چھوٹے نام بڑے لوگ
جیرا پھوپھی
خطيب احمد
چند دن قبل میں بائیک پر حافظ آباد جا رہا تھا۔ راستے میں ایک آدمی نے لفٹ مانگی تو بٹھا لیا۔ وہ بھائی کلائنفیلٹر سنڈروم کے ساتھ تھا۔ یعنی XXY, اس سنڈروم کے ساتھ افراد کے چہرے پر داڑھی مونچھوں کی صورت میں کوئی بال نہیں ہوتے۔ سینے پر بھی بال نہیں ہوتے اور ٹانگوں پر بھی لڑکیوں کی طرح کم ہی بال ہوتے ہیں۔ چھاتیاں بھی زنانہ ساخت کی ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ باپ بننے کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہوتی۔ ان میں سے کچھ خواجہ سرا کا پیشہ اپنا کر ناچ گانا وغیرہ کی فیلڈ اپنا لیتے ہیں اور کچھ مردانہ شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مردانہ کپڑے پہن کر مردانہ کام کرتے ہیں۔
انہوں نے مجھے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا سپیشل بچوں کے ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہوں۔ بولے مجھے بھی وہاں مالی چوکیدار لگوا دیں۔ میں نے پوچھا آپ کیا کام کرتے ہیں؟ بولے میں ایک کنٹریکٹر کے پاس ٹریکٹر چلاتا ہوں۔ اور ابھی ہم لوگ یہ گوجرانولہ تا موٹروے ون وے روڑ بنا رہے ہیں۔ اتنی بات ہی ہوئی تھی تو ہم حافظ آباد بائی پاس پر پہنچ گئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں بوتل پلائے بغیر نہیں جانے دونگا۔ میں نے بہت اصرار کیا پھر چائے پینے پر اتفاق ہو گیا اور ہم ایک ٹی سٹال پر بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا بھائی آپ کا گاؤں کونسا ہے؟ بولے دس سال ہوگئے گاؤں چھوڑ دیا ہوا۔ ماں مری تو گھر سے نکل آیا تھا ۔ بوڑھا باپ ہے بھائیوں کے پاس رہتا ہے۔ میں نے پوچھا گاؤں کیون چھوڑا؟ تو بولا میرا نام نذیر احمد ہے۔ بچپن میں مجھے جیرا دیندار کہا جاتا تھا۔ نویں دسویں جماعت تک جب میری عمر کے باقی لڑکوں کی داڑھی مونچھیں نکل آئیں اور میرے چہرے پر ایک بال نہ نکلا تو مجھے جیرا کھسرا کہا جانے لگا۔ لڑکے اور بڑی عمر کے لوگ مجھے Bad Touch کرنے لگے اور مجھے اپنے ساتھ سیکس کرنے کی آفر کرنے لگے۔ ایسا کہنے والے میرے چچا و تایا زاد بھائی بھی تھے۔ جن کے ساتھ میں بڑا ہوا تھا۔ گھر میں بھی یہ سوچا جانے لگا کہ میں شاید اب خواجہ سرا کمیونٹی جائن کر لوں گا۔ زنانہ کپڑے پہنوں گا اور ناچ گا کر سیکس ورکر بن کر اپنی زندگی گزاروں گا۔ مسجد کے مولوی صاحب نے مجھے بہت محبت کرتے تھے۔ اللہ کے ولی تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کیا کہ اللہ کے ہر فیصلے کو دل سے قبول کرتے ہیں۔ اللہ سے کبھی بھی اپنا تعلق کمزور نہ ہونے دینا۔ اور جو تمہارا دل کہتا ہے اپنی وہ پہچان قائم رکھنا۔ تو میں نے مرد بن کر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ڈاکٹروں نے کچھ ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا کہ میں باپ نہیں بن سکتا۔ اماں نے کوشش کی کہ کوئی ایسی بیوہ یا طلاق شدہ لڑکی مل جائے جس کے پاس ایک دو بچے ہوں۔ اور میں ان بچوں کو اپنی اولاد سمجھ کر پال لوں گا۔ مجھے بھی اماں کی یہ بات سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ مولوی صاحب بھی خوش ہوئے کہ یہ اچھا آئیڈیا ہے۔ مگر جہاں بھی بات کی لوگوں نے کہا کہ ہم کھسرے کے ساتھ اپنی بیٹی نہیں بیاہ سکتے۔ وہ تو مرد ہی نہیں ہے۔لڑکی والے کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ناچ گانا اور بھیک مانگنا وغیرہ نہ شروع کر دے جو خواجہ سرا کمیونٹی میں سے کچھ لوگ کرتے ہیں۔ خیر کہیں سے بھی رشتہ نہ ملا۔ مجھے کچھ اوباش لڑکوں نے پھوپھی کہنا شروع کر دیا۔ میری عمر کے باقی لڑکوں کو چاچا یا چاچو اور مجھے پھوپھی۔ میرے جیرے دیندار سے جیرا پھوپھی ہوگیا۔ میں اس لفظ سے بلکل غصہ نہیں کرتا تھا۔ مگر چھوٹے بچے، اوباش لڑکے اور بڑی عمر کے آدمی بھی مجھے چھیڑنے یا چڑانے کو پھوپھی پھوپھی کہہ کر بھاگ جاتے۔ میں نے کبھی کسی کو نہیں کہا کہ مجھے ایسا نہ کہو۔ وہ لوگ میرا تماشا بنانا چاہتے تھے۔ یہ دنیا تماش بینوں کی دنیا ہے۔ یہاں ہر طرف کھیل تماشے جاری ہیں۔ مذاق اڑانے کو کسی کی ذات مل جائے تو یہ چیز یہاں سب سے پسندیدہ ہے۔ یہاں لوگوں کے دکھ درد اور تکلیف کا بھی تماشا لگا کر خوشی حاصل کی جاتی ہے۔ مگر میں نے اپنے گاؤں والوں کو یہ موقع نہیں دیا اور گاؤں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ دس سال میں تین بار گاؤں گءا ہوں۔ اور اب بھی ہر بار مجھے چند لوگوں نے پھوپھی کہہ کر تنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیرے نے بتایا کہ جب مظلوم اپنا فیصلہ اوپر والے پر چھوڑ دیتا ہے تو اسکی آہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اسے جو تین لوگ سب سے زیادہ تنگ کرتے تھے وہ تینوں ہی تماشا بن چکے ہیں۔ایک کی بیوی دو بچے چھوڑ کر اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی۔ ایک نشے پر لگ گیا اور زمیندار ہوتے ہوئے کوڑھے کے ڈھیروں سے خالی بوتلیں اور گتہ تلاش کرکے بھیک مانگ پر نشے کے پیسے جمع کرتا ہے۔ تیسرے کو فالج پڑا اور موت کی آرزو میں چارپائی پر پڑا ہے۔ یہ تین کردار جیرے کو گاؤں میں نکالنے میں پیش پیش تھے۔ لڑکوں اور بچوں کو بھی یہی تینوں جیرے کے پیچھے لگاتے تھے کہ اسے پھوپھی کہہ کر غصہ دلاؤ۔ جیرا کہتا ہے کہ میں نے ان کے حق میں بد دعا کی تھی کہ میرا تماشا لگانے والو اللہ تمہارا تماشا لگائے اور تم دیکھو کہ کسی کا تماشا لگا کر خوش ہونا کیسا ہے۔ جیرے نے گاؤں میں ایک بار چکن شاپ بنائی۔ تو رات کو اسکی دوکان کے باہر کوئی لکھ گیا پھوپھی چکن شاپ۔ اور یہ عبارت لکھنے والا وہی تھا جسے اب فالج ہو گیا ہے۔ ان ہاتھوں سے وہ اپنا منہ بھی صاف نہیں کر سکتا۔ جیرے کو میں نے کہا کہ بھائی درجہ چہارم میں مالی یا چپڑاسی وغیرہ بھرتی ہونے سے ہزار گنا بہتر ہے جو کام کر رہے ہو وہی کرتے رہو۔ تم اچھے ڈرائیور ہو کچھ پیسے جمع کرو پاسپورٹ بنواؤ اور دبئی چلے جاؤ۔ وہاں بڑا ٹرالا یا کوئی لوڈر وغیرہ چلایا کرو۔ اپنی اچھی زندگی وہاں گزارو۔ اور کبھی بھی واپس لوٹ کر یہاں نہ آنا۔ یہاں بسنے والے تم جیسے لاکھوں سپیشل افراد کو انہی غیر انسانی رویوں کا سامنا ہے۔ تمہاری ہمت کو سلام ہے جو تم آج تک ٹوٹے نہیں ہو۔ بھکاری نہیں بنے عزت نفس قائم ہے اور محنت کرکے کما رہے ہو۔ تم ہمارا فخر ہو۔