موت كے مراحل

مصنف : واصف علی واصف

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2026

اصلاح و دعوت

موت كے مراحل

واصف علی واصف

*موت کسی ایک دن کا نام نہیں ہے ۔ موت پوری زندگی کا نام ہے ۔ یہ عمل چلتا رہتا ہے ۔ زندگی کے آخری عمل کا نام موت ہے -ایک بھائی نے اپنا ایک کوٹ دس سال تک استعمال کیا ۔ پھر چھوٹے بھائی کو دے دیا ۔ چھوٹے بھائی نے تین دن پہن کے پھاڑ دیا ۔ بڑا بھائی کہتا ہے ہم نے اسے دس سال پہنا اور ٹھیک رہا مگر تم نے اسے تین دن میں پھاڑ دیا ۔ چھوٹے نے کہا تیرے دس سال کے عمل کا نتیجہ تو میرے ساتھ نکلا ، میں نے اسے نہیں پھاڑا  بلکہ پھاڑ تو تم چکے تھے ، میں تو صرف اس کا گواہ ہوں -

موت کا سفر تو پہلے سانس سے شروع ہو جاتا ہے ۔ بچپن مر گیا مگر آپ کو اس کے مرنے کا اندازہ نہیں ہوا ۔ بچپن میں سنگ کھیلنے والے مر گئے ، ابھی آپ کل گلیوں میں بھاگتے تھے اور بارش کے پانیوں میں کھیلتے تھے ، اس کے بعد کھیل بدلتا گیا، سکول کا زمانہ آ گیا اور وہ بھی ختم ہو گیا ۔ آپ اگر پرانے سکول کے پاس سے گزرو تو آپ کہو گے کہ کبھی ہم یہاں ہوا کرتے تھے اور یہ کمرے یہاں یوں ہوا کرتے تھے ، یہاں یہ ہوتا تھا ، وہاں وہ ہوتا تھا ، لیکن آپ اس عمر سے نکل گئے ۔ سکول میں اب آپ کی اس عمر کے بچے پھر رہے ہیں اور ان میں آپ کا بچہ بھی ہے ۔ اصل میں آپ کو آپ کے بچے نے بوڑھا کیا ہے ۔ بچے نے جب باپ کہنا شروع کر دیا تو آپ بڑے ہو گئے اور بوڑھے ہو گئے ۔ تو آپ کا بچپن گیا ، جوانی چلی گئ اور جوانی کے واقعات چلے گئے ۔ جوانی کسی دور کا نام نہیں ہے بلکہ جوانی ایک اندازِفکر کا نام ہے ۔ یہ سولہ سال کی عمر کا نام نہیں ہے بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے اور ایک اندازِفکر کا نام ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سولہ سال میں بوڑھا ہو اور ایک شخص ساٹھ سال میں جوان ہو ۔ باہر کی شکل اس طرح بدل جاتی ہے  یعنی جو باہر کی شکل ہو سمجھو کہ اعضائے رئیسہ کی شکل بھی وہی ہو گی ۔ آہستہ آہستہ عمر کے سارے دور ختم ہو جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ کبھی پہاڑوں پر چڑھنے کی خواہش ہوتی تھی لیکن اب نہیں ہے ، پیدل چلنے کی خواہش ہوتی تھی لیکن اب نہیں ہے اور کبھی خوش مذاقیوں کی خواہش ہوتی تھی لیکن اب نہیں ہے ۔ یہ سارے کے سارے دور مرتے جاتے ہیں ۔ سانس کی موت سے پہلے بہت سی موتیں ہو چکی ہوتی ہیں ۔مثلاً ایک عزیز دوست چلا گیا تو یہ ایک موت ہو گئ ۔ ایک خواہش تھی اور ٹوٹ گئ ، کبھی آپ کو گھر میں گلاب لگانے کا بہت شوق تھا ، اب گلاب لگ گیا ہے لیکن بینائی ختم ہو گئ ہے ، اب نہ خوشبو آتی ہے اور نہ رنگ نظر آتا ہے کیونکہ وہ عمر نہیں رہی ۔ آپ زندگی بھر کتابیں اکٹھی کرتے ہیں کہ کبھی وقت ملا تو پڑھیں گے ۔ لیکن اب کتابیں ہی کتابیں ہیں اور پڑھنے کا وقت نہیں ہے ۔ انسان آہستہ آہستہ مرتا چلا جاتا ہے ۔ اپنے لوگ بیگانے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اگر کبھی آپ کو معلوم ہو کہ پردیس میں رہنے والا آپ کا بھائی اس شہر میں آیا ہے اور آپ کو ملے بغیر چلا گیا ہے تو موت تو ہو گئی ۔ ایسے اکثر ہوتا ہے کہ دو بھائی مل کے اپنا جنازہ اکٹھے پڑھتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ مکان کے درمیان دیوار ڈال لو اور تیرے بچے ادھر ، میرے بچے اُدھر ۔ بھائیوں نے مل کر بھائیوں کے درمیان ڈال لی ، اب وہ بھائی تو ختم ہو گئے ۔ وہ جو ایک تھالی میں کھانے والے تھے ، اب ایک مکان میں دو دیواریں بناتے ہیں ۔ جب بھائی کے ساتھ آپ کا لین دین شروع ہو جائے تو سمجھو کہ آپ لوگ مر گئے ۔ وہ بھائی جس کو آپ ہمیشہ دیا کرتے تھے یا لیا کرتے تھے ، اب دس دس روپے گننا شروع ہو گئے ہو ۔ یوں انسان تحلیل ہوتا جا رہا ہے ۔ خیالات بدلتے جاتے ہیں ، چہرے بدلتے جاتے ہیں ، وابستگیاں بدلتی جاتی ہیں ، عنوان بدلتے جاتے ہیں ، رشتہ داریاں ختم ہوتی جاتی ہیں ۔ حتیٰ کہ آخری ایک موت جو ہے وہ سانس کی ہوتی ہے ۔ ہم سانس کے ختم ہونے کو موت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سانس تو اعلان ہے ان تمام موتوں کا جو آپ مر رہے ہو ۔ موتیں تو آپ گزار رہے ہو مگر یہ دیکھو کہ جب زندگی من جانب اللہ ہے تو پھر موت بھی من جانب اللہ ہے ۔ آپ نے ساری زندگی اللہ سے مستعار لی تھی اور ایک معاہدہ ہوا تھا کہ آپ کا اتنا عرصہ ہے ، وہ گزار آٶ یعنی جاؤ، کھاؤ پیو اور شام کو گھر واپس آ جاؤ ۔ اب آپ واپس نہیں آتے جب کہ کھا پی چکے ہو ، اس لیے وہ گھنٹی بجا دیتا ہے کہ کہاں گیا ، پکڑ کے لاؤبچے کو اور پھر بچہ واپس آ جاتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کھیل اتنا سارا ہے -