسری بار بھی صدر منتخب ہو سکتا تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے تاحیات صدر بنانے کی تجاویز بھی دیں جبکہ کچھ اسے بادشاہ کا درجہ دینا چاہتے تھے۔ لیکن امریکہ کی اولین قیادت جنہیں Founding Fathers کہا جاتا ہے تاریخ کا مکمل شعور رکھتی تھی۔ جیفرسن ٗ ہملٹن ٗ جان ایڈم ’فرینکلن۔ اس کہکشاں میں واشنگٹن ایک چمکتا ہوا ستارہ تھا۔ اس نے ایک بار پھر ماؤنٹ ورنن کی پرسکون خاموشی کو ترجیح دی اور ذاتی اقتدار کی خواہش کو جمہوریت کی نئی شمع پہ نچھاور کردیا۔ ایسے ہی لوگ مدبر کہلاتے ہیں۔ایسے ہی لوگ قوموں کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔جارج واشنگٹن 1799میں اس دنیا سے چل بسا۔ جمہوری اقدار کا علمبردار یہ ایک عجب جرنیل تھا ۔سپہ سالاری’ سیاست اور پھر قناعت اور گمنامی کا پر سکون راستہ۔ ایسا امتزاج تاریخ میں بہت کم ملتا ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں تو یہ امتزاج اور بھی کم ہے………… ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کوئی جنگ لڑے بغیر فیلڈ مارشل بن جاتے ہیں اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جو خود صلیب پر لٹک کے ملک اور قوم کو بقا کاتحفہ دے جاتے ہیں………… افسوس کہ جارج واشنگٹن جیسا ایک سپاہی بھی ہمیں نصیب نہ ہوا: حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
٭٭٭
رمیش کھنہ
رمیش کھنہ کوئی پچیس برس پہلے امریکہ پہنچا ۔ جب وہ دہلی سے چلا تو خالی ہاتھ تھا لیکن اس کے سینے میں آرزووں کی ایک دنیا آباد تھی ۔امریکہ امکانات کی سرزمین ہے ۔محنت کی عادت ہو تو ترقی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔رمیش کھنہ کے پاس بھی یہی خوبی تھی ۔ پینتیس سال بعد جب وہ ریٹائر ہوا تو اس کے پاس کچھ دولت جمع ہوچکی تھی ۔ ریٹائر منٹ کے بعد رمیش کھنہ اور اس کی بیگم نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ۔جب انہوں نے آدھی دنیا دیکھ لی تو ایک دن انہیں چنیوٹ نامی وہ چھوٹا سا شہر یاد آیا جہاں ان کا بچپن گزراتھا۔جس کی گلیاں ان کی حسین یادوں کا حصہ تھیں۔ جس کے درودیوار ’ چبوترے’ ممٹیاں ’ ان کے دل میں دھڑکتے تھے ۔ جس کی حویلیاں انہیں متحیر کردیتی تھیں۔
یہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی کا تذکرہ ہے جب رمیش پاکستان کے ایک قصبہ چنیوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا ۔ اسے وہاں کی تین چیزیں بہت اچھی لگتیں۔ مندر ’ مندر کے قریب واقع مسجد اور اس مسجد کے مینار۔ لاہور کے محلہ سنت نگر میں رہنے والی ایک چھوٹی سی لڑکی بھی اسے اچھی لگتی تھی۔ اس کا نام نمل تھا۔ بعد میں یہی نمل اس کی شریک ِ حیات بھی بنی۔ مندر’ مینار’ مسجد اور نمل۔ اتنی دیر میں آزادی کا بگل بجا اور یہ سب کچھ اس سے چھن گیا۔سوائے نمل کے۔ چنیوٹ سے چک جھمرہ کا ریلوے اسٹیشن ’ وہاں سے لاہور اور پھر بھارت۔ خوف کے گہرے سائے میں رمیش اپنے خاندان کے ہمراہ دہلی پہنچ گیا۔ زندگی کے اگلے پچاس سال محنت میں گذر گئے ۔ کچھ دہلی اور کچھ امریکہ۔ جستجو ’ کامیابی ’ ریٹائرمنٹ ’ سیرو سیاحت ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اسے چنیوٹ کی یاد بے چین کر نے لگی۔ایک بار’ صرف ایک بار میں نمل کے ساتھ وہاں جاناچاہتا ہوں جہاں میرے بزرگوں کی زندگی گزری ۔ رمیش کھنہ نے یہ کہا اور پھر سوچنے لگا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوگا۔ سوچتے سوچتے ایک دیا سا روشن ہوا۔ اسے دسمبر 1993 کی وہی رات یا د آنے لگی جب چوہدری اللہ بخش کے گھر آتش دان کے گرد بہت سے لوگ جمع تھے۔ پھر اسے یاد آیا کہ وہاں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو خود بھی چنیوٹ کی محبت کا دعویدار تھا۔رمیش کھنہ نے چوہدری اللہ بخش سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا اور پھر بہت سے مراحل طے کرنے کے بعدرمیش کھنہ اور اس کی بیگم نمل میرے پاس لاہور پہنچ گئے۔ میرے اصرار پر انہوں نے مجھے ہی میزبانی کا شرف بخشا۔ اگلے سات روز انہوں نے یوں گزارے جیسے وہ کسی جنت میں رہ رہے ہوں۔رمیش کھنہ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ چنیوٹ کی گلیوں میں دیوانہ وار گھومتا رہا۔ اس نے ہر اس یاد کو تازہ کیا جو اس کے دل میں آباد تھی۔ چنیوٹ کے لوگوں نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔اس کے راستے میں آنکھیں بھی بچھائیں اور دل بھی۔ شہر کے ناظم ، ذوالفقار علی شاہ نے اسے اپنے گھر مدعو کیا اور اتنی عزت دی کہ خوشی سے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ جب وہ رخصت ہوا تو ایک پوٹلی میں اس گھر کی مٹی ساتھ لے کے گیا جہاں اس نے پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں ۔سرحدوں کی فصیل خواہ کتنی ہی بڑی ہو مٹی کی محبت تو زندہ رہتی ہے۔
یہ چند دن پلک جھپکتے میں بیت گئے۔ جانے سے پہلے رمیش کھنہ نے اخوت کو دو سو ڈالر کا عطیہ بھی دیا۔ یہ کسی غیر ملکی کا اخوت کیلئے پہلا عطیہ تھا۔ ‘‘اخوت کا رشتہ سرحدوں سے بلند ہے’’۔ رمیش کھنہ نے عطیہ کے ساتھ ایک پیغام بھی دیا۔ امریکہ جا کر رمیش صاحب نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ‘‘ تقسیم ہند کے وقت میرے بزرگ جب چنیوٹ سے نکلے تو نہ صرف معاشی غربت کا شکار تھے بلکہ کسی بڑے سماجی رتبہ کے مالک بھی نہ تھے ۔ اگرمیں اپنے مرحوم والد کو یہ بتا سکتا کہ میں چنیوٹ میں ان لوگوں کا مہمان تھا جن کی حویلیوں کو دیکھ کے ہم حیران ہواکرتے تھے تو شاید انہیں یقین ہی نہ آتا ۔ چنیوٹ میری یادوں کا حرم ہے۔ واپس آنے کے باوجود یوں لگتا ہے جیسے میں ابھی تک طواف میں ہوں۔ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ایک عام انسان کو اتنا بڑابنا دیا’’۔ وہی رمیش کھنہ جو ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا ہجرت کی صعوبتوں کے باوجود لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ اسی کا نام گردش ِ لیل و نہار ہے۔لوگ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں لیکن رمیش کھنہ نے ماضی کو فراموش نہیں کیا۔ اس نے اپنی محنت سے ایک برتر سماجی رتبہ حاصل کیا۔لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے اپنی پوستین کو پہنے رکھا۔ یادوں کا حرم اور طواف۔آج پینسٹھ سال پہلے رمیش کھنہ جب خوف کے عالم میں چنیوٹ سے نکلا تو اسے کیا خبر تھی کہ وہ ایک روز اسی شہر کا مہمان بنے گا۔ شہر کا ناظم اسے دل میں جگہ دے گا۔کبھی خوشی کبھی غم ’کبھی توقیر کبھی تحقیر۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اونچ نیچ کی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں۔
٭٭٭