ہمیں معلوم ہے اِک دن گزرتے وقت کی دیمک
ہمیں بھی چاٹ جائے گی
کہ یہ اس کا وظیفہ ہے
یہ روشن دِن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہوگا
وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمرنکلے
وضاحت کون سنتا ہے
تلافی کس سے مانگیں ہم
ہمارے سر پہ اپنے خون کا الزام بھی ہوگا
تو اِس دیمک کے رزق بے نشاں بننے سے پہلے آخری حیلہ تو کر دیکھیں
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر دیکھیں
بہت مشکل سہی لیکن نہیں اِمکان سے باہر
کہ وہ الفاظ جن کے آج تک معانی نہیں ظاہر
ہم ان کا بھید پا جائیں
اُنہیں اِ س لوح پر لکھی ہوئی تحریر کا حصہ بنا جائیں
اگر اُس موڑ سے پہلے جہاں اِس بے جُہد کاوِش کو رِزقِ خاک ہونا ہے
جہاں اِس زندگی کے قرض کوبے باک ہونا ہے
جہاں پر ہر بقا لمحہ فنا پیغام ہونا ہے
جہاں خوشی کا سایہ شریکِ شام بھی ہوگا
اگر اُس موڑ سے پہلے
کسی صورت ہم اِن الفاظ کے پوشیدہ معانی جان پائیں تو
سمے کی لوح پر لکھے ہوئے کچھ خاص ناموں میں
ہمارا نام بھی ہوگا
ہمارا کام بھی ہوگا