سیاسی کارکن اور صديق الفاروق

مصنف : خورشید ندیم

سلسلہ : سیاسیات

شمارہ : دسمبر 2024

سياسيات

سیاسی کارکن اور صديق الفاروق

خورشید ندیم

پاکستان جیسے نیم خواندہ اور نیم جمہوری معاشرے میں،سیاسی کارکن بھی کیا عجیب جنس ہے۔مرید کی طرح سادہ اور مخلص۔لیڈر کی چالاکیوں سے بےخبر یا لاتعلق۔آنکھ اور دماغ بند کر کے اعتبار کرنے والا اور دل وجاں سے قربان ہو نے والا۔فنا فی الشیخ کی طرح فنا فی الزعیم ۔کروڑوں کی گاڑی اور ٹھاٹ باٹ سے مرعوب ہونے والا۔کوئی اسلام یا سوشلزم کا تڑکا لگا دے تو پھر وارفتگی میں مرید سے بھی دوہاتھ آگے۔

مولانا اشرف علی تھانوی کے حوالے سے کہیں یہ روایت پڑھی یا سنی کہ انہوں نے اپنے ایک مرید سے کسی کام کے لیے کہا۔وہ حکم بجا لایا مگر سادہ لوحی اور ارادت مندی میں،معاملہ پیر کی طلب سے مختلف ہو گیا۔اس پر مسکرائے اور فرمایا:’بعض لوگوں کے دماغ میں بھی عقل کے جگہ اخلاص بھرا ہو تا ہے۔‘سیاسی کارکن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔اخلاص کا یہ عالم کہ سیاسی لیڈر کی گاڑی کے بونٹ پر سوار ہے جو شیشہ بند کیے بیٹھا ہے اور کارکن اپنی اس سعادت پر نازاں ہے۔اس سے بے خبر ہے کہ عشق میں جان بھی جا سکتی ہے۔لیڈر اس کی موجودگی سے بے نیاز یہ سوچ رہا ہے کہ ان کارکنوں کےا ستحصال سے وہ کیا کیا سیاسی فوائد اٹھا سکتا ہے۔ایسے اگر دو چار اور ہاتھ آجائیں تو کیا کہنے۔

یہ بے چارہ کارکن کبھی نہیں جان سکتا کہ سیاسی جماعتیں،اقتدار کے حصول کے لیے قائم ہو تی ہیں۔ان کا ساتھ دیتے وقت اسے یہ دیکھنا ہے کہ ان کی سیاست میں ، ایک عام آدمی کے مفاد کا بھی کچھ لحاظ ہے یا نہیں؟یہ عقیدت و محبت کا نہیں،مفاد کا تعلق ہے۔بالکل ایسے ہی ہے جسے ایک دکان دار اور گاہک کا تعلق ہے۔دکان دار سے محبت نہیں کی جاتی۔صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے پاس سودا گاہک کے مطلب کا ہے یا نہیں؟دکان دار مہذب اور دیانت دار ہو تو گاہک اس کا احترام کر تا ہے۔یہ ممکن ہے کہ اس کی سابقہ رویے کی بنیاد پر اس کے کہنے پر کوئی مال خریدلے۔یہ مال اگر عیب دار نکل آئے تو پھر یہ محبت قائم نہیں رہتی۔ہمارا سیاسی کارکن یہ نہیں جان پایا کہ ایک سیاسی لیڈر سے اس کا تعلق اصلاً دکان دار اورگاہک کا تعلق ہے۔

کیا ایک عام صحابی نہیں جانتا تھا کہ خدا کے حضور اور بارگاہ نبوت میں ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کا کیا مقام ہے؟ یہی ابوبکر ؓاور یہی عمرؓ جب ایک سیاسی راہنما اور حکمران کے طور پر سامنے آتے ہیں تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔وہ عقیدت کو ایک طرف رکھتا اور اپنے لیڈر کے اقدامات کو تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے،یہاں تک کہ اس کے لباس کو بھی۔کوئی بات معمول سے ہٹ کر دکھائی دے تو سر ِبزم سوال کرتا ہے۔صحابہ کی جماعت، عقیدت مندوں کا کوئی اجتماع نہیں تھا جو سیاسی راہنماؤں سے کسی روحانی رشتے میں باندھے ہوئےتھا۔ بات تعلق بالرسول کی ہے تو بلالؓ بھی سردار ہیں اور سر آنکھوں پر۔ اگر معاملہ حکمرانوں کا ہے تو پھر دوسری بات ہے۔سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں انہیں اسی رویے کی تلقین کی تھی۔سیدنا عمرؓ نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ عام شہری ان کو سیدھا رکھنے میں ایک سخت ناقد کی نگاہ رکھتا ہے۔ ریاست مدینہ اسی طرح وجود میں آئی

جدید جمہوری ریاست بھی اسی اصول پر قائم ہو ئی ہے۔مغرب میں لوگ اپنے راہنماؤں پر نظر رکھتے ہیں۔وہ ان سے دل کا نہیں،دماغ کا تعلق قائم رکھتے ہیں۔وہ اپنے راہنماؤں پر اندھے اور بہرے ہو کر اعتماد نہیں کرتے۔اس کے تضادات کا دفاع نہیں کرتے۔اس سے وضاحت مانگتے اور اگر اطمینان نہ ہو تو الگ ہو جاتے ہیں۔وہ سیاسی اخلاقیات کو اہم جانتے ہیں مگر مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھتے ہیں۔ مذہب اور مذہبی شخصیات سے تعلق عام طور پر محبت و عقیدت کا ہو تا ہے۔مذہب چونکہ مابعد الطبیعیاتی اساسات رکھتا ہے اور اس کی بنیاد پر قائم ہو نے والا کوئی رشتہ جوہری طور پر مادی نہیں ہو تا،اس لیے ایسے رشتوں میں عقیدت اور محبت کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔سیاسی راہنماؤں سے ہمارےتعلق کی بنیاد مادی ہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیں کوئی خیر پہنچا سکتے ہیں یا نہیں۔

نظریاتی سیاست چونکہ ایک رومانوی تصور ہے،اس لیے ،نظریاتی جماعتوں میں بھی ،اس رومانویت کے زیرِ اثر عقیدت کا عنصر شامل ہو جا تا ہے۔یہ ہمیں اشتراکی جماعتوں میں نظر آتا ہے اور مذہبی جماعتوں میں بھی۔تاہم یہ اب دنیا بھر متروک ہوتا جا رہا ہے، اگرچہ ہمارے ہاں قائم ہے۔ جب لوگوں پر یہ کھلتا ہے کہ مذہبی سیاست کر نے والی شخصیت بھی عام سیاسی راہنما جیسی ہے تو ان کو نفسیاتی دھچکالگتا ہے اور وہ اس کے نتیجے میں بدگمان بھی ہوجاتے ہیں۔ہمیں آئے دن ایسے لوگ ملتے ہیں،اگرچہ ان کی تعداد کم ہے۔اگریہ اقتدار کی سیاست کو جان پائیں تو کبھی ایسے نفسیاتی المیے سے دوچار نہ ہوں۔

پاکستان کی سیاست اگر فی الجملہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر سکی تو اس کا ایک سبب سیاسی کارکن بھی ہے۔اس نے سیاسی راہنما سے تعلق قائم کرتے وقت،یہ پہلو پیشِ نظر نہیں رکھا کہ سیاست کا تعلق دل سے نہیں،دماغ سے ہوتا ہے۔ہمارے ہاں یہ معاملہ مزید سنگین صورت اختیار کر چکا ہے کہ لوگ سیاسی راہنماؤں میں اب سماجی مصلح بھی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اقتدار کی سیاست کے سادہ عمل کو سماجی تبدیلی کا ایک ہمہ جہتی عمل سمجھ رہے ہیں۔بظاہر معقول لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ سیاسی راہنما کے بھیس میں انہیں مسیحا مل سکتا ہے یا مل گیا ہے۔

جس طرح مرید کی سادہ لوحی نے ،مذہبی استحصال کےایک وسیع کاروبار کو جنم دیا ہے،اسی طرح سیاسی کارکن کی سادگی نے بھی سیاسی استحصال کےایک نظام کو جنم دیا ہے۔ وہ اپنی سادگی کے باعث کبھی زندگی جیساقیمتی اثاثہ بھی گنوا دیتا ہے۔جب کبھی کوئی سیاسی تحریک اٹھتی ہے تو مجھے سب سے زیادہ اس کارکن کی فکر ہو تی ہے جسے اقتدار کے اس آتش کدے کا ایندھن بننا ہو تا ہے۔لیڈر صرف اس کو بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھی اس آگ سے دور رکھتے ہیں۔کارکن،پروانے کی طرح، اس میں جل کر خاک ہو جاتا ہے۔

سیاسی کارکن کو اس انجام سے محفوظ رکھنے کے لیےسیاسی کلچرکو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو رائے ساز ہوتے ہیں۔ میڈیا سب سے اہم ہے مگر اس پر ان کاغلبہ ہے جو کاروبار کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کا ہدف ،دیکھنے والوں (subscribers)کی تعداد میں اضافہ ہے۔انہیں اس سے دلچسپی نہیں کہ معاشرے کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔اسے اگر اس کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے تو یہ میڈیا اس سے بھی گریز نہیں کر تا۔سیاسی کارکن اتنا سادہ لوح ہے کہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسا جاتا ہے۔خبر کے ایک ذریعے سے بار بار جھوٹ سنتا ہے اور بدمزا نہیں ہو تا۔اس ماحول میں کون سی تعلیم اور کیسی تربیت؟

جس طرح پیری مریدی کا کاروبار سدا بہار ہے،اسی طرح اقتدار کی سیاست کا یہ کاروبار بھی سدا بہار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک لوگ استحصال کرانے پر آمادہ ہیں،ان کا استحصال ہو تا رہے گا۔اہلِ سیاست کے لیے لاشیں محض اعدادو شمار ہیں۔ سیاسی کارکن کا لہو کہانی میں صرف رنگ بھرنے کے لیے ہے۔مصطفیٰ زیدی یاد آئے:

وہ داستاں تھی کسی اور شہزادے کی--مرا لہو تھا فقط زیبِ داستاں کے لیے

صدیق الفاروق کی کہانی

خورشید ندیم

صدیق الفاروق نے بھی آج مٹی کی چادر اوڑھ لی۔ ایک منفرد مگر اداس کردینے والی داستان کا آخری باب مکمل ہوا۔صدیق الفاروق کی کہانی ایک ایسے عام آدمی کی سرگزشت ہے جو سیاست کی وادی میں، یہ سوچ کر آنکلا کہ یہاں کہی گئی بات قولِ صادق ہوتی ہے اور اس نگری میں خوابوں کو تعبیر ملتی ہے۔ اُسے تعبیر کیا ملتی کہ اس شہر میں اس کے خواب ہی کھو گئے۔ وہ اِس دنیا کا بن سکا اور نہ اپنی دنیا ہی میں لوٹ سکا۔ وہ یہ نہیں جان پایا کہ یہ اہلِ سرمایہ کی بستی ہے جہاں عام آدمی ہمیشہ اجنبی رہتا ہے۔شطرنج کے کھیل کاایک پیادہ، جو بادشاہ کی حفاظت کرتے ہوئے، خود کو قربان کردے۔ یہ ایک ایسے دیہاتی کی کہانی ہے جو شہر کی چکا چوند میں آنکلا اور اور پھر اِس روشنی نے اُسے نگل لیا۔

صدیق الفاروق کے ساتھ میرا تعلق کم و بیش چار دھائیوں پر محیط تھا۔ اس کی اساس نظریاتی تھی۔ پھر یہ تعلق ہمہ جہتی ہوگیا۔ مجھے خامہ فرسائی کا شوق تو تھا، مگر مروجہ معنوں میں "صحافی" بننے کا خیال کبھی دل میں نہیں آیا۔ جن کو پڑھ کر لکھنے کی خواہش جاگی، ان میں سے بعض کو صحافی کہا جاسکتا ہے مگر ان کا اصل تعارف علم و ادب ہے۔ تب صحافت ادیبوں اور عالموں کا پیشہ تھا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جب پاسپورٹ بنوایا تو پیشے کے خانے میں ’صحافی‘ لکھا۔ میں بھی یہی خیال کر تا تھا کہ صحافی ابوالکلام و ابو الاعلیٰ اور ’دبستانِ شبلی‘ کے اکابر کا نام ہے۔ اس لیے اس پیشے کے فنی پہلوں کی طرف رغبت نہ ہو سکی۔ اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا اور اس عہد میں دبستانِ شبلی کی نمائندہ شخصیت جاوید احمد غامدی صاحب کے علم و فضل سے براہ راست استفادے کاموقع مل گیا۔ میں نے ’اشراق‘ جیسے علمی جریدے کے لیے لکھنا شروع کیا۔ یہی دور تھا جب مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے دستِ شفقت نے ہاتھ تھاما توہفت روزہ ’زندگی‘ میں بھی کالم لکھنے لگا۔ اُن دنوں میرا قیام لاہور میں تھا۔ اپنے شہر راولپنڈی لوٹا تو صدیق الفاروق نے ایک روزنامے میں کالم نگاری کے لیے اصرار کیا جس کے مالک مدیر سے ان کی دوستی تھی۔ کالم نگاری کا آغاز کیا تو اسی اخبار کا ادارتی مدیر بنادیا گیا۔ یوں میں نے پہلی بار اخبار کے اندر جھانکا اور اس کے خدوخال کو قریب سے دیکھا۔ یہ صدیق الفاروق ہی تھا جس نے پھرمجھے وزیراعظم کا تقریر نگار بنوا دیا۔اس تمام عرصے میں نے اُس کو قریب سے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک عام آدمی جب اقتدار کی سیاست میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہتا ہے تو اسے کتنی مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ برس ہا برس، شب و روز کی محنت کے بعد، اسے جو کچھ ملتا ہے، اس کو پانے کے بعد وہ زبانِ حال سے یہی کہتا سنائی دیتا ہے:

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم--بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

جمہوریت کا یہ نظام، سرمایہ داری کی عطا ہے۔ اس میں سرمایے کا ایک خاص کردار ہے۔ سرمایہ داری نے جو سیاسی کلچر دیا ہے، اس کے اجزائے ترکیبی میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ یہ جماعتیں اپنی تنظیم اور عوام میں اثرو و رسوخ بڑھانے کے لیے، سرمایے کی محتاج ہوتی ہیں۔ اس طرح ان جماعتوں میں وہی لوگ قیادت کے منصب پر فائز ہوسکتے اور نتیجتاً اقتدار تک پہنچتے ہیں جو صاحبِ سرمایہ ہوں۔ جمہوریت جب جاگیردارانہ پس منظر میں آگے بڑھتی ہے، جیسے ہمارے ہاں ہے تو اس سے ایک سیاسی اشرافیہ پیدا ہو تی ہے، اقتدار جس کے دائرے سے کبھی نکل نہیں سکتا۔جمہوریت کو سرمایے کی گھٹن سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ کہیں کامیاب، کہیں ناکام۔ بھارت جیسے معاشرے میں جہاں جاگیردارانہ نظام نہیں ہے، وہاں جمہوریت کا ثمر، کبھی کبھی عام آدمی کے دامن میں بھی آگرتا ہے مگر بالعموم اس کو سرمایہ دارانہ فضا ہی سازگار ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جمہوریت میں عام آدمی کی رائے سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کسے اقتدار کی مسند پر بیٹھنا ہے۔ یہ عام آدمی، اس کے لیے ایک سیاسی اشرافیہ ہی میں سے انتخاب کا پابند ہوتا ہے۔ عام آدمی خود اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا۔ صدیق الفاروق اس بات کو سمجھ نہیں سکا۔ اس نے گمان کیا کہ اس منڈی میں دیانت، محنت اور وفاداری جیسے اوصاف کی بھی قیمت لگتی ہے۔ اُس نے اپنی جماعت اور اس کی قیادت کے ساتھ وفاداری کی حد کر دی۔ اپنی جان پر کھیل گیا۔ مشرف دور میں حکومت اسے جیل میں بند کر کے اس کے وجود ہی سے منکر ہو گئی۔ نیپ کے پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم کے تاریخی الفاظ سب نے سنے کہ ’ہم اُسے ڈمپ (dump) کر کے بھول گئے‘۔ پھر ایک رات اچانک اسے ہزارہ کے جنگلات میں چھوڑ دیا گیا۔ انسانوں کے بعد، درندوں سے بچتا بچاتا، وہ آبادی تک اور پھر گھر پہنچا۔ سمندر سے اسے جو شبنم ملی، اس کا آخری مظہر متروکہ املاک بورڈ کی چیرمینی تھا۔ یہ بھی اسی اشرافیہ کے ایک عدالتی نمائندےکے ہاتھوں چھین لی گئی۔پارٹی کے ساتھ وفاداری بشرطِ استواری، بس اسی کام آسکی۔ صدیق الفاروق کی خواہش رہی کہ پارٹی اسے انتخابات میں اپنے ٹکٹ سے نوازے۔ اس خواہش کو پورا ہونا تھا نہ ہوئی۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ انتخابات سرمایے کا کھیل ہیں۔ اس کھیل میں اس کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ وہ اپنی سادہ لوحی میں مگر توقعات وابستہ کر بیٹھا. مایوس ہوا مگر شجر سے کسی بہار کی امید میں پیوستہ رہا جو اس کے مقدر میں نہ تھی۔ ایک بارپھر پارٹی کی حکومت بنی مگر کسی کی نگاہ اس پر نہیں پڑی۔ حال یہ ہوا کہ ایک وفاقی وزیر سے اس نے بار ہا ملنے کی کوشش کی مگر ملاقات تو درکنار، اس کا فون بھی نہیں سنا گیا۔ اس نے مگر سرِ عام شکوہ نہیں کیا۔ قدرت بھی اس پر مہربان نہیں رہی۔ چھبیس برس کا جوان بیٹا ایک دن اچانک چل بسا۔ دوسرے کو بیماری نے آلیا۔ اس کی معیشت ڈگمگاتی رہی اورآخری وار ایک جان لیوا بیماری نے کیا۔ پارٹی قیادت نے اس سارے عرصے میں کسی رابطے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ احسن اقبال صاحب اور عرفان صدیقی صاحب ملنے گئے۔ شاید اس لیے کہ ان کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے نہیں ہے۔ مولانا آزاد نے عربوں کی بات ہلِ ہند کو پہلی بار سنائی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ خاکسار نے کبھی گرہ لگائی تھی کہ اس کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتا۔سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینےوالی سیاست ایسی ہی ہوتی ہے۔ بے حس اور مفاد پر مرتکز ۔ اس میں اگر کوئی سرمایے کے بغیر داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام صدیق الفاروق جیسا ہوگا۔ فرزندِ راولپنڈی جیسے کسی عام آدمی نے سیاست میں جگہ بنائی تو اس لیے کہ اس نے پہلے دن سے اس راز کوپالیا تھا۔ اس کی مسلسل توجہ معاشی استحکام پر رہی۔ سعد رفیق نے مجھے بتایا کہ جیل جاکر اس نے اِس راز کو سمجھا اور پھر ساری توجہ اس پر صرف کر دی۔ یہاں تک کہ سرمایہ داروں کے لطف و کرم سے بے نیاز ہو گیا۔ اب وہ پارٹی میں بیٹھ کر بے خوف تنقید کر سکتا ہے۔ سرمایہ کی سیاست کو انسانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ قدرت سرمایہ اور صلاحیت ایک ساتھ کم ہی ارزاں کرتی ہے۔ وہ صلاحیت سے استفادہ کرتی ہے اورمحنت کا معاوضہ بھی دیتی ہے مگربقدرِ اشکِ بلبل۔ صدیق الفاروق کی سرگزشت، ہر اس عام آدمی کے لیے باعثِ عبرت ہے جو اقتدار کی سیاست میں آنے کا خواب دیکھتا ہے۔ عام آدمی کو کامیابی کے لیے پہلے خاص آدمی بننا پڑتا ہے۔

یہ اِس عارضی زندگی کی کہانی ہے۔ اصل زندگی مگر وہ ہے جو صدیق الفاروق کے لیے آج سے شروع ہوئی ہے۔ وہ اس بات سے باخبر تھا۔ آخری وقت تک اپنے رب سے وابستہ رہا۔ نئی زندگی میں صرف ایک سرمایہ کام آنے والا ہے اور وہ ہے نیکی۔ اللہ تعالیٰ صدیق الفاروق کی نیکیوں کو قبول کرے۔ اس کی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور اسے اپنی مغفرت سے نوازے۔ بلا شبہ کامیاب وہی ہے جو اس کی بخشش کا مستحق ٹھہرا۔