كيا مسلح جدوجہد ہی مزاحمت كا واحد راستہ ہے

مصنف : خورشید ندیم

سلسلہ : سیاسیات

شمارہ : فروری 2025

سياسيات

كيا مسلح جدوجہد ہی مزاحمت كا واحد راستہ ہے

خورشيد نديم

مسلمانوں نے اگر کسی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنی ہے تو انہیں پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ یہ مجبوری ہے۔ لڑائی لڑنی ہے تو پہلےتلوار خریدنا پڑے گی۔یہ بات بر صغیر کی سطح پر سب سے پہلے سرسید احمدخان نے سمجھانےکی کوشش کی۔اُن کے ساتھ جو سلوک ہوا،وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔اکبر اٰلہ آبادی جیسی مرنجاں مرنج شخصیت بھی سر سید کے خلا ف فن آزما ہو ئی:ہم کیا کہیں، احباب کیا کار نمایاں کر گئے--بی اے ہوئے، نوکر ہوئے ،پنشن ملی،پھر مر گئے

معلوم نہیں ہم مسلمان بی اے ایم اے سے کیوں دوربھاگتے ہیں ۔ لیلیٰ کی اماں نے جب رشتے کے لیے مجنوں کو ایم اے کرنے کو کہا تو وہ عشق سے د ست بردار ہو گیا،مگر ایم اے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔آخر وہ بھی مسلمان تھا۔اکبر ہی نے ہمیں وہ جواب سنایا ہے جو مجنون نے لیلیٰ کی ماں کو دیا:یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ--تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس

یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ چند ایک نے سر سید کی بات مانی۔ بی اے کر لیا اور پھر ایل ایل بھی۔پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کچھ وکیل میسر آ گئے اور یہ ملک آزاد ہو گیا۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مزاحمت کے لیے بی اے کر نا پڑتا ہےورنہ آزادی کے متوالے کبھی ایک میدان میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسرے میدان میں۔کبھی شاملی میں کام آتے ہیں اور کبھی ان کے قافلے افغانستان کی راہوں میں گردِ خاک ہو جا تے ہیں۔ یہ غلط فہمی،ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے کہ مسلح جد وجہد ہی مزاحمت کی واحد صورت ہے اور جو اس پر نقد کرتا ہے ، وہ مزاحمت ہی کا منکر ہے۔ مسلح جد وجہد کو مزاحمت کی واحد صورت قرار دینے کا رجحان انیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوا۔ظلم کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت میں ہے اور دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جائز سمجھا گیا ہے۔ مزاحمت کی کئی صورتیں ہو تی ہیں ۔ان کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے۔ کبھی بی اے کر نا بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔اس بات کی تفہیم کے لیے ہم پھر سر سید کی طرف لوٹتے ہیں۔سر سید نے بر صغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی سعی کی کہ اس وقت تعلیم ہی وہ ہتھیار ہو سکتا ہے جس سے مزاحمت ممکن ہے۔جنگ آزادی میں اگر چند سو بندوقیں تمہاری تلواروں اور افرادی قوت پر غالب رہیں تو اس فرق کو جانو۔خود کو بندو ق بنانےا ور چلانے کے قابل بناؤ۔ اس کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔لوگ مان کر نہیں دیے۔سب کچھ بر باد کر ڈالا۔شیخ الہند جیسا مجاہد بھی مالٹا کی اسیری کاٹ کر لوٹا تو اسی نتیجے تک پہنچا کہ سیاسی جد وجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ذھین آ دمی تھے، بی اے کیے بغیر یہ بات سمجھ گئے مگر انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی اتنا ذھین نہیں ہو تا۔اسے بی اے کر نے کے بعد ہی بات سمجھ میں آئے گی۔ بسترِ علالت پر جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے پہنچ گئے تا کہ مسلمان قوم کے نوجوانوں کو بی اے کر نے کے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود ہو۔

دنیا کا ادب مزاحمت سکھاتا ہے ۔اس کا وظیفہ یہی ہونا چاہیے۔ادب کسی سماج میں آئیڈیلز کو زندہ رکھنے کا عمل ہے۔سماج کے فکری نشاط اور اخلاقی ارتفاع کے لیے لازم ہے کہ آئیڈیلز اس کی نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہوں۔ان آئیڈیلز کو عملی صورت کیسے دی جائے گی ،یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی اس کی حکمت عملی بنتی ہے۔شاعروں میں علامہ اقبال کو یہ ا متیا ز حاصل ہے کہ انہوں نے نظم اور نثر دونوں میں کلام کیا۔ نثر میں انہوں نےمسلمانوں کے لیے عملی راستے تجویز کیے ہیں۔آپ یوں سمجھیں کہ ان کی نثر ’اقبال بی اے‘ کی تحریریں ہیں۔ شاعری میں خلافتِ عثمانیہ کے سقوط پر آنسو بہانے والا اقبال اگر عملاً تحریکِ خلافت سے الگ رہتا ہے تو اس کا کوئی سبب تو ہو گا۔آج جب یہ کہا جا تا ہے اہلِ فلسطین مسلح جد وجہد سے رک کر سو وزیاں کا حساب کریں اور سوچیں کہ کیا یہ ایک کامیاب حکمتِ عملی تھی، تویہ ان کومزاحمت سے روکنا نہیں،بلکہ متوجہ کرناہے کہ مزاحمت کے دوسرے راستے بھی ہو سکتے ہیں۔ مسلح جدو جہد کے جو فائدے بتائے جا رہے ہیں،ان کوسن کر اہلِ دانش کی بصیرت پر رونا آتا ہے ۔ دنیا میں ہر کا م کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے۔دیکھنا یہ ہےکہ فائدہ اور نقصان میں نسبت کیا ہے؟ دونسلیں بر باد ہوگئیں اور نتیجے میں کیا ہوا؟ دو سو یرغمالی رہا ہو گئے؟امریکہ بے نقاب ہوگیا؟کیا اس سے پہلے امریکہ یا اسرائیل نے کوئی نقاب اوڑھ رکھا تھا؟ اسرئیل کے خاتمےکی خواہش سے شروع ہونے والا سفر اب یہاں آپہنچا کہ غزہ کی زمین بھی پاؤں تلے سے سرک رہی ہے۔مسئلہ جذبے کی صداقت کا نہیں، حکمتِ عملی کا ہے ۔ اس ا م ہ ب ن ل ادن جیسا جذبہ کس کو نصیب ہو ا؟ آسودہ زندگی کو چھوڑ کر تورا بورا کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانےکے لیے فرہاد کا جگر چاہیے۔اس حکمتِ عملی نے مگر دنیا اور مسلمانوں کو کیا دیا؟ جاوید غامدی صاحب نے صحیح کہا تھاکہ اسامہ کاایمان قابلِ رشک اور بصیرت قابلِ افسوس ہے۔مزاحمت کی طرح ،اس نقد کی ایک نادرست تفہیم یہ کی جاتی ہے کہ اس صورتِ حال کا ذمہ دار فلسطینیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔پہلی بات تو یہ کہ اہلِ فلسطین اور حماس باہم مترادف نہیں۔عام فلسطینی ذمہ دار کہاں،وہ تو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہاہے۔ذرا ان چہروں کو دیکھیے جو اسرائیل کی قید سے رہا ہو کر آئے ہیں ،ان پر لکھا ہے کہ وہ کیسی زندگی چاہتے ہیں۔دوسرا یہ کہ ہم اسرائیل اور امریکہ جیسے ظلم کے معاونین کو مشورہ نہیں دے سکتے، اپنوں ہی کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود کو ظلم سے محفوظ بنائیں۔ایسی حکمتِ عملی اختیار کریں جس میں ان کا نقصان کم ہو۔یہی خیر خواہی کا تقاضا ہے۔

آج ایک رائے ہے کہ فلسطینیوں کو اسی طرح مرتے مارتے رہنا چاہیے۔اسی جدو جہد سے ایک دن آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔دوسری رائے ہے کہ اس میں نقصان بہت زیادہ ہےاور فائدہ بہت کم۔اس وقت فلسطینیوں کے لیے حالات جتنے ناساز گار ہیں،پہلے کبھی نہ تھے۔کہانیوں کی دنیا الگ ہے جو ہم ہر جنگ میں سنتے ہیں۔دنیا کا کوئی ایک ملک عملاًفلسطینیوں کے ساتھ نہیں کھڑا۔ صدر ٹرمپ نے بتا دیا ہے کہ امریکہ غزہ کو فلسطینیوں سے اب مستقلاً خالی کرانا چاہتا ہے۔ ان حالات میں فلسطینیوں کو ایک طویل  وقفہ امن کی شدید ضرورت ہے جس میں وہ اپنی توانائیاں مجتمع کر سکیں۔ ان کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقفے کی فراہمی کے لیے ہم ان کے مدد گار بنیں۔یہ بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہے۔اختلاف مزاحمت کرنے یا نہ کرنے میں نہیں،اس میں ہے کہ مزاحمت کیسے کی جا ئے؟مختصر یہ کہ مزاحمت کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا،اگرچہ ہم اس کے لیے آمادہ نہیں۔ اکبر اٰلہ آبادی نے مجنون اورلیلیٰ کی والدہ کا مکالمہ نقل کیا تو آغاز ہی میں اصل مسئلے کی نشان دہی کر دی تھی:خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر--مجھ کو تو ان کی خوش حالی سے ہے یاس--یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں--نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس