چھوٹے نام بڑے لوگ
ايك پاكستاني ٹيچر
شہنيلہ
اقراء ایک پاکستانی خاتون ہیں جو بیرون ملک مقیم ہیں. وہ ایک بین الاقوامی اسکول میں نویں اور دسویں کو اکانومکس پڑھاتی ہیں. ان کی کلاس میں مختلف قومیت کے بچے ہیں. نویں جماعت کی پہلی کلاس میں ہی ان کی نظر جیمس پہ پڑی. ایک ڈرا، سہما سا بچہ، جس میں اعتماد نام کی کوئی شے نہیں تھی. پوری کلاس میں وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا رہا. اس نے نہ کسی کلاس ڈسکشن میں حصہ لیا اور نہ ہی اپنے بارے میں کچھ بتایا.اقراء کو لگا کہ بعض بچے introvert ہوتے ہیں. کم ہی کسی سے گھلتے ملتے ہیں. لیکن اقراء کو اپنی صلاحیتوں پہ اعتماد تھا. اسے پتہ تھا کہ اس کی کلاسز اتنی لائیولی اور انٹرسٹنگ ہوتی ہیں کہ پوری کلاس اس کے مضمون میں دلچسپی لینے پر مجبور ہو جاتی ہے. لیکن دوسرے دن اقراء کو سمجھ آگئی کہ جیمس کیوں لیا دیا سا رہتا ہے.دوسرے دن کوریڈور سے گزرتے ہوئے اقراء نے جیمس کو چلتے ہوئے دیکھ لیا. اسے اندازہ ہوگیا کہ جیمس تیسری جنس سے ہے. چونکہ والدین پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ ملک میں مقیم ہیں، اس لیے اس کو ہر وہ سہولت دینا چاہ رہے ہیں جو جیمس کا حق ہے. لیکن دوسرے بچوں کے رویے کو کیسے درست کیا جائے، جس میں وہ جیمس کو الگ نہ سمجھیں. اقراء کو اپنے بچے یاد آگئے. اگر اس کے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا تو؟؟اللہ نے اقراء کو چڑیا جیسا دل دیا تھا. اس نے سوچا کہ اللہ نے مجھے اقراء بنایا ہے. مجھے جیمس بھی تو بنا سکتا تھا. کیا مجھے اس کے لیے رب کا شکرگزار نہیں ہونا چاہیے. اور شکرگزاری کا سب سے بڑا اظہار جیمس کی مدد کرنا ہے. اس کی شخصیت کو ابھارنا اور سنوارنا ہے.آہستہ آہستہ اقراء نے جیمس کو کلاس کی ہر ایکٹیویٹی میں شامل کرنا شروع کردیا. جیمس پروجیکٹس بہت اچھے کرلیتا تھا. ذہین تھا. آئی ٹی اسکلز بہت اچھی تھیں. اقراء نے کلاس میں اس کو سراہنا شروع کیا. پھر اقراء نے اپنے جیسے تین چار چڑیا جیسا دل رکھنے والے بچوں کے دل میں جیمس کی مدد کرنے کا احساس پیدا کرنا شروع کیا. چند ہی مہینوں میں جیمس کلاس میں ہنسنے کھلکھلانے لگا. جس دن جیمس نے انٹر اسکول بیڈمنٹن کا ٹورنامنٹ جیتا، اس دن جیمس کی والدہ اقراء کے پاس آئیں. منہ سے کچھ نہیں کہا لیکن بہتی آنکھیں اور مسکراتے لب کہہ رہے تھے کہ اللہ کے پاس اقراء کے لیے بہت بڑی سفارش پہنچ گئی ہے.
جیمس اس وقت امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں بہت اچھی ڈگری لے رہا ہے. جو قدرت نے اسے بنایا، وہ وہی ہے لیکن جیمس کے والدین کی ہمت، محنت، لگن اور اقراء جیسے اساتذہ کے زریعے اللہ نے یہ بات ثابت کردی کہ زمین و آسمان کی ہر نعمت پہ سب کا برابر کا حق ہے. اور اس حق کو نہ دینے والا صرف جیمس کا ہی نہیں اللہ کا بھی مجرم ہے.جیمس آج تک اقراء سے رابطے میں ہے. اقراء بھی اپنے بچوں کے ساتھ جیمس کے لیے بھی بہت دعائیں کرتی ہے.