سوال ، جواب

مصنف : محمد رفیع مفتی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2007

جواب۔ کلمہ طیبہ کی دعوت ہی اصل دعوت ہے یہ بات بڑی حد تک درست ہے ۔اس کلمے کو حقیقی اعتبار سے نہ پڑھنے اورسمجھنے کے نتیجے ہی میں مسلمانوں میں شرکیہ باتیں پائی جاتی ہیں۔شیطان نے شرک کی دعوت برپا کر رکھی ہے۔ عام دنیا میں تو اُس نے جو گمراہی پھیلائی ہے، وہ پھیلائی ہی ہے، مسلمانوں میں بھی اُس نے کتنے ہی لوگوں کو شرکیہ اعمال پر لگا رکھا ہے۔ ایسی صورت میں کلمے ہی کی دعوت تو اصل دعوت ہے یعنی اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی دعوت۔شرک کوئی ایک ہی کی نوعیت کا نہیں ہوتا، اِس کی سینکڑوں قسمیں ہیں۔یہ کلمہ شرک کی ہر قسم کی بیخ کنی کرتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ نے تقدیر و تدبیر کے باہمی ربط کے حوالے سے سوال کیا ہے۔ تدبیر سے مراد وہ کوشش اور کاوش ہے، جو بندے کے ذمے ہے، جب کہ تقدیر کا لفظ خدا کے علم اور اُس کے فیصلوں کے بارے میں بولا جاتا ہے۔جہاں تک انسان کے حوالے سے خدا کے فیصلوں کا تعلق ہے اُن میں آدمی مجبور ہوتا ہے۔ مثلاً آدمی کہاں پیدا ہو گا، اُس کے ماں باپ کون ہوں گے، اُسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ اورجہاں تک انسان کے افعال و اعمال کے حوالے سے خدا کے علم کا معاملہ ہے، تو وہ علم انسان کے اُن افعال و اعمال سے خدا کا باخبر ہوناہے جو انسان نے خود اپنے اختیار و ارادہ سے کرنے ہوتے ہیں۔پس خدا کے فیصلوں میں جبر ہوتا ہے لیکن علم میں جبر نہیں ہوتا۔ اب آپ تدبیر و تقدیر کے باہمی ربط کی طرف آئیں ، ہماری وہ ساری تدبیریں کامیاب رہتی ہیں ، جو خدا کے کسی فیصلے سے نہیں ٹکرا تیں اور وہ سب تدبیریں ناکام رہتی ہیں ، جو خدا کے کسی فیصلے سے ٹکرا تی ہیں۔ اُس (خدا) کے بعض فیصلے ہمارے اعمال کے حوالے سے ہوتے ہیں اور بعض خود اُس کے مطلق ارادے کی بنا پر ہوتے ہیں۔بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ خدا کے سب فیصلے انتہائی حکیمانہ ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ صاف جوتے پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے،اصولاً اِس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ البتہ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے اسے آداب اور شائستگی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اِس دور میں، جب کہ دجالی تہذیب پوری طرح چھا چکی ہے اور شیطان بھی اپنے ہتھکنڈوں میں بہت کامیاب ہے تو ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر ممکن حد تک یہ کوشش کریں کہ نہ تو اس تہذیب کا حصہ بنیں اور نہ شیطان کو موقع فراہم کریں کہ وہ ہمیں اپنا آلہ کار بنائے۔رہا یہ معاملہ کہ یہ کیسے ہو گا تو اس کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کو پڑھا کرے اور اکثر پڑھا کرے۔ اُس کا عربی متن بھی اور اُس کا ترجمہ بھی، اور ممکن حد تک اُس کی آیات پر غور و فکر بھی کیا کرے۔ یہاں غور و فکر سے مراد کوئی علمی غور و فکر نہیں ہے، بلکہ وہ غور و فکر ہے جو آدمی کو عمل پر آمادہ کرتا ہے۔مثلاً آدمی اپنی زندگی میں موجود خدا کی نعمتوں پر غور و فکر کرے۔اپنی موت کے دن کو یاد کرے۔ خدا کے حضور پیشی کو دھیان میں رکھے۔ خدا کے عذاب (دوزخ) کو خیال میں لائے اور اُس کے انعام (جنت) کو یاد کرے۔ قرآن مجید کی آیات آدمی کوپے در پے اِن باتوں کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنا دل مسجد سے لگائے، کوشش کرے کہ پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جا کر ادا کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آدمی نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھے، اُن سے نصیحت حاصل کرے اور کوشش کرے کہ اُن جیسی عادات اپنائے۔ یہ سب کرنے سے امید ہے کہ وہ شیطان سے بھی بچا رہے گا اور تہذیبی اثرات سے بھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ دعا کو آپ جس بات کے ساتھ Confuse کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی شاید کسی Dictated یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت چل رہا ہے اور اُس طے شدہ پروگرام میں ظاہر ہے،(آپ کے خیال میں) یہ تو لکھا ہوا نہیں ہو گا کہ فلاں آدمی نے خدا سے ایک دعا بھی کرنی ہے۔ چنانچہ جب وہ آدمی دعا کرتا ہے، تو خدا کے لیے یہ مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ اگر وہ اُس کی دعا کی طرف دھیان دے ، تو وہ Dictation یا طے شدہ پروگرام مجروح ہوتا ہے اور اگر دھیان نہ دے، تو پھر بندے کا خدا سے دعا کرنا ایک بے کار عمل ٹھہرتا ہے۔ نہیں،میرے بھائی، بات ایسے نہیں ہے۔خدا اصلاً، پہلے سے کسی طے شدہ پروگرام کے تحت نہیں چل رہا۔ بلکہ بات کچھ اِس طرح سے ہے کہ اُس نے کچھ اصولی فیصلے کیے ہوئے ہیں اور کچھ قوانین بنائے ہوئے ہیں۔وہ اُن فیصلوں کی اور اُن قوانین کی پابندی ضرور کرتا ہے مگر اس کے لیے لازم نہیں۔مزید یہ ہے کہ اُس نے ہمارے لیے اپنی مرضی سے امتحان و آزمایش کی نوعیت کی بعض چیزیں طے کر رکھی ہیں۔ اور وہ اُن کے حوالے سے ہمیں آزما رہا ہے۔ چنانچہ اُس نے یہ طے نہیں کیا کہ نیکی اور بدی میں سے کسی ایک کو ہم اپنی مرضی سے اختیار کر ہی نہ سکیں۔ بلکہ اِس کے برعکس اُس نے یہ طے کیا ہے کہ ہم لازما ً نیکی اور بدی کو اپنی مرضی ہی سے اختیار کریں۔ لہذا، ہم اپنی مرضی سے نیکی کی طرف بڑھتے اور اپنی مرضی ہی سے بُرائی کو اختیار کرتے ہیں۔اِس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اللہ اپنے کمالِ علم کی بنا پر اور اپنے عالم ُالغیب ہونے کی بنا پر پہلے سے یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں کس نے کیا کرنا ہے اور کس نے کیا نہیں کرنا۔دعا یہ ہے کہ ہم کسی معاملے میں خدا سے مدد لیتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اللہ ہماری دعا کو بعض اوقات قبول کر لیتا ہے اور بعض اوقات نہیں۔جب وہ ہماری دعا کو قبول کرتا ہے ، تو اِس سے خدا کے علم کامل کے حوالے سے کوئی نیا واقعہ رو نما نہیں ہوتا، بلکہ یہ محض اُس کے علمِ کامل ہی کی تصدیق ہوتی ہے، جس میں یہ موجود تھا کہ فلاں آدمی اپنے اختیار و ارادہ سے خدا سے دعا کرے گا اور اُس کے دعا کرنے کے نتیجے میں اللہ اُسے فلاں شے عطا کر دے گا۔مختصراََ یہ ہے کہ اللہ کا علمِ کامل اور چیز ہے اور اللہ کے طے شدہ اصول و قوانین اور امتحان کی غرض سے طے شدہ آزمایشیں اور چیز ہیں۔علمِ کامل پہلے ہی کامل ہے اس میں اضافہ محال ہے اور امتحان کی غرض سے پہلے سے طے شدہ آزمائشوں ،نعمتوں اور مصیبتوں میں کمی یا اضافہ ممکن ہے اور یہ ہوتا رہتا ہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی دعائیں دراصل خدا سے آزمایش کی تبدیلی کی دعائیں ہوتی ہیں، آدمی اِس طرح کے الفاظ تو نہیں بولتا لیکن بات نتیجہ کے اعتبار سے ہوتی یہی ہے کہ ہمیں آفت کے ذریعے سے آزمانے کے بجائے نعمت کے ذریعہ سے آزمایا جائے۔ چنانچہ اللہ کی حکمت میں اگر آزمایش کی یہ تبدیلی موزوں ہوتی ہے تو اللہ دعا قبول کر لیتے ہیں، ورنہ نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نماز عملاً کیا ہے ، خدا کے حضور میں دل کی گہرائی سے، پورے عجز کے ساتھ کھڑے ہونا، رکوع کرنا ،سجدہ کرنا اور قعدے میں بیٹھناہے ۔ ہاں اِن سب مواقع پر ہم کچھ کلمات بھی زبان سے ادا کرتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اِن کلمات کا مفہوم نہیں سمجھ رہا، توایسا نہیں ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہورہی۔ اسے اصل اجر اس نیت اور عجز کا ملنا ہے جو اس نے پورے شعور کے ساتھ خدا کی بندگی کے لیے اختیار کیا ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اُسے چاہیے کہ وہ کوشش کر کے اِن کے ترجمے سے بھی واقفیت حاصل کرے تا کہ نمازکی برکات میں اضافہ ہو۔سمجھنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے ۔ یاد رہے کہ جو اس امر سے بالکل لا پروا ہو کہ اسے نماز کے کلمات کو سمجھنا بھی ہے اس کے لیے بھی یہ امر خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ برکت سے مراد اللہ کا کسی آدمی کے لیے اپنی نعمت (رزق وغیرہ) کو جو بظاہر کم نظر آتی ہو، اُسے اُس شخص کے لیے کافی کر دینا ہے۔ یہ کفایت کئی طریقوں سے رونما ہو سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ شرک کی بے شک کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی پورے علمی طریقے سے اِن کا مطالعہ کرے۔ کیونکہ شرک اپنے جس روپ، جس قسم اور جس شکل میں بھی ظاہر ہو رہا ہو، وہ درحقیقت، خدا کی صفتِ توحید کی نفی کرتاہے، آدمی کو چاہیے کہ وہ بس اِس بات کا خیال رکھے کہ وہ خدا کی صفتِ توحید کے حوالے سے کوئی غلطی تو نہیں کر رہا، یعنی خدا کے ساتھ اپنے معاملے کو خالص رکھے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنا صحیح مقام پہچانیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ اگر ہم نہ ہوتے تو فلاں فلاں انسان تو کافر ہی مر جاتے، اللہ نے اُس کی ہدایت تو بس میرے وجود پر منحصر کر رکھی تھی یا کسی کے بارے میں وہ یہ سمجھے کہ أُس کی ہدایت تو بس میرے اوپر منحصر ہے۔ ہدایت خدا کی جانب سے ملتی ہے، وہ اپنی حکمت اور اپنے علم سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ وہ ہدایت کے لیے سیکڑوں چیزوں میں سے جس کو چاہتا ہے ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اُس نے کائنات اور انسان کا اپنا وجود بھی اپنی نشانیوں سے بھر دیا ہے۔ چنانچہ کسی انسان کو یہ روا نہیں کہ وہ خود کو دوسرے کی ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ البتہ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر دوسرے کا یہ حق سمجھنے سے بھی عاری ہو جائے کہ اُسے حق بات اور اُس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جائے۔ ہر انسان کا دوسرے پر یہ حق ہے کہ وہ اُسے حق اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کرے اور بس، اُس کے حوالے سے اپنے آپ کو کوئی اہمیت نہ دینے لگ جائے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ نے پوچھا ہے کہ مسلمان دنیا کے گرم خطوں ہی میں کیوں پائے جاتے ہیں۔ مسلمان اگر دنیا کے ٹھنڈے علاقوں میں پائے جاتے ، تو غالباً آپ کا سوال یہ ہوتا کہ مسلمان دنیا کے ٹھنڈے علاقوں ہی میں کیوں پائے جاتے ہیں؟ اِس کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ قرآن و سنت اپنے اندر کوئی گرمی یاسردی کی تاثیر نہیں رکھتے کہ صرف گرم خطوں ہی کے لوگ اِس کی ہدایت سے فیض یاب ہوں۔ اِس کی وجہ سادہ تاریخی حقائق اور واقعات ہیں۔ مسلمانوں کے زوال کا تعلق قوموں کے عروج وزوال کے قانو ن سے ہے، نہ کہ علاقے سے۔آپ اس وقت ایک قوم کے دورِ زوال اور دوسری کے دورِ عروج میں کھڑے ہیں۔ کبھی بات اِس کے برعکس تھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صورتوں میں یہ بات زیادہ بہتر بھی ہوتی ہے اور زیادہ اجر کا باعث بھی کہ آدمی اپنی دولت کو نفلی حج یا عمرہ پر صرف کرنے کے بجائے، دوسروں کی ضروریات پر صرف کر دے۔لیکن ہم کوئی ایسا اصول نہیں بنا سکتے کہ ہر آدمی کو ہر صورت میں لازماً، ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جو شخص اپنے خاندان اور اپنے ماحول میں موجود ضرور ت مندوں کی دیکھ بھال کر رہا ہو ، اُس کے لیے تو بالکل درست ہے کہ وہ نفلی حج کیا کرے۔ لیکن جو شخص اپنے خاندان اور اپنے ماحول میں موجود ضرور ت مندوں سے یکسر صرفِ نظر کرتے ہوئے محض نفلی حج و عمرہ کرنے ہی میں لگا ہوا ہے ، تو وہ یقیناً غلطی پر ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔سرکاری ڈیلی گیشن کے ذریعے پبلک فنڈ سے حج و عمرہ کرنا غلط نہیں بشرطیکہ یہ اعلانیہ ہو اور اِس پر پبلک کو اعتراض نہ ہو یعنی یہ بات اُن کے اندر معروف ہو۔ لیکن اگر اِس کو غلط سمجھا جاتا ہے اور اِس پر اعتراض کیا جاتا ہے ، تو پھر یہ غلط ہے۔ کمپنیوں کے ملازمین کا کمپنی کی طرف سے ملنے والے تعاون کی بنا پر حج کرنا بالکل درست ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ معتزلہ ، اشعریہ اور ماتریدیہ مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے تین گروہ ہیں۔معتزلہ نے بنو امیہ کے عہدِ خلافت میں جنم لیااور خلافتِ عباسیہ میں عرصہ دراز تک یہ اسلامی فکر پر چھائے رہے۔ اِن کے نظریات اہلِ سنت سے مختلف تھے۔مثلاًخدا اِس سے پاک ہے کہ دنیا میں واقع ہونے والے حوادث اُس کی طرف منسوب کیے جائیں۔ وہ شبیہہ و نظیر سے یکسر پاک ہے۔ قیامت کے دن بھی اس کی رویت محال ہے۔ اللہ کی صفات اُس کی ذات سے غیر نہیں ہیں۔ قرآن مخلوق ہے۔ خدا بندوں کے افعال کا خالق نہیں ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کی مغفرت بغیر توبہ کے نہیں ہو گی۔اِس کے علاوہ بھی وہ اپنے بعض مختلف نظریات کا اظہار کرتے تھے۔اشعریہ کا گروہ ابو الحسن علی بن اسمٰعیل الاشعری کا پیروکار تھا۔اِن کے عقاید اہلِ سنت کے عقاید کے قریب تر ہیں، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اہل سنت عقاید میں اشعری گروہ کے پیروکار ہیں۔اور یہ معتزلہ کے مقابل کا گروہ ہیں۔ماتریدیہ بھی اہل سنت ہی کے عقاید کے علمبردار ہیں ، البتہ یہ اشعریہ گروہ سے کسی قدر اختلاف رکھتے ہیں۔فقہی مسلک میں یہ امام ابو حنیفہ ؒکے پیرو کار ہیں۔جب کہ اشعریہ امام شافعیؒ کے پیرو کار ہیں۔ اہل ظاہر، داؤد ظاہری کے پیرو کار ہیں۔ اِس گروہ کے بڑے آدمیوں میں سے ابن حزم ہیں ۔ اِن میں اور اہلِ حدیث بہت حد تک مماثلت ہے۔ لیکن یہ ایک ہی گروہ نہیں ہیں۔ اب اہل حدیث تو موجود ہیں ، لیکن ظاہری نایاب ہو چکے ہیں۔ محدثین کے گروہ کو اہلِ حدیث کہا جاتا ہے اور احناف کو اہل الرائے کہا جاتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ گھریلو ملازمین، اگر زکوٰۃ کے حق دار ہوں ( اور ہمارے معاشرے میں اکثر وہ حق دار ہی ہوتے ہیں)، تو اُن کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ لیکن اِس کے عوض اُن سے ذرہ بھر اضافی کام کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اُن سے کسی شکریے کی توقع رکھنی چاہیے، ورنہ اجر ضائع ہو سکتا ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کپڑے وغیرہ خرید کر بھی دیے جا سکتے ہیں اور کسی اور صورت میں بھی مدد کی جا سکتی ہے ۔مثلا شادی بیاہ ،تعلیم ،دوا وغیرہ کا خرچ۔ زکوۃ بہن بھانجے اور خالہ کو دی جا سکتی ہے،جب کہ اُنھیں اِس کی ضرورت ہو۔دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ہومیو پیتھک دوا جس میں الکحل موجود ہو اُس کے بارے میں غامدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ اُس دوا میں موجود الکحل چونکہ بطور ایک دوا محفوظ رکھنے والے محلل کے شامل کی جاتی ہے، یہ اُس میں نہ بطور غذا کے شامل کی جاتی ہے نہ بطور دوا کے، لہذا،اِس صورت میں اِسے کراہتاً گوارا کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر یہی الکحل دوا یا غذا کے طور پر استعمال کی جائے، تو اِس کا استعمال صریحاً حرام ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ معجزات کی دو قسمیں ہیں، حسی، جیسے عصا کا سانپ بن جانااور عیسٰی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا،اور معنوی، جیسے قرآنِ مجید۔ جو لوگ معجزات طلب کرتے ہیں عام طور پر اُن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں حق پوری طرح سے واضح ہوتا ہے لیکن وہ اُسے ماننا نہیں چاہتے۔ ایسے لوگوں کو جب معجزہ نظر آتا ہے تو اِس سے اُن کی عقل تو بے شک آخری درجے میں عاجز ہو جاتی ہے لیکن وہ اُسے جادو وغیرہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔کیونکہ ایمان لانے کے بعد اُنہیں اپنی زندگی یکسر تبدیل کرنا پڑتی ہے اور اپنی اندھی خواہشات کو لگام ڈالنا پڑتی ہے۔عیسٰی ؑ بن باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے۔ دیکھیں سورہ مریم کی آیت ۱۶ سے ۲۱ تک۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ امت کو ایک نظم اجتماعی کے تحت جمع کرنے کی جد و جہد کے غیر اسلامی یا غیر دینی ہونے کا کیا سوال ہے۔ دنیا میں کرنے کے بہت سے اچھے کام ہیں۔ یہ بھی اُن میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے ایک دور میں اِس کی کوشش کرنا وقت کا اچھا مصرف ہو اور ایک دور میں اِس کی کوشش وقت کا ضیاع ہو۔ ہمارے اندر اِس کی خواہش دراصل، اسلام کے اُس کے شاندار ماضی کی تلاش ہے، جس میں دنیا ہمارے قدموں میں پڑی ہوتی تھی۔یہ خواہش ایک اچھی خواہش ہو سکتی ہے ۔بہرحال یہ بات تو واضح ہے کہ دین نے اِسے کوئی ٹارگٹ بنا کر ہمیں اِس کے حصول کا حکم نہیں دیا۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مولانا وحیدالدین اپنی ذات میں نہ حق ہیں نہ باطل۔ اُن کی جو بات ، اُن کی کیا دنیا کے جس عالم کی بھی کوئی بات، ہمیں کتاب و سنت کے مطابق محسوس ہوتی ہے، اُسے ہم دل و جان سے قبول کرنے کے مکلف ہیں۔اور اگر اس معیار پر پوری نہیں اترتی تو نہ ماننے کے مکلف ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ یہ ٹھیک ہے کہ جو کچھ مقد ر میں ہو وہ مل کر رہتا ہے ۔لیکن بعض اوقات کسی چیز کے ہمیں میسر آنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری محنت کی شرط لگی ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں۔ جب یہ شرط لگی ہوتی ہے تو پھر وہ چیز ہماری محنت کے بعد ہی ہمیں میسر آسکتی ہے۔ دنیا میں شاید اکثر ہم اِسی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔جوچیزیں ہمیں ابھی میسر نہیں ہیں ، اُن کے بارے میں ہم یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اُن کے میسر آنے میں ہماری طرف سے محنت کرنے کی شرط لگی ہوئی ہے یا نہیں۔ لہذا ہمیں بہرحال، عام اصول اور مشاہدے کے مطابق اُن کے حصول کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ اگر وہ ہماری محنت کے ساتھ مشروط ہوئیں تو ہماری محنت کے نتیجے میں وہ ہمیں مل جائیں گی اور اگر محنت کے باوجود وہ ہمارے مقدر میں نہ ہوئیں تو وہ ہمیں محنت کے باوجود نہیں ملیں گی۔ اِسی طرح اگر وہ محنت کے بغیر ہی ہمارے مقدر میں ہوئیں تو وہ ہمیں محنت کے بغیر بھی حاصل ہو جائیں گی ،ہم خواہ اُن کے لیے محنت کریں یا نہ۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ قرآنِ مجید میں جہاں یہ بات کی گئی ہے کہ تمہارے اوپر آنے والی مصیبتیں تمہارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ، وہاں یہ بات مخاطبین کے حوالے سے کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انبیا پر آنے والے مصائب اِس میں شامل نہیں ہیں۔وہ معصوم ہو تے ہیں۔ ان کے مصائب ان کی تربیت اور درجات کی بلندی کے لیے ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ‘‘اللہ کی طرف سے ہونے ’’کا مطلب ہے ‘اللہ کی اجازت سے’ کسی چیز کا وقوع پذیر ہونا ہے۔ یہ الفاظ کسی چیز کے واقع ہونے کی وجہ کو بیان نہیں کر رہے ہوتے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ کسی یقینی قریب المرگ مریض کی زندگی خود سے ختم کرنے کا اختیار کسی بڑے سے بڑے رحمدل ڈاکٹر کو بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ صرف زندگی کے خالق کا حق ہے کہ وہ جب چاہے زندگی دے اور جب چاہے واپس لے لے۔وہ ارحم الراحمین ہے وہ اگر اپنے کسی بندے کے لیے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اُسے ناقابل علاج مرض میں مبتلا کر کے دنیا میں معلق رکھے، تو اُس سے بڑھ کر رحمت والا کون ہے جو اُس رحمان سے اختلاف کرنے کی جسارت کرے ۔یہ اس کی رحمت کا ایک مظہر ہو سکتا ہے کہ بندے کو دنیا میں اس تکلیف میں مبتلا کر کے آخرت میں بالکل معاف کر دے۔     اور لواحقین کو اس کی خدمت کی وجہ سے معاف کر دے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ جو ارواح پیداہی دنیا میں بھیجنے کے لیے کی گئی ہیں وہ دنیا میں ضروربھیجی جائیں گی۔ کون کس کا بیٹا ہو گا یہ خدائے جبار کے فیصلے سے ہوتا ہے۔انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ یہ درست ہے کہ جس کو مرتے وقت سچے دل سے کلمہء توحید کا اقرار نصیب ہو گیا، اِن شاء اللہ اُس کی مغفرت ہو جائیگی ۔لیکن یہ نصیب اُسی کو ہوتا ہے جو اِس کے اہل ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ موت کا وقت اور جگہ طے ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی ظاہری سبب پیدا کرتے ہیں،ایسا کیوں کرتے ہیں،یہ معاملات خدا کا راز ہیں اِن کی حقیقت کو ہم نہیں پا سکتے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب ‘‘الحرب خدعۃ’’کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام جنگ میں بے انصافی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی ، بات صلح کی کرنا لیکن کیے ہوئے معاہدے کو توڑ کر حملہ کر دینا اور اِس طرح کے رنگا رنگ فراڈ کرنے کا قائل ہے۔ہرگز نہیں ۔ جس نے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں اِس طرح کا گمان کیا اُس نے دراصل، اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔ ‘‘الحرب خدعۃ’’کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانی اخلاقیات کو برقرار رکھتے ہوئے، جنگ کے موقع پر جنگی چال چلنا ۔ اِس میں اعلانِ جنگ کے بعد حالتِ جنگ میں دشمن کو اپنے جنگی اقدام کے بارے میں ایک وہم میں ڈالا جاتا ہے اور پھر اُس کے اُس وہم کے خلاف جنگی اقدام کیا جاتا ہے۔اِس طرح کی جنگی چالیں دنیا کی ایک معروف چیز ہے۔ آپ اپنے دشمن سے ایسا نہیں کہہ سکتے کہ یار تم میرے خلاف اپنا جنگی اقدام مجھے پہلے بتا دیا کرو تا کہ میں تمہاری کسی چال میں آکر تمہارے قابو نہ آ جاؤں۔سیاسی حریف کے خلاف چالیں اکثر بیشتر صریح دھوکہ ہوتی ہیں اور یہ اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ ویسے بھی سیاست کی چال ‘الحربُ خدعۃ ’کے تحت نہیں آتی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نماز خالصتاً اللہ تعالٰی ہی کی طرف متوجہ ہونے کا عمل ہے، اِس میں محمد ﷺ کا ذکر ان کی طرف متوجہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ اِن کے لیے دعا مانگنے کی خاطر آتا ہے ۔اِس میں رخ خالصتاً خدا ہی کی طرف ہوتا ہے کیونکہ ہم خدا ہی سے ان کے لیے رحمت کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں اس میں حضور کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی پہلو موجود نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ہماری آفاقیت یہ ہے کہ ہم جس نبی کا بھی نام لیتے ہیں، اُس کے نام کے ساتھ ‘علیہ السلام ’ کے الفاظ بولتے ہیں یعنی اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ یہ اُس نبی کا ہم پر حقِ دعا ہوتا ہے، جسے ہم ادا کرتے ہیں۔ یہ بات اِسی وجہ سے ہے کہ ہم سب نبیوں کو ماننے والے ہیں اور ہم اُن کے مابین اِس طرح سے فرق نہیں کرتے کہ ایک کو اللہ کا نبی مانیں اور دوسرے کو نہ مانیں۔درود اصل میں ہم پر نبی ﷺ کا حق ہے، اِسے ادا کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم نبی ﷺ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور ہم اُن کی اُمت میں ہیں، ہم پر اُن کے بے شمار احسانات ہیں ۔ ہم موسٰی علیہ السلام کی اُمت نہیں ہیں، ہم اُن کی محنت سے اُس طرح مستفید بھی نہیں ہو رہے جیسے ہم نبی ﷺ کی محنت سے مستفید ہو رہے ہیں۔پس فطری طور پر ہمارا رویہ موسٰی ؑ سے بہت اچھا ہونے کے باوجود اُس رویے سے کم ہو گا جو رویہ نبی ﷺ کے ساتھ ہو گا۔اب یہود کے نبی بھی محمد ﷺ ہی ہیں۔ اُنھیں اُن پر ایمان لانا چاہیے اور اُن پر درود بھجنا چاہیے۔آفاقی ہونے کا یہ مطلب ہی نہیں کہ ہم نبی ﷺ کے اپنے اوپر احسانات کو موسٰی ؑ کے اپنے اوپر احسانات کے ہم پلہ قرار دے دیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ بے انصافی ہو گی۔جیسا کہ ماضی کے یہود پر نبی ﷺ کے احسانات نہیں ہیں۔ کیونکہ آپؐ تو اُس وقت دنیا میں تشریف ہی نہیں لائے تھے۔ اُن پر موسٰی علیہ السلام کے احسانات ہیں، کیونکہ وہ تو اُنہیں دین سکھانے کی خاطر طرح طرح کی تکلیفیں اٹھارہے تھے۔یہ ایک صاف سی بات ہے اِس میں کیا غلطی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ سائنس خدا کے جاری کردہ مادی قوانین کے مطالعے کا نام ہے۔ اِس کی بنیاد پر جو ہم اندازے لگاتے ہیں وہ دراصل، مادی دنیا میں خدا کے عام جاری کردہ اصولوں کے بارے میں ہمارے مطالعے کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر ہمارا مطالعہ درست ہو تو یہ اندازہ درست ہوتا ہے۔درست نہ ہو تو اندازہ بھی درست نہیں ھوتا۔ سائنسی مطالعہ کسی طرح بھی اللہ کے نظام میں دخل اندازی کے مترادف نہیں اور ویسے بھی ہم اللہ کے نظام میں دخل اندازی کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہم اس کے اہل ہی نہیں۔ہم جو بھی کرتے ہیں وہ اسی کی دی ہوئی عقل اور اسی کے جاری کردہ مادی قوانین کے اندر رہ کر ہی کرتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ کی معلومات درست نہیں قادیانیوں نے نئی نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی اُن مسلمانوں کی تکفیر کر دی تھی جومرزا غلام احمد کے نبی ہونے پر ایمان نہیں لاتے۔اِس واقعے کے بہت عرصہ بعدمسلمانوں نے بھی ختمِ نبوت کے عقیدے کا منکر ہونے کی بنا پر قادیانیوں کی تکفیر کر دی۔ تکفیر کرنے کے معاملے میں پہل مسلمانوں کی طرف سے نہیں قادیانیوں کی طرف سے ہوئی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ شادی ایک معاشرتی معاہدہ ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ اپنے بہت دوررس نتائج رکھتا ہے ۔ سوسائٹی کے established اصولوں کے خلاف کھڑے ہو کر اگر ہم کوئی کام کرتے ہیں تو پھر درحقیقت سوسائٹی میں ہمارے رہنے کی جگہ نہیں رہتی۔ ہمارا خیال تو یہی ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو اُس کی جزا و سزا کے حقدار صرف ہم ہیں، کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ سوسائٹی ہمارے متعلقین کو بھی ہماری غلطیوں کی سزا دیتی ہے۔ سوسائٹی کے معیارات کو ٹھکرا کر کی گئی شادی سوسائٹی کو یہ موقع فراہم کر دیتی ہے کہ وہ اِس شادی کے نتیجے میں ہونے والی اولاد کواپنے معیار اور اپنے تصور کے حوالے سے مقام دے۔ تب آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سوسائٹی اور اپنے ماحول کی زبان کو روک سکے اور اُس سے اپنی اولاد کے لیے وہ حقوق حاصل کر سکے جو اُس کے خیال میں اُس کی اولاد کو حاصل ہونے چاہیں۔ ہم سماج کے اندر رہنے پر مجبور ہیں ہمیں سماج سے اگر اختلاف کرنا ضروری محسوس ہو تو چاہیے کہ آدمی کو اپنے صریح حق پر کھڑا ہونے کا پورا یقین ہو، ورنہ وہ اپنے اندر وہ قوت ہی نہیں پائے گا، جس کے ساتھ وہ سوسائٹی سے لڑ سکے۔ لہذا اِس طرح کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرناچاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)