منتخب كالم
بنگلہ ديش ميں بھارت كی ديوار برہمن
آصف محمود
بنگلہ دیش میں بھارت کی ”دیوار برہمن“ گری ہے۔ یہ دیوار برلن کے انہدام سے بڑا واقعہ ہے۔بھارت نے بنگلہ دیش کو ہمیشہ ایک کالونی اور طفیلی ریاست سمجھا۔ بنگلہ دیش کی نئی نسل نے اس ہندو شاؤنزم کے بغاوت کر کے یہ اعلان کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش بھارت کی کالونی نہیں ہے، آزاد ریاست ہے۔ بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں جو مجسمے ٹوٹ رہے ہیں، غور کیا جائے تو معلوم ہو گا یہ ”دیوار برہمن“ ٹوٹ رہی ہے۔
کسی کا یہ خیال ہے کہ یہ محض ملازمتوں میں مکتی باہنی کے کوٹے کے خلاف رد عمل تھا تو اسے اپنے ”مطالعہ بنگلہ دیش“ کو بہتر کرنا ہو گا۔اتنی بڑی تبدیلی اچانک نہیں آ جاتی، تہہ خاک ایک اضطراب ہوتا ہے جو کسی خاص موقع پر کسی بڑے واقعے میں ڈھل جاتا ہے۔کچھ بھی اچانک نہیں ہوا،خود بھارت کو احساس تھا کہ یہ سانحہ ہونے والا ہے۔
بنگلہ دیش نے2021 میں ا پنی گولڈن جوبلی منائی جس کے لیے مودی بھی شریک ہوئے۔ مودی کے خلاف اس وقت بنگلہ دیش میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا کہ یہ بنگلہ دیش کی گولڈن جوبلی کم اور بھارتی غلامی کی گولڈن جوبلی زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ فسادات ہوئے مگر کچل دیے گئے۔ بھارت حسینہ واجد کے ذریعے ایسی آوازوں کو کچلتا آیا تھا۔ مگر بھارت کو بخوبی معلوم تھا کہ بنگلہ دیش میں ’دیوار برہمن‘ شکستہ ہو رہی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا میں پیناکی چکرابورتی کے 23 نومبر 2023 کو شائع ہونے والے مضمون کا عنوان تھا: ”بنگلہ دیش میں بھارت دشمن جذبات کیوں فروغ پا رہے ہیں؟“۔ دی ڈپلومیٹ نے 17 جون 2023 کو لکھا کہ بنگلہ دیش میں بھارت کی نفرت کی لہر چل پڑی ہے۔ انڈیا ٹوڈے میں سوادیس رائے نے 13 مئی 2024 کو کو لکھا کہ بنگلہ دیش میں بھارت دشمنی ایک Chronic Disease بن چکی ہے۔تاہم ایسا نہیں کہ یہ چیز حال ہی میں پیدا ہوئی ہو۔ اس کی جڑیں اس سے بھی قدیم ہیں۔ریڈٖف میں راماناندا سین گپتا نے 21دسمبر 2005 کو (یعنی 19 سال قبل) ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا کہ ”بنگلہ دیش بھارت سے نفرت کیوں کرتا ہے“۔
بھارت نے اس نفرت کو حسینہ واجد کے جبر کے ذریعے سنبھالنے کی کوشش کی ا ور بھارت ناکام ہو گیا۔یہ ایک گہری تحریک تھی۔ بھارت کے اہل دانش اسے دوسری ”تحریک پاکستان‘ یا دو قومی نظریے کا احیا قرار دے رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں معلوم ہے بنگلہ دیش میں یہ محض نوکریوں کے کوٹے کا مسئلہ نہیں ہے، یہ بھارت کی دیوار برہمن گری ہے۔
بھارت نے بنگلہ دیش کو اپنی کالونی سمجھا۔ عوامی لیگ نے اس واردات میں سہولت کاری کی۔ رد عمل میں عوامی لیگ بھی دیوار برہمن کے ملبے تلے پڑی ہے۔بھارت نے بنگلہ دیش کا بد ترین معاشی استحصال کیا۔ تجارتی حجم کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن اس حجم کی حقیقت یہ ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کو قریب 10 ارب ڈالر کی اشیاء فروخت کرتا تھا اور بنگلہ دیش سے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کی چیزیں خریدتا تھا۔ یعنی بنگلہ دیش کو ساڑے آٹھ ارب ڈالر سالانہ کا خسارہ تھا۔نئی نسل نے اس پر سوال اٹھانے شروع کر دیے کہ یہ یک طرفہ معاملہ کیوں ہے۔تقابل ہونے لگا کہ بھارت کو جو تجارتی سہولیات بنگلہ دیش نے دے رکھی ہیں، بھارت جواب میں بنگلہ دیش کو ویسی ہی سہولیات کیوں نہیں دیتا۔ جب اس پر بات چل نکلی تو اس نکتے نے بنگلہ دیش کے کاروباری طبقہ کو خاصا برہم کیا کہ بھارت نے نیپال، بھوٹان اور حتی کہ سری لنکا کو بھی سہولیات دے رکھی ہیں لیکن بنگلہ دیش کو نہیں دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک چل پڑی۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ بھارت ولڈ کپ ہارا تو ڈھاکہ میں ہونے والا جشن بھی اسی نفرت کا عکاس تھا۔
بنگلہ دیش میں بھارت سے آنے والے دریاؤں کی تعداد 54 ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 25 سال تو یہ حال رہا کہ بنگلہ دیش درخواستیں کرتا رہا کہ ہمارے ساتھ پانی کی تقسیم کا کوئی معاہدہ کیجیے لیکن ان پچیس سالوں میں کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔ 1996 میں جا کر ایک معاہدہ ہوا لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا۔ 1996 سے لے کر 2024 تک قریب ڈیڑھ عشرہ بنتا ہے، اس ڈیڑھ عشرے میں بھارت نے بنگلہ دیش سے پانی کے مسائل پر ایک دفعہ بھی ڈھنگ سے بات نہیں کی۔اہل دانش میں سے کسی نے آواز اٹھائی تو اس آواز کو حسینہ واجد کے ذریعے کچل دیا جاتا۔پانی بنگلہ دیش کا حساس ترین معاملہ ہے۔ اس کی معیشت کا بڑا انحصار اسی پر ہے۔ جس خطے میں بنگلہ دیش کا بہترین چاول پیدا ہوتا ہے وہاں بھارت نے اپ سٹریم میں چودہ ڈیم بنا لیے۔ بنگلہ دیش کے کسان کو پانی چاہیے۔ بھارت پانی دے نہیں رہا۔ رہی سہی کسر نہروں کے انٹر لنکنگ سسٹم کے ذریعے پانی کا رخ بدل کر پوری کر دی۔ سکم سے آنے والے دریائے تورسا کے معاملات نہایت سنگین ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی معیشت تباہ ہو رہی تھی لیکن حسینہ واجد کسی کو بولنے نہیں دے رہی تھی۔ ایک مصنوعی معاشی بلبلہ تھا جو بھارت کے رحم و کرم پر تھا۔ یہاں تک کہ کئی علاقوں میں پانی کی سپلائی کے معاہدے بھی حسینہ واجد نے بھارت سے کر رکھے تھے۔ یعنی ان علاقوں کو پینے کے پانی کے لیے بھی انتظامی طور پر بھارت کا محتاج کر دیا گیا تھا۔
بھارت کی یہ محتاجی حسینہ واجد کی طاقت تھی۔ ملک معاشی طور پر جتنا بھارت کے رحم و کرم پر ہوتا ملک میں بھارتی اثر و رسوخ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا۔ یہ اثر جتنا بڑھتا اس کا فائد ہ حسینہ واجد کو ہوتا کیوں کہ بھارت اس کی پشت پر تھا اور اس کے تاریخی عوامل تھے۔
یہی کام سنودیا سی پورٹ کے ساتھ ہوا۔ بنگلہ دیش جیسے ملک کو حسینہ واجد نے ڈھنگ کی بندرگاہ سے محروم رکھا۔ کیوں رکھا؟ کیوں کہ بھارت ایسا چاہتا تھا۔ چٹاگانگ وغیرہ کی بندرگاہوں پر بڑے جہاز لنگر انداز نہیں ہو پاتے تھے۔ حالت یہ ہے کہ ایسے جہاز اپنا سامان سنگا پور اور سری لنکا اتارتے ہیں وہاں سے چھوٹے جہازوں میں بنگلہ دیش پہنچتا ہے۔ چین کی مدد سے گہرے پانیوں میں بندر گاہ کا منصوبہ سامنے آیا۔ بھارت کے دباؤ پر حسینہ واجد نے اس منصوبے کو ختم کر دیا۔بنگلہ دیش کا سماج یہ بھی سمجھتا ہے کہ بھارت نے صرف معاشی ہی نہیں، بنگلہ دیش کو سیاسی کالونی بھی بنا رکھا ہے ا ور حسینہ واجد کو مسلط کیے رکھنے میں اس کی سہولت کاری بھی ہے۔اس لیے رد عمل دونوں کے خلاف ہے۔ دیوار برہمن بھی گر چکی ہے اور بھارتی طفیلیوں کے مجسمے بھی سلامت نہیں۔
بنگلہ دیش کے اخبارات میں بھارت سے نفرت کی تین اور وجوہات بھی بیان کی جا رہی ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر بھارتی مظالم، بی جے پی رہنما کی جانب سے توہین رسالت پر حسینہ واجد حکومت کی خاموشی، رضاکاروں پر اندھے مظالم۔بھارت میں ایسے ہی صف ماتم نہیں بچھی۔ اس کی وجوہات ہیں۔