جی چاہتا ہے

مصنف : احمد ندیم قاسمی

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : فروری 2009

 

جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
سورج کو غروب سے بچاؤں
 
بس میرا جو چلے گردشوں پر
دن کو بھی نہ چاند کو بجھاؤں
 
میں چھوڑ کے سیدھے راستوں کو
بھٹکی ہوئی نیکیاں کماؤں
 
میں شب کے مسافروں کی خاطر
مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں
 
اشعار ہیں میرے استعارے
آؤ تمہیں آئینے دکھاؤں
 
یوں بٹ کے بکھر کے رہ گیا ہوں
ہر شخص میں اپنا عکس پاؤں
 
آواز جو دوں کسی کے در پر
اندر سے بھی خود نکل کے آؤں
 
اے چارہ گران عصر حاضر
فولاد کا دل کہاں سے لاؤں
 
ہر رات دعا کروں سحر کی
ہر روز نیا فریب کھاؤں
 
ہر جبر پہ صبر کر رہا ہوں
اس طرح کہیں اجڑ نہ جاؤں
 
گھر ڈوب رہے ہیں تیرگی میں
قبروں پہ مگر دیے جلاؤں
 
رونا بھی تو طرز گفتگو ہیں
آنکھیں جو رکیں تو لب ہلاؤں
 
خود کو تو ندیم آزمایا
اب مر کے خدا کو آزماؤں

(قرآن مجید نے کہا والشعرا یتبعھم الغاؤن الم تر انھم فی کل واد یھیمون وانھم یقولون مالا تفعلون، دیکھیے احمد ندیم قاسمی نے کتنی اچھی باتیں کرتے کرتے آخر میں کیسی عجیب بات کہہ دی ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے کہ جو خدا کی عظمت سے ناواقف ہواور انسان کی حیثیت سے نابلد ہو۔ اس کو شاعرانہ تعلی یا شعری انداز بیاں کہہ کر نظر انداز کرنا خود ایک جہالت ہے ۔اللہ وہ ہستی نہیں کہ جس کو آزمایا جائے ۔ادارہ)