کیا پاکستان میں کبھی ویسی جمہوریت آ سکتی ہے جسے مغربی معنوں میں جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب تب ہی مل سکتا ہے جب اس سوال کا جواب مل جائے کہ جنہیں ہم سیاسی جماعتیں سمجھتے ہیں کہیں وہ سیاسی قبیلے تو نہیں۔ کسی قبیلے کی سرداری حاصل کرنے کے دو مروجہ طریقے ہیں۔ یا تو کوئی طاقتور قبائلی اپنے مخالفین کو زیر کرلے یا پھر قبائلی اپنے میں سے کسی بہتر آدمی کو سردار چن لیں۔ سردار عام طور پر تاحیات سردار رہتا ہے اوراسکی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسکی سرداری موروثی ہو جائے۔ سرداری نظام میں چونکہ جمہوری تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی اس لئے بغاوت کی صورت میں یا جانشینی کی لڑائی میں قبیلہ تقسیم در تقسیم بھی ہو جاتا ہے اور پھر ہر گروہ کا سربراہ خود کو سردار تصور کرسکتا ہے۔ان میں سے چند گروہ قائم رہتے ہیں اور بہت سے گروہ زمانے کے ہاتھوں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔اس آئینے میں آپ ذرا ان گروہوں کو دیکھیے جنہیں عرفِ عام میں سیاسی جماعتیں سمجھا جاتا ہے۔مثلاً مسلم لیگ کو لے لیں جس کی محمد علی جناح سے پہلے کوئی اوقات نہ تھی۔انکی سرداری میں اس قبیلے نے کامیابی حاصل کی اور چونکہ یہ بوجوہ ون مین شو تھا اس لئے جناح صاحب کے منظر سے ہٹتے ہی ایک بڑا قبیلہ کئی چھوٹے چھوٹے سرداروں میں تقسیم ہوگیا۔ان میں سے کئی ذیلی گروہ دیگر قبیلوں میں ضم ہو گئے اور کئی نے نام بدل لئے۔جس طرح قبیلے کا سردار ساری پالیسیوں، دیگر قبائل سے تعلقات کی نوعیت اور قبیلے کے تمام اندرونی فیصلوں اور جزا و سزا پر اختیار رکھتا ہے اسی طرح ہر سرکردہ سیاسی قبیلے کا سردار یا سردارنی بھی پورے قبیلے کا محور بنے رہنے پر ساری توانائی لگا دیتے ہیں۔ ترقی کا معیار صلاحیت نہیں وفاداری ٹھہرتی ہے۔پیپلز پارٹی کو لیجئے اور اسکا نفسیاتی موازنہ کسی بھی بگٹی، مہر یا لند قبیلے سے کرلیں۔ سردار ذوالفقار علی بھٹو تاحیات سردار چنے گئے۔ انکی صاحبزادی تاحیات سردارنی بنیں۔مرتضی بھٹو ایک ذیلی قبیلے کے سربراہ بن گئے۔ انکے بعد غنویٰ بھٹو نے سرداری سنبھال لی۔ سردار کوثر نیازی اور سردار غلام مصطفیٰ جتوئی کے قبائلی گروہ امتدادِ زمانہ کا شکار ہوگئے۔ جمیعت علمائے اسلام کے سردار مفتی محمود، انکے بعد صاحبزادے سردار فضل الرحمان اور انکی سرداری کو چیلنج کرنے والے ذیلی قبیلے کے سردار سمیع الحق، جمیعت علمائے پاکستان کے سردار شاہ احمد نورانی، انکے بعد صاحبزادے سردار انس نورانی، ذیلی قبیلوں کے سربراہ سردار ستار نیازی، سردار شاہ فرید الحق، سردار ظہور الحسن بھوپالی، سردار حنیف طیب۔ غرض سارا قبیلہ تتر بتر ہوگیا۔متحدہ قومی موومنٹ کے سردار الطاف حسین اور ایک ذیلی قبیلے کے سردار آفاق احمد۔ نیشنل عوامی پارٹی کی سرداری ہمیشہ باچا خانی شاخ کے پاس رہی۔
قبائلی مزاج کی ذہنیت کے ساتھ جب کوئی قبیلہ بیلٹ بکس یا بغیر بیلٹ بکس برسراقتدار آتا ہے تو حریفوں کو نشانہ بنانے یا بخشش و کرم بانٹنے کا وہی انداز اختیار کرتا ہے جو کسی بھی روایتی سردار کا ہوتا ہے۔ایسے قبائلی حالات میں کیا پولٹیکل کلچر، کیسی سیاسی جماعت اور کونسی جمہوریت۔۔۔
(بشکریہ ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام)