چھوٹے نام بڑے لوگ
جسٹس منير احمد مغل
تحرير – نا معلوم
میرے پاس چند دن قبل ایک ریٹائرڈ پولیس افسر آئے‘ ان کا چھوٹا سا مسئلہ تھا‘ میں ان کی جتنی مدد کر سکتا تھا میں نے کر دی‘ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو میں نے ان سے زندگی کا کوئی حیران کن واقعہ سنانے کی درخواست کی۔میری فرمائش پر انھوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میں نے سوچا‘ مجھے یہ آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہیے‘ پولیس افسر کا کہنا تھا –
میں 1996میں لاہور میں ایس ایچ او تھا‘ میرے والد علیل تھے‘ میں نے انھیں سروسز اسپتال میں داخل کرا دیا‘ سردیوں کی ایک رات میں ڈیوٹی پر تھا اور والد اسپتال میں اکیلے تھے‘ اچانک ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ الٹیاں کرنے لگے۔میرے خاندان کا کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا‘ وہ دو مریضوں کا کمرہ تھا‘ ان کے ساتھ دوسرے بیڈ پر ایک مریض داخل تھا‘ اس مریض کا اٹینڈنٹ موجود تھا‘ وہ اٹھا‘ اس نے ڈسٹ بین اور تولیہ لیا اور میرے والد کی مدد کرنے لگا‘ وہ ساری رات ابا جی کی الٹیاں صاف کرتا رہا‘ اس نے انھیں قہوہ بھی بنا کر پلایا اور ان کا سر اور بازو بھی دبائے- صبح ڈاکٹر آیا تو اس نے اسے میرے والد کی کیفیت بتائی اور اپنے مریض کی مدد میں لگ گیا- میں نو بجے صبح وردی پہن کر تیار ہو کر والد سے ملنے اسپتال آ گیا۔اباجی کی طبیعت اس وقت تک بحال ہو چکی تھی‘ مجھے انھوں نے اٹینڈنٹ کی طرف اشارہ کر کے بتایا‘ رات میری اس مولوی نے بڑی خدمت کی- میں نے اٹینڈنٹ کی طرف دیکھا‘ وہ ایک درمیانی عمر کا باریش دھان پان سا ملازم تھا‘ میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن پھر سوچا‘ اس نے ساری رات میرے والد کی خدمت کی ہے‘ مجھے اسے ٹپ دینی چاہیے- میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکالے اور اس کے پاس چلا گیا‘ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پانچ سو روپے پکڑانے لگا‘ وہ کرسی پر کسمسایا لیکن میں نے رعونت بھری آواز میں کہا ’’لے مولوی‘ رکھ یہ رقم‘ تیرے کام آئے گی‘‘ وہ نرم آواز میں بولا ’’نہیں بھائی نہیں‘ مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں‘ میں نے آپ کے والد کی خدمت اللہ کی رضا کے لیے کی تھی‘‘-میں نے نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیے‘ اس نے واپس نکالے اور میرے ہاتھ میں پکڑانا شروع کر دیے جب کہ میں اسے کندھے سے دباتا جا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھا‘ میں اسے بار بار ’’او مولوی چھڈ‘ ضد نہ کر‘ رکھ لے‘ تیرے کام آئیں گے‘‘ بھی کہہ رہا تھا مگر وہ بار بار کہہ رہا تھا‘ میرے پاس اللہ کا دیا بہت ہے‘ مجھے پیسے نہیں چاہییں- میں نے رات دیکھا‘ آپ کے والد اکیلے ہیں اور تکلیف میں ہیں‘ میں فارغ تھا لہٰذا میں اللہ کی رضا کے لیے ان کی خدمت کرتا رہا‘ آپ لوگ بس میرے لیے دعا کردیں وغیرہ وغیرہ لیکن میں باز نہ آیا‘ میں نے فیصلہ کر لیا میں ہر صورت اسے پیسے دے کر رہوں گا۔
پولیس افسر رکے‘ اپنی گیلی آنکھیں اور بھاری گلہ صاف کیا اور پھر بولے‘ انسان جب طاقت میں ہوتا ہے تو معمولی معمولی باتوں پر ضد باندھ لیتا ہے- ہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے‘ میں نے بھی پیسے دینے کی ضد بنا لی تھی مگر مولوی مجھ سے زیادہ ضدی تھا‘ وہ نہیں مان رہا تھا-میں اس کی جیب میں پیسے ڈالتا تھا اور وہ نکال کر کبھی میری جیب میں ڈال دیتا تھا اور کبھی ہاتھ میں پکڑا دیتا تھا۔میں نے اس دھینگا مشتی میں اس سے پوچھا ’’مولوی یار تم کرتے کیا ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’بس ایسے ہی لوگوں کی خدمت کرتا ہوں‘‘ -وہ مجھے اپنا کام نہیں بتانا چاہتا تھا‘ میں نے اب اس کا ذریعہ روزگار جاننے کی ضد بھی بنا لی‘ میں اس سے بار بار اس کا کام پوچھنے لگا‘ اس نے تھوڑی دیر ٹالنے کے بعد بتایا ’’میں کچہری میں کام کرتا ہوں‘‘ -مجھے محسوس ہوا یہ کسی عدالت کا اردلی یا کسی وکیل کا چپڑاسی ہو گا‘ میں نے ایک بار پھر پانچ سو روپے اس کی مٹھی میں دے کر اوپر سے اس کی مٹھی دبوچ لی اور پھررعونت سے پوچھا ’’مولوی تم کچہری میں کیا کرتے ہو؟‘‘اس نے تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور پھر میرے والد کی طرف دیکھا‘ لمبی سانس لی اور پھر آہستہ آواز میں بولا ’’مجھے اللہ نے انصاف کی ذمے داری دی ہے‘ میں لاہور ہائی کورٹ میں جج ہوں‘‘ -مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا کہا؟ تم جج ہو!‘‘ اس نے آہستہ آواز میں کہا ’’جی ہاں‘ میرا نام جسٹس منیر احمد مغل ہے اور میں لاہور ہائی کورٹ کا جج ہوں‘‘ -یہ سن کر میرے ہاتھ سے پانچ سو روپے گر گئے اور میرا وہ ہاتھ جو میں نے پندرہ منٹ سے اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا وہ اس کے کندھے پر ہی منجمد ہو گیا۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آواز حلق میں فریز ہو گئی- مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اب کیا کروں؟ جسٹس صاحب نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے سے اتارا‘ کھڑے ہوئے‘ جھک کر فرش سے پانچ سو روپے اٹھائے‘ میری جیب میں ڈالے اور پھر بڑے پیار سے اپنے مریض کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’یہ میرے والد ہیں‘ میں ساری رات ان کی خدمت کرتا ہوں‘ان کا پاخانہ تک صاف کرتا ہوں۔میں نے رات دیکھا آپ کے والد اکیلے ہیں اور ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے لہٰذا میں انھیں اپنا والد سمجھ کر ان کی خدمت کرتا رہا‘ اس میں شکریے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ -یہ سن کر میں شرم سے زمین میں گڑ گیا کیوں کہ میں صرف ایس ایچ او تھا اور میرے پاس والد کے لیے وقت نہیں تھا‘ میں نے انھیں اکیلا اسپتال میں چھوڑ دیا تھا جب کہ ہائی کورٹ کا جج پوری رات اپنے والد کے ساتھ ساتھ میرے والد کی خدمت بھی کرتا رہااور ان کی الٹیاں بھی صاف کرتا تھا‘ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا- میں ان کے پاوں میں جھک گیا مگر اس عظیم شخص نے مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔وہ پولیس افسر اس کے بعد رونے لگے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کی اس کے بعد جسٹس صاحب سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی؟‘‘ وہ روندھی ہوئی آواز میں بولے ’’بے شمار‘ میں نے زندگی میں ان سے اچھا‘ دین دار‘ ایمان دار اور نڈر انسان نہیں دیکھا‘ ان کا پورا نام جسٹس ڈاکٹر منیر احمد خان مغل تھا‘ انھوں نے دو پی ایچ ڈی کی تھیں‘ ایک پاکستان سے اور دوسری جامعۃ الاظہر مصر سے‘ دوسری پی ایچ ڈی کے لیے انھوں نے باقاعدہ عربی زبان سیکھی تھی۔انھوں نے اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین پر 24 کتابیں لکھی تھیں‘ وہ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ تیزی سے مقدمات نبٹانے میں مشہور تھے‘ چیف جسٹس جس مقدمے کا فوری فیصلہ چاہتے تھے وہ مقدمہ جسٹس منیر مغل کی عدالت میں لگ جاتا تھا‘ میں خاموشی سے سنتا رہا- پولیس افسر کا کہنا تھا‘ جسٹس صاحب غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ ایل ایل بی کے بعد مجسٹریٹ بھرتی ہو گئے‘ محنت کی عادت تھی۔
مجسٹریٹی کے دور میں ان کے پاس کام کم ہوتا تھا لہٰذا انھوں نے عدالتی صفحات کی بیک سائیڈ پر کلمہ لکھنا شروع کر دیا-یہ سارا دن کلمہ طیبہ لکھتے رہتے تھے شاید اس پریکٹس کا صلہ تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی انرجی اور ٹائم میں برکت ڈال دی‘ انھوں نے دوران ملازمت ایک پی ایچ ڈی کی‘ پھر عربی زبان سیکھی‘ جامعۃ الاظہر میں داخلہ لیا اور عدالتی ٹائم کے بعد عربی زبان میں تھیسس لکھ کر مصر سے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی- وہ ہر نیا قانون پڑھتے اور اس پر فوری طور پر کتاب لکھ دیتے تھے‘ وہ کتاب بھی خود ٹائپ کرتے تھے اور اس سارے کام کے دوران عدالتی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوتی تھی- وہ دھڑا دھڑ مقدمات نبٹا دیتے تھے۔انھوں نے پوری زندگی اپنے والد کی خدمت خود کی‘ ان کا بول وبراز تک خود صاف کرتے تھے‘ والد زیادہ بیمار ہوئے تو ان کے بیڈ پر پاوں کے قریب گھنٹی کا بٹن لگا دیا اور گھنٹی اپنے کمرے میں رکھ لی‘ والد ضرورت پڑنے پر پاؤں سے بٹن دبا دیتے تھے اور وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے‘ اپنی بیگم کو بھی والد کا کوئی کام نہیں کرنے دیتے تھے۔
میں نے ان سے جسٹس صاحب کی زندگی کے مزید واقعات سنانے کی درخواست کی‘ پولیس افسر ہنس کر بولے‘ ایک بار ان کی عدالت میں جائیداد کے تنازع کا کیس آیا‘ ایک طرف سوٹیڈ بوٹیڈ امیر لوگ کھڑے تھے‘ ان کے ساتھ مہنگے وکیل تھے جب کہ دوسری طرف ایک مفلوک الحال بوڑھا کھڑا تھا‘ اس کا وکیل بھی مسکین اور سستا تھا- جسٹس صاحب چند سکینڈز میں معاملہ سمجھ گئے لہٰذا انھوں نے بوڑھے سے پوچھا ’’باباجی آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘بزرگ نے جواب دیا ’’میں پرائمری ٹیچر ہوں‘‘ یہ سن کر جسٹس صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہا‘ ماشاء اللہ ہماری عدالت میں آج ایک استاد آئے ہیں لہٰذا یہ استاد کرسی پر بیٹھیں گے اور عدالت سارا دن ان کے احترام میں کھڑی ہو کر کام کرے گی اور اس کے بعد یہی ہوا‘ وہ بوڑھا استاد کرسی پر بیٹھا رہا جب کہ جسٹس صاحب اپنے عملے اور وکلاء کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کرتے رہے- جسٹس صاحب نے سارے مقدمے نبٹانے کے بعد آخر میں بوڑھے استاد کا کیس سنا اور پانچ منٹ میں وہ بھی نبٹا دیا‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا جسٹس صاحب حیات ہیں؟‘‘ان کا جواب تھا ’’جی ہاں لیکن بیمار ہیں اور مفلوج ہیں‘‘ پولیس افسر نے اس کے بعد پرس سے پانچ سو روپے کے پانچ بوسیدہ نوٹ نکالے‘ میرے سامنے رکھے اور کہا ’’یہ وہ پانچ سو روپے ہیں‘ میں آج بھی انھیں تعویذ کی طرح جیب میں رکھتا ہوں‘‘ میں نے نوٹ اٹھائے‘ انھیں بوسا دیا اور اسے واپس پکڑا دیے‘ اس نے بھی وہ چومے اور دوبارہ پرس میں رکھ لیے‘ وہ واقعی تعویذ تھے‘ انھیں ایک اصلی انسان نے چھوا تھا۔