یہ بھی تو حج ہے
پروفیسر رف رف اخوت کے دیرینہ دوست ہیں۔ وہ ہر اتوار کی صبح علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے گلشن اقبال میں درسِ قرآن کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض اوقات کسی مہمان کو بلا کر خصوصی لیکچر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ ایک بار پروفیسر صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی کسی روز وہاں آکر اخوت کے بارے میں بتائیں۔ میں اگلے اتوار علی الصبح وہاں جا پہنچا۔ دو سو سے زیادہ مرد اور خواتین منتظر تھے۔ طویل گفتگو ہوئی اور ڈیڑھ دو گھنٹے بعد لوگ آہستہ آہستہ منتشر ہوگئے۔گفتگو کے بعد ایک انتہائی عمر رسیدہ شخص میرے پاس پہنچا۔ اس نے صرف اتنا پوچھا کیا غریب آدمی بھی اخوت کو عطیہ دے سکتا ہے پھر ہاتھ ملایا اور واپس چل دیا۔اگلی صبح رف رف صاحب ملے تو ان کے پاس پلاسٹک کا ایک لفافہ تھا جس میں دس’ دس ’ بیس بیس اور سو سو کے نوٹ تھے۔ کہنے لگے یہ کل دس ہزار روپے ہیں۔ کل جو بابا جی آپ سے ملے انہوں نے دیئے ہیں۔ اخوت کیلئے۔ وہ ملتان روڈ پر پھل کی ریڑھی لگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کئی سال سے حج کیلئے رقم جمع کررہا ہوں۔ اس امید میں کہ ڈیڑھ لاکھ ہو جائیں تو میں یہ فرض ادا کرلوں۔ ابھی اّسی ہزار ہوئے ہیں۔ اس میں سے دس ہزار نکال کر آپ کو دے رہا ہوں۔ حج پہ جانے کا ارادہ ابھی قائم ہے لیکن کچھ وقت اور لگ جائے گا ۔ کوئی حر ج نہیں۔ دیئے ہوئے میں سے ہی دینا ہے۔ جس نے پہلے دیئے وہ دوبارہ بھی دے دے گا۔ لینا دینا تو لگا ہی رہتا ہے۔ یہ جو کچھ بھی ہے اصل میں ہے تو اسی کا۔ میں پولی تھین کے اس لفافے کو دیکھتا رہا جس میں ان گنت چھوٹے چھوٹے نوٹ موجود تھے۔ میلے کچیلے’ کچھ پھٹے ہوئے۔ گنے تو پورے دس ہزار ہی تھے لیکن مجھے علم ہے کہ یہ دس ہزار نہیں دس لاکھ تھے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ایک بالی پہ ستر گنا یا سا ت سو گنا۔یہ حساب کون کرسکتا ہے۔ یہاں پہنچ کر سارے کیلکولیٹر جواب دے دیتے ہیں۔ ساری مشینیں ٹوٹ جاتی ہیں اور سارے حساب بھی بے باق ہو جاتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ با با جی کا حج اسی سال ہو گیا تھا۔‘‘جس نے پہلے دیئے وہ دوبارہ ی دے گا۔ لینا دینا تو لگا رہتا ہے۔’’ مجھے ان کی یہ بات اکثر یاد آتی ہے۔
زہر کا بھرا گلاس
اخوت کے دفتر میں ایک چالیس پینتالیس سالہ شخص آیا۔ اس کی کہانی نے جھنجھوـڑ کر رکھ دیا۔ بتانے لگا‘‘میں نے انٹر میڈیٹ کیا ہوا ہے ، ایک نجی کمپنی کے دفتر میں اچھی بھلی نوکری تھی، بچے درمیانے درجے کے پرائیویٹ سکول میں داخل تھے ، سفید پوشی سے گزارا ہو رہا تھا۔ ایک دن کمپنی منیجر سے لڑائی ہوگئی، اس نے مالک کو شکایت لگادی، جس نے دس بارہ سالہ ملازمت کا احساس کیے بغیر فوراً فارغ کر دیا۔ یہ دھچکا اس قدر شدید ثابت ہوا کہ پوری زندگی ہی بدل گئی۔ دوسری ملازمت حاصل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ کئی مہینے گزر گئے۔ گھر میں موجود جمع پونجی لگ گئی۔ بیوی کے چھوٹے موٹے زیور بھی بک گئے ۔ نوبت فاقوں تک آگئی۔ محلے کے دکانداروں نے ادھار سامان دینا بند کردیا۔ دوست ، رشتہ دارادھار دے کر تنگ آگئے حتیٰ کہ انہوں نے فون اٹھانے چھوڑ دیے ۔ ملنے جاتا تو اندر سے کہلوا دیتے کہ موجود نہیں۔ایک روز جب بیوی بچے پر تیسر ے وقت کا فاقہ آگیا تو ارادہ کیا کہ اس ذلت کی زندگی سے مر جانا ہی بہترہوگا۔ زہر تک خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ اچانک خیال آیا کہ عرصہ پہلے چوہے مار زہریلی گولیاں خریدی تھیں۔ گولیوں کا وہ پیکٹ ڈھونڈا اور انہیں پیس کر سفوف بنالیا۔ کچن میں جاکر عرصے سے رکھے پرانے گڑ کا شربت بنایا، اس میں وہ سفوف ملا کر حل کیا اور جگ لے کر بیوی بچوں کو بلایا۔ بیوی حیران ہوئی کہ روٹی تک کے پیسے نہیں ہیں تو یہ شربت کیوں بنالیا۔ میں نے بیوی بچوں سے کہا کہ یہ شر بت پی لو تو تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا۔ وہ خوش ہو گئے۔ گلاس میں شربت انڈیل کر بڑی بیٹی کو دینے لگا تو میرے چار سالہ بیٹے نے جھپٹ کر گلاس لے لیا، فرط ِمسرت سے اس کا چہرہ گلنا ر ہو رہا تھا ، کہنے لگا، ابو پہلے میں پیوں گا ، تاکہ خوشخبری سب سے پہلے سن سکوں۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ میرے بچوں کو میرے اوپر کس قدر اعتماد ہے، وہ بھاگ بھاگ کر میرے ہاتھ سے زہر کا بھرا ہو ا گلاس لے رہے ہیں ، انہیں یقین ہے کہ ان کا باپ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس ایک لمحے نے مجھے لرزا دیا۔ میں نے گلاس واپس چھینا اور زہریلا شربت کچے صحن کے ایک گوشے میں انڈیل دیا۔ اگلی صبح میں نے اپنا سائیکل اٹھایا اور اپنے ایک واقف کارکباڑی کے پاس گیا، اسے جاکر کہا کہ میں پھیری لگا کر کباڑ کا سامان لے آتا ہوں۔ وہ حیران ہوا، کہنے لگا کہ تم یہ معمولی کام کرسکو گے؟ جواب دیا، اپنے گھروالوں کے لیے میں ہر کام کرنے کو تیار ہوں۔ سائیکل پر محلوں کے چکر لگاتا رہا، کہیں سے ردی ، کہیں سے پرانی بوتلیں، جوتے وغیرہ اکٹھے کرتا رہا۔ شام کو گھر واپس آیا تو اتنے پیسے تھے کہ کھانا پک سکے۔ رفتہ رفتہ کام کا سلیقہ آتا گیا، آمدنی بھی بڑھتی گئی۔ پھر کسی نے اخوت کا بتایا تو ان سے قرضِ حسن لے کر خود کباڑی بن گیا۔ آج کئی پھیری والے میرے پاس ملازم ہیں۔ بچے دوبارہ سکول میں داخل ہو چکے ہیں۔ بڑے بیٹے نے تو اس سال اپنی کلاس میں پوزیشن حاصل کی ہے۔ گھر میں فریج بھی لے لیا ہے، موٹر سائیکل قسطوں پرلے چکا ہوں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ لوگوں میں سے بعض کا تعلق اخبارات سے ہے۔ میرا صرف ایک پیغام لوگوں تک پہنچا دیں کہ محنت میں عظمت ہے اور کوئی کام بھی بُرا نہیں ہوتا۔ پڑھے لکھے شخص کو بھی وقت آنے پر مزدوری کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان صاحب (نام دانستہ نہیں دیا) کی تقریر آج بھی میرے ذہن میں گونجتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر اس روز ایک لمحے کے لیے اس کے دل میں شفقت پدری غالب نہ آجاتی اور وہ اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے کو عار سمجھتا تو ایک اور المیہ اخبارات اور چینلز کی زینت بن جاتا۔ البتہ اس کی روایت شکنی اور عظمت کی مثال قائم کرنے پر کسی نے دوسطر کی خبر بھی شائع نہیں کی۔ ہم لوگ بنیادی طور پر مایوسی کے پیامبر ہیں۔ منفی خبریں ہمیں بھاتی ہیں اور ہم مایوس کن تاریک مثالوں کو اپنی شعلہ بیاں تقریروں اور تحریروں کی زینت بناتے ہیں۔ ہم ان پرُعزم ، محنتی اور غربت کو شکست دینے والے گمنام ہیروز کی کہانیاں نظر انداز کردیتے ہیں کہ یونانی عہد سے لے کر آج تک المیہ اور ٹریجڈی ہی بکتی آئی ہے۔
( بحوالہ ، اخوت کا سفر )