نام دیو مقبرہ رابعہ دورانی اورنگ آباد (دکن) کے باغ میں مالی تھا۔ ذات کا ڈھیڑ، جو بہت نیچ قوم خیال کی جاتی ہے۔ قومو ں کا امتیاز مصنوعی ہے اور رفتہ رفتہ نسلی ہو گیا ہے ۔ سچائی ’ نیکی ’ حسن کسی کی میراث نہیں۔ یہ خوبیاں نیچی ذات والوں میں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی اونچی ذات والوں میں
قیس ہو کوہ کن ہو یا حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
مقبرے کا باغ میری نگرانی میں تھا ۔ میرے رہنے کا مکان بھی باغ کے احاطے ہی میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنے چمن بنانے کا کام نام دیو کے سپرد کیا۔ میں اند ر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی اس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا۔ لکھتے لکھتے کبھی نظر اٹھاکر دیکھتا تو نام دیو کو ہمہ تن اپنے کام میں مصروف پاتا۔ بعض دفعہ اس کی حرکتیں دیکھ کر بہت تعجب ہوتا مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو ایک پودے کے سامنے بیٹھا اس کا تھانولا صاف کر رہا ہے۔ تھانولاصاف کر کے حوض سے پانی لیا اور آہستہ آہستہ ڈالنا شروع کیا۔ پانی ڈال کر ڈول درست کی اور ہر رخ سے پودے کو مڑ مڑ کر دیکھا۔ پھر ا لٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ دیکھتا جاتا تھا اور مسکراتا اور خوش ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ کام اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے بے مزہ کام نہیں بیگار ہے۔
اب مجھے اس سے دلچسپی ہونے لگی۔ یہاں تک کہ بعض وقت اپنا کا م چھوڑ کر اسے دیکھا کرتا۔ مگر اسے کچھ خبر نہ ہوتی کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے ۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔وہ اپنے پودوں اور پیڑوں ہی کو اپنی اولاد سمجھتا تھااور اولاد کی طرح ان کی پرورش اورنگہداشت کرتاتھا ۔ ان کو سر سبز اور شاداب دیکھ کر ایسا ہی خوش ہوتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔وہ ایک ایک پودے کے پاس بیٹھتا، ان کو پیار کرتا ،جھک جھک کے دیکھتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا ان سے چپکے چپکے باتیں کر رہا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے اس کا دل بھی بڑھتا اور پھولتا تھا۔ ان کو توانا اور ٹانٹا دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ کبھی کسی پودے میں اتفاق سے کیڑا لگ جاتا یا کوئی اور روگ پیدا ہو جاتا تو اسے بڑا فکر ہوتا۔ باغ کے داروغہ یا مجھ سے کہہ کر بازار سے دوائیں منگاتا۔ دن بھر اسی میں لگا رہتا اور اس پودے کی ایسی سیوا کرتا جیسے کوئی ہمدرد اور نیک دل ڈاکٹر اپنے عزیز بیمار کی کرتا ہے ۔ہزار جتن کرتا اور اسے بچا لیتااور جب تک وہ تندرست نہ ہوجاتا اسے چین نہ آتا۔اس کے لگائے ہوئے پودے ہمیشہ پروان چڑھے اور کبھی کوئی پیڑ ضائع نہ ہوا۔
باغوں میں رہتے ہوئے اسے جڑی بوٹیوں کی بھی شناخت ہو گئی تھی۔ خاص کر بچوں کے علاج میں اسے بڑی مہارت تھی۔ دور دور سے لوگ اس کے پاس بچوں کے علاج کے لیے آتے تھے او روہ اپنے باغ ہی سے جڑی بوٹیاں لا کر بڑی شفقت اور غور سے ان کا علاج کرتا۔ کبھی کبھی دوسرے گاؤں والے بھی اسے علاج کے لیے بلا لے جاتے، وہ بلا تامل چلا جاتا اور مفت علاج کرتا اور کبھی کسی سے کچھ نہیں لیتاتھا۔
وہ خود بھی بہت صاف ستھر ا رہتا تھا اور ایسا ہی اپنے چمن کورکھتا تھا۔ اس قد ر پاک صاف جیسے رسوئی کا چوکا۔ کیا مجال جو کہیں گھاس پھونس یا کنکر پتھر پڑا رہے ۔ روشیں باقاعدہ، تھانولے درست ،سنچائی اور شاخوں کی کاٹ چھانٹ وقت پر، جھاڑنا بہارنا صبح شام روزانہ۔ غرض سارے چمن کو آئینہ بنا رکھا تھا۔باغ کے داروغہ عبدالرحیم خاں خود بھی کارگزار اور مستعد شحص ہیں اور دوسروں سے بھی کھینچ تان کر کام لیتے ہیں۔ اکثر مالیوں کو ڈانٹ دپٹ کرنی پڑتی ہے ۔ورنہ ذرا بھی نگرانی کی ڈھیل ہوئی ’ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے یا بیڑی پینے لگے یا سائے میں جا لیٹے ۔عام طور پر انسان فطرتاً کاہل، کام چور واقع ہوا ہے۔آرام طلبی ہم میں کچھ موروثی ہو گئی ہے ۔ لیکن نام دیو کو کبھی کچھ کہنے سننے کی نوبت نہ آئی۔ وہ دنیا مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں لگارہتا۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔
ایک سال بارش بہت کم ہوئی کنوؤں اور بادلیوں میں پانی برائے نام رہ گیا۔ باغ پر آفت ٹوٹ پڑی۔ بہت سے پودے اور پیڑ تلف ہو گئے جو بچ رہے وہ ایسے نڈھال او رمرجھائے ہوئے تھے جیسے دق کے بیمار۔ لیکن نام دیو کا چمن ہر ا بھرا تھا ۔ وہ دور دور سے ایک ایک گھڑا پانی کا سر پر اٹھا کے لاتا اور پودوں کو سینچتا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ قحط نے لوگوں کے اوساں خطا کر رکھے تھے اورانہیں پینے کو پانی بھی مشکل سے میسر آتا تھا۔ مگر یہ خدا کا بندہ کہیں نہ کہیں سے لے ہی آتا اور اپنے پودوں کی پیاس بجھاتا جب پانی کی قلت اور بڑھی تو اس نے راتوں کو بھی پانی ڈھو ڈھو کر لانا شروع کیا ۔ پانی کیا تھا یوں سمجھیے کہ آدھا پانی اور آدھی کیچڑ ہوتی تھی۔ لیکن یہی گدلا پانی پودوں کے حق میں آب حیات تھا۔میں نے اس بے مثل کار گزاری پر اسے انعام دینا چاہا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا ۔ شاید اس کا کہنا ٹھیک تھا کہ اپنے بچوں کے پالنے پوسنے میں کوئی انعام کا مستحق نہیں ہوتا۔ کیسی ہی تنگی ترشی ہو وہ توہر حال میں کرنا ہی پڑتا ہے۔
اس نے نہ فن باغ بانی کی کہیں تعلیم پائی تھی اورنہ اس کے پاس کوئی سند یا ڈپلوما تھا۔البتہ کا م کی دھن تھی کام سے سچا لگاؤ تھا اور اسی میں اس کی جیت تھی۔
ایک دن نہ معلوم کیا بات ہوئی کہ شہد کی مکھیوں کی یورش ہوئی سب مالی بھاگ بھاگ کر چھپ گئے ۔نام دیو کو خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہو رہا ہے ’ وہ اپنے کام میں لگارہا۔اسے کیا معلوم تھا کہ قضا اس کے سر پر کھیل رہی ہے ۔ مکھیوں کا غضبناک جھلڑ اس غریب پر ٹوٹ پڑا۔ اتنا کاٹا اتنا کاٹا کہ بے دم ہو گیا۔ آخر اسی میں جان دے دی۔ میں کہتا ہوں اسے شہاد ت نصیب ہوئی۔
وہ بہت سادہ مزاج بھولا بھالا اورمنکسرا المزاج تھا اس کے چہرے پر بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ چھوٹے بڑے ہر ایک سے جھک کے ملتا۔ غریب تھا او رتنخواہ بھی کم تھی اس پر بھی غریب بھائیوں کی بساط سے بڑھ کر مدد کرتا تھا۔ کا م سے عشق تھا او ر آخر کام کرتے کرتے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
گرمی ہو یا جاڑا ’ دھوپ ہویا سایہ’ وہ دن رات برابر کا م کرتا رہا۔ اسے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ میں بہت کام کر تا ہوں یا میرا کام دوسروں سے بہتر ہے ۔ اسی لیے اسے اپنے کام پر فخر یاغرور نہ تھا۔ وہ یہ باتیں جانتا ہی نہ تھا۔ اسے کسی سے بیر تھا نہ جلاپا۔ وہ سب کو اچھا سمجھتا اور سب سے محبت کرتا تھا۔ وہ غریبوں کی مدد کرتا وقت پر کام کرتا، آدمیوں جانوروں کی خدمت کرتا،لیکن اسے کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ کوئی نیک کام کر رہا ہے۔
نیکی اس وقت تک نیکی ہے جب تک آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کوئی نیک کام کررہا ہے جہاں اس نے یہ سمجھنا شروع کیا نیکی نیکی نہیں رہتی
جب کبھی مجھے نام دیو کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نیکی کیا ہے اور بڑا آدمی کسے کہتے ہیں۔ ہر شخص میں قدرت نے کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے ۔ اس صلاحیت کو درجہ کمال تک پہنچانے میں ساری نیکی اور بڑائی ہے۔ درجہ کما ل تک نہ کبھی کوئی پہنچا ہے نہ پہنچ سکتا ہے ۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کی کوشش ہی میں انسان انسان بنتا ہے یہ سمجھو کند ن ہو جاتا ہے ۔
اگر نیکی اور بڑائی کا یہ معیار ہے تو نام دیو نیک بھی تھا اور بڑا بھی۔تھا تو ذات کا ڈھیڑ پر اچھے اچھے شریفوں سے زیادہ شریف تھا۔