شعر و شاعری سليم احمد ،جاويد اختر ، عبدالحميد عدم،خالد احمد ، نصرت صديقی، ناصر كاظمی ، شہزاد احمد

مصنف : عبدالحمید عدم

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : اكتوبر2023

شعر و شاعری

سليم احمد ،جاويد اختر ، عبدالحميد عدم،خالد احمد ، نصرت صديقی، ناصر كاظمی ، شہزاد احمد

اسے سنبھال کے رکھو ، خزاں میں لو دے گی--یہ خاکِ لالہ و گل ہے، کہیں ٹھکانے لگے

نا مرادانِ محبت کو حقارت سے نہ دیکھ--یہ بڑے لوگ ہیں، جینے کا ہنر جانتے ہیں

وہ چوبِ خشک ہوں محروم آتش سوزاں--کہ بِن جلائے جسے قافلہ روانہ ھوا

کل اس آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی--گمان تک نہ ھوا وہ بچھڑنے والا ہے

ہائے کس منزل پہ آ کر راز یہ دل پر کھلا--حسن کی سرشاریاں بھی عشق سے غافل نہ تھیں

جب میں باتوں سے ٹوٹ جاتا ہوں--کوئی ہونٹوں سے جوڑتا ہے مجھے

وہ مجھے پوچھنے کو آیا تھا--حال اپنا سنا رہا ہے مجھے

غنیم وقت کے حملہ کا مجھ کو خوف رہتا ہے--میں کاغذ کے سپاھی کاٹ کر لشکر بناتاہوں

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لئے--تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

بجا یہ رونق محفل مگر کہاں ہیں وہ لوگ--یہاں جو اہل محبت کے جانشیں ہونگے

کہاں سے آج مری روح میں چمک اٹھے --وہ تیرے دکھ جو تجھے یاد بھی نہیں ہوں گے

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے--گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے

روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش--کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے

گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو--پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے

شور طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم --لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے

گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ --یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے

جاوید اختر

پھرتے ہیں کب سے در بدر، اب اِس نگر، اب اُس نگر، اک دوسرے کے ہم سفر، میں اور مری آوارگی

نا آشنا ہر رہگزر، نا مہرباں ہر اک نظر، جائیں تو اب جائیں کدھر، میں اور مری آوارگی

ہم بھی کبھی آباد تھے، ایسے کہاں برباد تھے، بے فکر تھے آزاد تھے، مسرور تھے دل شاد تھے

وہ چال ایسی چل گیا، ہم بجھ گئے دل جل گیا، نکلے جلا کے اپنا گھر، میں اور مری آوارگی

جینا بہت آسان تھا، اک شخص کا احسان تھا، ہم کو بھی اک ارمان تھا، جو خواب کا سامان تھا

اب خواب ہے نَے آرزو، ارمان ہے نَے جستجو، یوں بھی چلو خوش ہیں مگر، میں اور مری آوارگی

وہ ماہ وش وہ ماہ رو، وہ ماہ کام ہو بہو، تھیں جس کی باتیں کو بہ کو، اس سے عجب تھی گفتگو

پھر یوں ہوا وہ کھو گئی، تو مجھ کو ضد سی ہو گئی، لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر، میں اور مری آوارگی

یہ دل ہی تھا جو سہ گیا، وہ بات ایسی کہہ گیا، کہنے کو پھر کیا رہ گیا، اشکوں کا دریا بہہ گیا

جب کہہ کے وہ دل بر گیا، تیرے لیے میں مر گیا، روتے ہیں اس کو رات بھر، میں اور مری آوارگی

اب غم اٹھائیں کس لیے، آنسو بہائیں کس لیے، یہ دل جلائیں کس لیے، یوں جاں گنوائیں کس لیے

پیشہ نہ ہو جس کا ستم، ڈھونڈیں گے اب ایسا صنم، ہوں گے کہیں تو کارگر، میں اور مری آوارگی

آثار ہیں سب کھوٹ کے، امکان ہیں سب چوٹ کے، گھر بند ہیں سب گوٹ کے، اب ختم ہیں سب ٹوٹکے

قسمت کا سب یہ پھیر ہے، اندھیر ہے اندھیر ہے، ایسے ہوئے ہیں بے اثر، میں اور مری آوارگی

جب ہمدم و ہمراز تھا، تب اور ہی انداز تھا، اب سوز ہے تب ساز تھا، اب شرم ہے تب ناز تھا

اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا، ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا، اک بے ہنر اک بے ثمر، میں اور مری آوارگی

 


 

عبدالحميد عدم

مے کدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا--اک مجسم بے خودی تھی میں نہ تھا

عشق جب دم توڑتا تھا تم نہ تھے --موت جب سر دھن رہی تھی میں نہ تھا

طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو --وہ مری دیوانگی تھی میں نہ تھا

وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب--لذت ہم سائیگی تھی میں نہ تھا

مے کدہ کے موڑ پر رکتی ہوئی --مدتوں کی تشنگی تھی میں نہ تھا

تھی حقیقت کچھ مری تو اس قدر --اس حسیں کی دل لگی تھی میں نہ تھا

میں اور اس غنچہ دہن کی آرزو --آرزو کی سادگی تھی میں نہ تھا

جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے--وہ تو میری شاعری تھی میں نہ تھا

گیسوؤں کے سائے میں آرام کش --سر برہنہ زندگی تھی میں نہ تھا

دیر و کعبہ میں عدمؔ حیرت فروش --دو جہاں کی بد ظنی تھی میں نہ تھا

خالد احمد

مرے دل کے باب نہ کھولنا، مرے جان وتن نہ ٹٹو لنا --کسی زاویے میں پڑا نہ ہو ، وہ بت نگار یہیں کہیں

سر خیل اہل ہدی نہ ہو، یہ فقیر مرد خدا نہ ہو --سر اٹھا کے دیکھ، دھرا نہ ہو ، سر انکسار یہیں کہیں

یہ جو پنکھڑی ہے گلاب سی ، یہ جو انکھڑی ہے شراب سی--انھیں چشم و لب میں تلاش کر، مجھے میرے یار یہیں کہیں

ترے سامنے، ترے دیکھتے مری انگلیوں سے پھسل گئے --مرے ولولولے ، مرے حوصلے، مرا اختیار یہیں کہیں

نصرت صديقی

اپنے حالات کے دھاگوں سے بُنی ہے میں نے--آج اک تازہ غزل اور کہی ہے میں نے

کِس ضرورت کو دباؤں کِسے پورا کر لوں--اپنی تنخواہ کئی بار گِنی ہے میں نے

میں تو جیسا بھی ہوں، سب لوگ مجھے جانتے ہیں--تیرے بارے میں بھی اک بات سُنی ہے میں نے

چھوٹے لوگوں کو بڑا کہنا پڑا ہے اکثر--ایک تکلیف کئی بار سہی ہے میں نے

زندگی نے مجھے سینے سے لگا رکھا ہے--جان جس دن سے ہتھیلی پہ دھری ہے میں نے

اپنے عیبوں کو عیاں کر کے خجل ہوں، لیکن--یہ جسارت بھی اگر کی ہے، تو کی ہے میں نے

ایک سے دوسرا انسان جدا ہے نصرت--ہر جبیں پر نئی تحریر پڑھی ہے میں نے

ناصر كاظمی

گئے دنوں کا سراغ لے کر، کہاں سے آیا، کدھر گیا وہ--عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کر گیا وہ​

خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم--وہ بوئے گُل تھا کہ نغمہء جاں، میرے تو دل میں اُتر گیا وہ​

وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا--نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی، کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ​

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی--جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ​

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں--جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثلِ گردِ سفر گیا وہ​

بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے--یہی تو ہے فرق مجھ میں اُس میں، گزر گیا میں، ٹھہر گیا وہ​

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر، سفر کیا تو نے منزلوں کا--تیری گلی سے نہ جانے کیوں، آج سر جھکائے گزر گیا وہ​

وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا--سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ​

بس ایک موتی سی چَھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر--ستارا شام بن کے آیا، برنگِ خوابِ سحر گیا وہ​

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا--یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ​

وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر، وہ تیرا ناصر--تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

شہزاد احمد

رخصت ہُوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا--وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی--احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا--جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اِک لکیر کھینچ گیا درمیان میں --دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مِل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط--وہ اپنے نقشِ پا کو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک خوشبو بسی ہوئی --لگتا ہے یوں کہ جیسے آکر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اُس نے کسی کام کا مجھے --اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے بسی طلب ہے ابھی میری زندگی --وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا

بس یہ گلہ رہا اُس کی ذات سے --جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر کہ نہیں گیا !!

شاعر نامعلوم

كيا حال سنائيں دينا كا---كيا بات بتائيں لوگوں كی

دنيا كے ہزاروں موسم ہيں ---لاكھوں ہيں ادائيں لوگوں كی

كچھ لوگ  كہانی ہوتے ہيں---دنيا كو سنانے كے قابل

كچھ لوگ نشانی ہوتے ہيں---بس دل ميں چھپانے كے قابل

كچھ لوگ گزرتے لمحے ہيں---اك بار گئے تو آتے نہيں

كچھ لوگ خيالوں كے اندر---جذبوں كی روانی ہوتے ہيں

كچھ لوگ كٹھن لمحوں كی طرح ---پلكوں پہ گرانی ہوتے ہيں

كچھ لوگ سمند ر گہرے ہيں---كچھ لوگ كنارا ہوتے ہيں

كچھ ڈوبنے والي جانوں كو---تنكوں كا سہارا ہوتے ہيں

كچھ لوگ چراغوں كی صورت---راہوں ميں اجالا كرتے ہيں

كچھ لوگ اندھيروں كی كالك---چہروں پہ اچھالا كرتے ہيں

كچھ لوگ سفر ميں ملتے ہيں---دو گام چلتے  ہيں اور رستے الگ

كچھ لوگ نبھاتےہيں ايسا---ہوتے ہی نہيں دھڑكن سے الگ

كيا حال سنائيں اپناتمہيں---كيا بات بتائيں جيون كی

ايك آنكھ ہماری ہستی ہے---ايك آنكھ ميں رت ہے ساون كی

ہم كس كی كہانی كا حصہ---ہم كس كی دعا ميں شامل

ہے كون جو رستہ تكتا ہے ---ہم كس كی وفا كا حاصل

كيا حال سنائيں دينا كا--- كيا بات بتائيں لوگوں كی