آمليٹ اور شام كی صورت حالات بشار الاسد كے بعد

مصنف : ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سلسلہ : سیاسیات

شمارہ : دسمبر 2024

سياسيات

آمليٹ اور شام كی صورت حالات بشار الاسد كے بعد

عاصم اللہ بخش

كيا آپ نے كبھی آمليٹ بنتے ديكھا ہے -کچا انڈا ایک برتن میں انڈیلنے کے بعد، اس میں نمک مرچ پیاز وغیرہ ڈال کر خوب اچھی طرح پھینٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد پہلے سے گرم تیل میں اس ملغوبہ کو ڈال دیا جاتا ہے۔ آملیٹ بنانے والا شخص اس خدشے سے کہ اس کا ہاتھ جل نہ جائے آملیٹ کو ہلانے جلانے اور پلٹانے کے لیے کسی چمچ یا دیگر مطبخی اوزار کا استعمال کرتا ہے۔ اب کبھی وہ انڈا پکانے کے لیے اس کی ایک سائیڈ گرم تیل میں ڈالتا ہے پھر پلٹا کے دوسری سائیڈ تیل میں ڈالتا ہے مقصد اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس کا انڈا صحیح طور سے پک کر اس کے حسب منشا تیار ہو۔

اب فرض کیجیے اس دوران ایک سائیڈ جسے پلٹا کر اوپر کر لیا گیا وہ فتح اور نصرت کے دعوے شروع کر دے اور دوسری سائیڈ کو طعنے دینا شروع کر دے اس کے متعلق اپ کیا سوچیں گے جبکہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ صورتحال کچھ ہی وقت میں پھر بدلنے والی ہے۔ اصل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو انڈا بنانے والا کر رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں تھاما "چمچہ" اس کے سارے کام انجام دے رہا ہے۔

اگر اپ کو اس مثال سے کچھ سمجھ آ رہا ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ بظاہر کوئی بھی جیتے، ہر صورت میں شکست بہرحال مسلمانوں کی ہی ہے۔ ہم کھلاڑی نہیں ہیں، صرف کھیل کا میدان ہیں جس میں کچھ کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کچھ چمچے ہیں جو کبھی آملیٹ کو ایک طرف پلٹا دیتے ہیں کبھی دوسری طرف پلٹا دیتے ہیں، بس۔

ہماری فتح کی ایک ہی صورت ہے جو اللہ تعالی نے بتا دی، کہ آپس میں اتحاد رکھو بصورت دیگر تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اب اللہ تعالی کی بات تو غلط نہیں ہو سکتی کہ اپ آپس میں ایک دوسرے سے بدگمان ہوں بدظن ہوں ایک دوسرے کی ناکامی پہ خوش ہوتے ہوں اور ۔۔۔۔ فتح بھی آپ ہی کی ہونی شروع ہو جائے ؟

اتحاد، یہ نہیں کہ اپ کہیں کہ آج سے ہم متحد ہیں۔ اتحاد کچھ اصولوں پہ ہوتا ہے، جیسے الحجرات اور قرآن کے دیگر حصوں میں اللہ نے بتائے ہیں۔ مثلاً، آپ تمام تر اختلاف کے باوصف ایک دوسرے کے ساتھ تواضع اور عدل کا معاملہ کریں ایک دوسرے کو برا نہ کہیں طعن نہ کریں، برے القاب سے مت پکاریں، اور ۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کے لیے اللہ سے معافی اور مغفرت طلب کرتے رہیں۔پھر اپ دیکھیں کیسے برکت پڑتی ہے۔

لیکن ایسا کیا نہیں جائے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دوسرے کے لیے جہنم کے ٹکٹ ایشو کرنے کے بجائے ہم نے مغفرت و معافی مانگنی شروع کر دی تو پھر ہم اپنے آپ کو "حق" کیسے ثابت کریں گے، یہ جتھے کہاں سے بنائیں گے۔ اور جتھا تو ہم بنا ہی اس لیے رہے ہیں کہ جس دن میں موقع ملے گا دوسرے کی ایسی تیسی پھیر دیں گے۔

بہرحال اللہ کا حکم بھی ہمارے سامنے ہے اور ہمارا حال بھی جنہیں 2016 میں فتح نظر ارہی تھی وہ آج کہاں ہیں اور جو مہربان 2024 میں فتح کے غلغلے بلند کر رہے ہیں وہ 2016 میں کہاں تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دونوں کو جو ایک ہی ہاتھ چلا رہا ہے وہ کہاں ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ جہاں جہاں یہ سلسلہ شروع ہؤا وہ اب تک ختم بھی ہؤا ؟ کسی ایک جگہ بھی ؟؟؟ اس سب میں مارا کون جا رہا ہے ۔۔۔۔ گھر سے بے گھر کون ہؤا، کاروبار کس کے تباہ ہوئے، معیشت کہاں کی کساد باری کی نذر ہو گئی۔

باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ ویسے، بظاہر پاکستان پر بھی ایک مرتبہ پھر کام شروع ہو چکا ہے۔