خوابوں کی تعبیر تک

مصنف : شہزاد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2013

Click here to read in English

دنیا اور آخرت میں توازن

            یہ دنیا اصل میں آنے والی مستقل دنیا کی تمہید ہے ۔قرآن اس حقیقت سے خبر دار کرتا ہے کہ یہ دنیا جزا و سزا کی دنیا نہیں ہے بلکہ عمل کر نے کی جگہ ہے ۔ اعمال کی قیمت ملنے کی جگہ آخرت ہے۔ہر وہ شخص جو اس دنیا میں سچائی اور حق کا طالب رہا ہو گا اسے آخرت میں کامیابی نصیب ہو گی اور ہر وہ شخص جس نے حق سے منہ موڑ کر زندگی بسر کی ہو گی آخرت میں اس کے حصے میں ناکامی آئے گی۔ اور قرآن کی نظر میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو آخرت میں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے۔ (فمن زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقد فاز)

            اسلام اپنے پیروکاروں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں بھرپور زندگی بسر کریں اور اس دنیا کی بہتری کے لیے جو کچھ کر سکتے ہوں کریں لیکن آخر ت کو مدنظر رکھتے ہوئے ۔ یعنی دنیا کی بہتری آخرت کے نقصان پر نہیں ھونی چاہیے ۔انسان کو اپنی ترجیحات میں آخرت کو سرفہرست رکھنا چاہیے اور ہر وہ عمل ، ہر وہ کام جو آخرت کے نقصان کا باعث ہو اس سے مکمل اجتناب کر نا چاہیے۔ ان کے علاوہ کسی عمل اور کسی کام کے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔انسان چاہے انجینر بنے ، چاہے ڈاکٹر ، وہ چاہے سائنسدان بنے اور چاہے قانون دان اسلام اس سے بالکل منع نہیں کرتا بلکہ حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن اسی شرط کے ساتھ کہ کوئی بھی کام حقیقی زندگی کے لیے نقصان اور خسارے کا موجب نہ ہو۔اسلام انسانی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے جذبے کو ختم نہیں کرتا صرف اس کا رخ موڑتا ہے کہ یہ جذبے آخرت کی بہتری اور ترقی کے لیے ا ستعمال ہوں۔خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اس دنیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ آنے والی اصل زندگی نظر اند از نہ ہو جائے ۔اگر یہ احتیاط موجود ہے تو پوری دنیا بھی نقصان دہ نہیں ہے اور اگر یہ نہیں تو تھوڑ ی دنیا بھی خسارے کاباعث بن سکتی ہے ۔دنیا اور آخرت کی ضروریات میں توازن قائم رکھنا ہی اصل امتحان ہے اور اس امتحان میں پورا اترنے والا ہی اصل کامیاب ہے۔

مسابقت کا اصل میدان

            نہ تو سارے انسان ایک جیسے ذہین اور چست و چالاک ہوتے ہیں اور نہ ہی سارے خوبصورت، اسی طرح نہ تو سارے پیدائشی رئیس ہوتے ہیں اور نہ ہی سارے شہرت کی بلندیوں کو چھو پاتے ہیں۔تاہم ذہین ، خوبصورت اور رئیس ہونے یا شہرت پانے کی خواہش سب رکھتے ہیں ۔اور جب ان کی یہ خواہش کما حقہ پوری نہیں ہو پاتی تو انسانوں پر ایک قسم کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ سی چھا جاتی ہے ۔ بعض تو احساس کمتر ی کا شکار ہو کر زندگی میں دلچسپی ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ احساس محرومی ان کا روگ بن جاتا ہے اور برتری حاصل کر نے کی خواہش ان پر خبط بن کر چھا جاتی ہے ۔قرآن اس مرض کا علا ج بتاتا ہے کہ اصل میں مسابقت کا میدان کوئی او ر ہے ۔خلقی یا فطری صلاحیتوں کا میدان دوڑ کا میدان نہیں ہے اس کے برعکس نیکی اور تقوے کا میدان وہ میدان ہے جس میں مسابقت کے لیے راستہ کھلا ہے کوئی جتنا چاہے دوڑ لگائے یہاں کوئی پابند ی نہیں۔ بلکہ قدرت نے یہاں سب کو اپنی صلاحیتیں بڑہانے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع عطا کر رکھے ہیں۔ اور یہ میدان غریب امیر ، خوبصورت بد صورت ، ذہین و غبی سب کے لیے کھلا ہے ۔غلط جگہ او رغلط میدان میں اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے سے مایوسی اور احساس محرومی پیداہوتا ہے ۔ اگر واقعتا کسی کو اپنی صلاحیتیں آزمانے اور دوڑ لگانے کا شوق ہو تو وہ نیکی اور تقوے کے میدان میں آئے ۔ یہاں مسابقت اور تنافس پر کوئی پابند ی نہیں بلکہ مستحسن ہے ۔

            قرآن کہتا ہے‘‘ اور جس چیز میں اللہ نے تمہیں ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے اس کی تمنا نہ کرو ۔ مردوں کو حصہ ملے گا اس سے جو انہوں نے کمایا اورعورتوں کو حصہ ملے گا اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔’’ (۳۲:۴)

خوابوں کی تعبیر تک

            بہت سال پہلے ایک انگلش فلم میں دو شعر سنے تھے جن کا مفہو م کچھ اس طرح سے ہے: ‘‘پہاڑوں کی بلندیاں ہوں ، دریاؤں کی گہرائیاں ہوں یا قوس قزح کی دوریاں سب تک پہنچو یہاں تک کہ تم اپنے خوابوں کو پا لو’’اس مفہوم نے مجھے اس وقت بھی متاثر کیا تھا اور اس پیغام میں میرے لیے آج بھی کشش باقی ہے ۔میرے خیال میں زندگی کااصول یہی ہونا چاہیے کہ انسان کوشش اور تلاش کبھی ترک نہ کرے ،بار بار کوشش کر ے اور مایوسی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے دشت و صحرا سب چھا ن مارے۔اگر کسی کو یہ چیز حاصل ہے تو یقینا اسے ایک بڑ ا سرمایہ حاصل ہے ۔ آپ نے پہاڑ ی نالے تو دیکھے ہو ں گے ، وہ کس مستقل مزاجی اور تسلسل سے بہتے رہتے ہیں۔ چھوٹے بڑے ، صاف نوکیلے ، نر م سخت ہر طرح کے پتھر ان کا راستہ روکتے ہیں لیکن وہ سب کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بناتے چلے جاتے ہیں۔یہی حال اس انسان کا ہونا چاہیے کہ جس کے سامنے کوئی مقصد ہو ۔ہر طرح کے حالات اس کا راستہ بھی یقینا روکیں گے لیکن اسے بھی بہر حال ان حالات کے بیچوں بیچ سفر جاری رکھنا چاہییے۔خواب دیکھنا ایک بڑ ی چیز ہے لیکن ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ان تھک محنت کر نا اور بھی بڑ ی چیز ہے لیکن اگر ان تھک اور مخلصانہ محنت کے باوجود خواب پورے ہوتے نظر نہ آئیں تو پھر اللہ کی رضا پر راضی رہنا یقینا سب سے عظیم ترہے ۔

            عین ممکن ہے کہ جیتے جی اپنے خوابوں کی تعبیر ہمارا مقدر نہ ہو ایسے میں ہمیں اس شعر کا مصداق ہونا چاہیے

دست از طلب ندارم تا کام من براید
یا تن رسد بجاناں یا جاں ز تن براید

            میں اپنے مقصد کے حصول تک کبھی چین سے نہ بیٹھوں گایا تو محبوب کو حاصل کر لوں گا اور یا پھر اسی کوشش میں جان دے دوں گا۔

شہزاد سلیم
ترجمہ:-  محمد صدیق بخاری