بیوی کو ڈانٹنا

مصنف : علامہ یوسف القرضاوی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2022

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردے۔بالکل غلط بات ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے۔ جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ہے۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضائے رب رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے: 
فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے   کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ۝  (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ      ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسااوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھروالوں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھربھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے مہر کی ذمے داری ہے۔ بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہے۔ اور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن اختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)