دسمبر 2011
ایک عربی نظم کا آزاد ترجمہ، از بابر خان میری ماں نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہو، ایسا بھی نہیں۔آٹھ مرتبہ تو اس نے مجھ سے ضرور جھوٹ بولا……یہ قصہ مری ولادت سے شروع ہوتا ہے ……میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی۔اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا جو...
ازہر درانی دوسالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں پچھلے سال بھی ایسی ہی اک سرد دسمبر کی شب تھی جب دو سالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا تھا سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی ماہ وسال کے پنکھ لگا کر اپنی ایک...
جنوری 2010
اردو کے منفرد شاعراور منہ چھٹ نقاد ساقی فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاعر کو شعر کہتے وقت زبان و بیان کے سارے امکانات اچھی طرح سے کھنگال لینے چاہیئیں، ورنہ عوام اس شعر کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ ساقی فاروقی فراق کے اس شعر کا ذکر کر ر...
کیا بڑے شاعروں کے پاس ایسی کوئی حس ہوتی ہے جو انھیں مستقبل میں آنے والے واقعات کی جھلک دکھا دیتی ہے؟ اگر یہ بات درست نہیں ہے تو پھر لبنانی شاعر خلیل جبران کی آج سے 77 سال پہلے تحریر کردہ نظم پڑھتے ہوئے یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج ہی...
جون 2010
وہ میری بزم سے کیو ں اٹھ گیا خوشی سے نہ جانے کون سی بات اس کو نا گوار لگی اٹھے جو ہاتھ کبھی آسمان کی جانب حیات اپنی خطاؤں پہ شرمسار لگی
بہت گھٹ کر ترس کر جی لیا ہے میں اب جی بھر کے جینا چاہتا ہوں خموشی بزدلی بننے لگی ہے میں سدباب کرنا چاہتا ہوں
جولائی 2010
بہترین عروج والوں کا بدترین زوال دیکھ لیا کچھ تو احساس ہو زیاں کارو! جو نہ ہونا تھا حال دیکھ لیا کون سی خوبیاں نہ تھیں ہم میں، یاد کیجیے وہ عظمتِ رفتہ کون سی خامیاں نہیں ہم میں، یہ بھی ہونا تھا حال دیکھ لیا خواہش نفس کے ...
ملا جب سے خط پیارے کہ چھٹی آ رہے ہو تم میرے خوابوں پہ صبح و شام یکسر چھا رہے ہو تم جب آؤ گے وہ دن میرے لئے دن عید کا ہو گا عجب منظر میرے دلبر تیری دید کا ہو گا بہت وزنی سے دو اک بیگ پیارے ہاتھ میں ہوں گے اٹیچی کیس دس ...
جنوری 2009
عبادت کرو اپنے رب کی ، یہاں تک کہ تمہیں یقین آجائے، یقیں تمہارے پاس آجائے، تمہارے دلوں پر پھوار بن کر اترنے لگے، یقین جو ایمان کا دوسرا نام ہے ، یقین جو علم کا آخری درجہ ہے ، آخری ثمرہ بھی! یقین جو وہ نظر بخشتا ہے ج...
فروری 2009
خون اپنا ہو یا پرایا ہو نسلِ آدم کا خون ہے آخر جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں امنِ عالم کا خون ہے آخر بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر روح تعمیر زخم کھاتی ہے کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے زیست فاقوں سے تلملاتی ہے ...
جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں سورج کو غروب سے بچاؤں بس میرا جو چلے گردشوں پر دن کو بھی نہ چاند کو بجھاؤں میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں میں شب کے مسافروں کی خاطر مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں ...
ہمیں معلوم ہے اِک دن گزرتے وقت کی دیمک ہمیں بھی چاٹ جائے گی کہ یہ اس کا وظیفہ ہے یہ روشن دِن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہوگا وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمرنکلے وضاحت کون سنتا ہے تلافی کس سے مانگیں ہم ہمارے سر پہ اپنے ...