ایک عربی نظم کا آزاد ترجمہ، از بابر خان
میری ماں نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہو، ایسا بھی نہیں۔آٹھ مرتبہ تو اس نے مجھ سے ضرور جھوٹ بولا……یہ قصہ مری ولادت سے شروع ہوتا ہے ……میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی۔اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا جو ہم سب کو کافی ہوجائے۔ ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے۔ میں بڑے شوق سے کھانے لگا اور وہ کھلانے لگی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دئیے۔ بیٹا یہ چاول تم کھالو مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے۔ یہ اس کاپہلا جھوٹ تھا……
اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا۔ اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گذرتی تھی۔ یوں ہوا کہ دومچھلیاں میرے ہاتھ لگیں۔ بھاگا بھاگا گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا۔ دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھا۔ دیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی۔ میں نے جب یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہیں تم تو کھاؤ۔اور یہ اس کاوسرا جھوٹ تھا……
اور پھر میرا باپ مرگیا اور وہ بیوہ ہوگئی۔ اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے۔ کچھ دن میرا چچا جو بہت اچھا آدمی تھا ہمیں کھانا اور ضروریاتِ زندگی لاکر دیتا رہا۔ ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے۔ ایک دن انہوں نے ماں سے کہا، زندگی ہمیشہ اس طور پر گذاری نہیں جاسکتی بہتر ہے کہ تم اس آدمی سے شادی کرلو۔ لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کردیا۔ مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اسکا تیسرا جھوٹ تھا……
اور جب میں کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے میں جانے لگا۔ تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سینے لگی۔ اور یہ کپڑے وہ گھر گھر جاکر بیچتی تھی۔ سردیوں کی ایک رات تھی، اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی۔ میں تنگ اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا۔ میں نے اسے کپڑوں کا ایک گٹھر اٹھائے دیکھا۔ گلیّوں میں گھر گھر دروازے کھٹکھٹا رہی تھی۔ میں نے کہا کہ ماں چلو اب گھر چلو، باقی کام کل کرلینا۔ کہنے لگی تم تو گھر جاؤ۔ دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے۔ میں یہ دو جوڑے بیچ کر ہی آؤں گی اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے۔ یہ اسکا چوتھا جھوٹ تھا……
اور پھر میرا مدرسے میں آخری دن بھی آیا۔ آخری امتحانات تھے۔ ماں میرے ساتھ مدرسے گئی۔ میں اندر کمرہءِ امتحان میں تھا۔ اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی۔ بہت دیر بعد میں باہر نکلا۔ میں بہت خوش تھا۔ ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹا غٹ پی گیا۔ میں نے شکرگذار نظروں سے اسے دیکھا۔ اسکے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں۔ میں نے بوتل اسکی طرف بڑھا دی۔ پیو ناں ماں۔ لیکن اس نے کہاتم پیو، مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے۔یہ اسکاپانچواں جھوٹ تھا……
اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو ایک نوکری مل گئی ۔میں نے سوچا کہ اب یہ مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے ۔اب اسکی صحت پہلے جیسی نہیں تھی۔ اسی لئے وہ گھر گھر پھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی بلکہ بازار میں ہی زمین پر دری بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کر آتی تھی۔ جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا۔ بیٹا ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہے،۔ اسے اپنے پاس ہی رکھو جمع کرو، میرا تو گزارہ چل ہی رہا ہے۔ اتنا کما لیتی ہوں جو مجھے کافی ہوجائے۔ اور یہ اسکا چھٹا جھوٹ تھا……
اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگاتو میری ترقی بھی ہوگئی۔ میں جس جرمن کمپنی میں تھا، انہوں نے مجھے اپنے ہیڈ آفس جرمنی میں بلالیا۔اور میری ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوئی۔ میں نے ماں کو فون کیا اور اسے وہاں میرے پاس آنے کو کہا لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے۔ کہنے لگی کہ تمہیں تو پتہ ہے کہ میں اس طرزِ زندگی کی عادی نہیں ہوں۔ میں یہاں پر ہی خوش ہوں۔اور یہ اسکا ساتواں جھوٹ تھا……
اور پھر وہ بہت بوڑھی ہوگئی۔ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اسکو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے۔ مجھے اسکے پاس ہونا چاہئیے تھا لیکن ہمارے درمیان مسافتیں حائل تھیں۔ پھر جب اسے ہسپتال پہنچادیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وطن واپس آیا اسکے پاس۔ وہ بستر پر تھی ، مجھے دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر ایک مسکان آگئی۔ مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکا سا لگا اور دل جلنے لگا۔ بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی۔ یہ وہ نہیں تھی جسکو میں جانتا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ لیکن ماں نے مجھے ٹھیک سے رونے بھی نہیں دیا۔ میرِی خاطر پھر مسکرانے لگی۔ نہ رو میرے بیٹے، مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہورہا۔ اور یہ اسکا آٹھواں جھوٹ تھا……
اسکے بعد اس نے آنکھیں موند لیں……اور اسکے بعد پھر دوبارہ کبھی نہیں کھولیں……