قسط۔۳
پہلا شہید
ایک اور موقعے پر آپؐ نے صحن کعبہ میں توحید کا اعلان کیا تو قریش جوش میں آکر آپ کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے اور ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ آپؐ کے ربیب یعنی حضرت خدیجہؓ کے فرزند حارث بن ابی ہالہ کواطلاع ہوئی تو وہ بھاگے آئے اور خطرہ کی صورت پاکر آپؐ کو قریش کی شرارت سے بچانا چاہا۔ مگر اس وقت بعض نوجوانان قریش کے اشتعال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی بدباطن نے تلوار چلا کر حارث کووہیں ڈھیر کردیا۔ اور اس وقت کے شوروشغب میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تلوار چلانے والا کون تھا۔(الاصابہ ذکر حارث)
ایک دفعہ آپؐ ایک راستہ پر چلے جاتے تھے کہ ایک شریر نے برسرعام آپؐ کے سر پر خاک ڈال دی۔ ایسی حالت میں آپؐ گھر تشریف لائے۔ آپؐ کی صاحبزادی نے یہ دیکھا تو جلدی سے پانی لے کر آئیں اور آپؐ کا سر دھویا۔ اور زار زار رونے لگیں۔ آنحضرت ؐ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:‘‘بیٹی رونہیں۔اللہ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دور ہوجائیں گی۔‘‘(تاریخ طبری)
شجاعت اور عزم
خطرہ میں سب سے آگے
حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐسب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا (کسی طرف سے کوئی آواز آئی تھی) لوگ آواز کی طرف دوڑے تو سامنے سے نبی کریمؐ ان کو آتے ملے آپ بات کی چھان بین کرکے واپس آرہے تھے حضرت ابوطلحہ ؓکے گھوڑے پر سوار تھے۔ گھوڑے کی پیٹھ ننگی تھی اور آپؐ نے اپنی گردن میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ لوگوں کو سامنے سے آتے دیکھا تو فرمایا ڈرو نہیں میں دیکھ آیا ہوں کوئی خطرہ کی بات نہیں۔پھر آپنے ابوطلحہؓ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا ہم نے اس کو تیز رفتاری میں سمندر جیسا پایا۔ یا یہ فرمایا کہ یہ تو سمندر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد)
اشجع الناس
ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت براء کے پاس آیا اور آپؓ سے پوچھا کہ اے ابوعمارہ کیا آپ لوگوں نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابل پر پیٹھ پھیرلی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں سب کے بارہ میں تو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن میں آنحضرتؐ کے بارہ میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپؐ نے دشمن کے شدید حملہ کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی۔پھر انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہوا زن قبیلہ کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر نکلا تھا انہوں نے یا تو بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زرہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو بالکل نہتے تھے لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیر انداز تھے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا توانہوں نے اس لشکر پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کردی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے۔ اس حملہ کی تاب نہ لا کر مسلمان بکھر گئے لیکن ان کا ایک گروہ آنحضرت ؐکی طرف بڑھا۔ حضورؐ ایک خچر پر سوا ر تھے جسے آپ کے چچا ابوسفیان بن حارث لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے۔جب حضورؐ نے مسلمانوں کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھا تو آپ کچھ وقفہ کے لئے اپنے خچر سے اترے اور اپنے مولیٰ کے حضور دعا کی۔ پھر آپ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مدد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔ اَنَا النّبِیّْ لَا کَذِب اَنَا ابنْ عَبدِ المْطَّلِبمیں خدا کا نبی ہوں اور یہ ایک سچی بات ہے۔( لیکن میری غیر معمولی جرات دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں نہیں) میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا محمدہوں۔’’
اور آپ یہ دعا کرتے جاتے تھے۔ اَللَّھْمَّ نَزِّل نَصرَکَ اے خدا اپنی مدد نازل کر۔پھر حضرت براء نے کہا کہ حضورؐ کی شجاعت کا حال سنو۔ جب جنگ جوبن پر ہوتی تھی تو اس وقت حضورؐ سب سے آگے ہوکر سب سے زیادہ بہادری سے لڑرہے ہوتے تھے اور ہم لوگ تو اس وقت حضورؐ کو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ وہی بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضورؐ کے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد)
عزم بے مثال
حضورؐ جنگ احد سے پہلے خواب میں دیکھ چکے تھے کہ آپؐ کے کسی عزیز کا نقصان ہوگا یا آپؐ کی ذات کو گزند پہنچے گا اور کچھ صحابی بھی شہید ہوں گے۔ آپؐ منشاء الہیٰ کے ماتحت صحابہؓ سے مشورہ کرتے ہیں۔ نوجوان صحابہ جوش و اخلاص میں مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حضور ہتھیار پہن لیتے ہیں۔ اب نوجوان صحابہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا اور وہ معذرت خواہ تھے لیکن خداکے نبی نے فرمایا‘‘نبی ہتھیار پہن کر اتارتا نہیں’’
یہ تھی آپ کی بے مثال شجاعت اور یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہونا چاہئے کہ جب عزم کرلیں تو پھر تذبذب کیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ6)
اسے آنے دو
جنگ اْحد میں آپ ؐشدید زخمی ہوئے۔ چہرہ مبارک لہولہان تھا۔ابی بن خلف ایک کافر مدت سے تیاری کررہا تھا۔ اس نے ایک گھوڑا پالا ہی اس لئے تھا۔اس کو روزانہ جوار کھلاتا کہ اس پر چڑھ کر محمد کو قتل کروں گا(نعوذباللہ) اس بدبخت کی نظر جب حضورؐ پر پڑی تو گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے آیا اور یہ نعرہ لگایا اگر محمد بچ جائیں تو میری زندگی عبث ہے۔ صحابہ نے یہ دیکھاتو حضور اور اس کے درمیان حائل ہونا چاہا۔ حضورؐ نے فرمایا ہٹ جاؤ اسے آنے دو اور میرے زخمی آقا نے جن کے زخم سے ابھی خون رس رہا تھا نیزہ تھام کر اس کی گردن پر وار کیا۔ وہ چنگھاڑتا ہوا واپس مڑا۔ کسی نے کہا بھئی معمولی زخم ہے کیا چیختا اور واویلا کرتا ہے۔ اس نے کہا یہ معمولی زخم نہیں محمد کا لگایا ہوا ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام زیرعنوان قتل ابی بن خلف)
صفائی اور پاکیزگی
حضورؐ مسواک کے سختی سے پابند تھے۔ وضو کے وقت بھی مسواک کرتے اور رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تب بھی مسواک سے دانت ضرور صاف کرتے۔ (صحیح بخاری کتاب الجمع باب السواک )آپ کی زندگی کے آخری لمحات میں بھی آپ کو مسواک کا خیال تھا۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ کی وفات سے کچھ دیر قبل میرا بھائی عبدالرحمان میرے حجرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ میں نے اپنے سینے کے ساتھ حضورؐ کو سہارا دیا ہوا تھا میری نظر حضو رؐ پر پڑی میں نے دیکھا کہ آپؐ عبدالرحمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مجھے خیال آیاکہ حضورؐ کو مسواک کر نا بہت پسند تھا اور صحت کے زمانے میں اس کا بہت اہتمام کرتے تھے جبکہ بیماری میں ایسا نہ کرسکتے تھے۔ شاید اس وقت مسواک کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے میں نے حضور ؐ سے پوچھا ‘‘عبدالرحمن سے مسواک لے کر آپ کو دوں ؟’’ میرے سوال پر حضورؐ نے سر سے اشارہ کیا ہاں۔اس پر میں نے عبدالرحمان سے مسواک لے کر حضورؐ کو دے دی حضور ؐ نے مسواک منہ میں رکھی لیکن ضعف بہت تھا۔ دانتوں سے چبانے کی طاقت نہ تھی۔میں نے پوچھا۔‘‘ میں مسواک آپ کے لئے اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کردوں ؟’’ آپ نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر میں نے حضورسے مسواک پکڑی اور اس کو اپنے دانتوں میں خوب چبا کر آپ کے لئے بالکل نرم اور ملائم کردیا۔اور حضور نے اسے اپنے دانتوں پر اچھی طرح پھیرا۔ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی و وفاتہ)
خوشبو کی پسندیدگی
آنحضرتؐ خوشبوکو بہت پسند فرماتے تھے آپؐ نے دنیا میں اپنی پسندیدہ ترین چیزوں میں سے ایک خوشبو کو قرار دیا ہے۔ (مسنداحمدبن حنبل جلد3 ص 128)
مسجدوں کے آداب
مساجد کی صفائی اور نظافت کے متعلق تفصیلی تعلیم دیتے ہوئے رسول اللہؐ نے فرمایا:۔‘‘ اپنی مساجد اپنے ناسمجھ بچوں مجانین (دیوانے، مجنوں)، خریدوفروخت لڑائی جھگڑے اور شور سے محفوظ رکھو۔ مسجد کے دروازوں کے باہر طہارت خانے بناؤ اور جمعہ وغیرہ کے موقع پر مساجد میں خوشبو کی دھونی دیا کرو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب مایکرہ فی المساجد)
عاجزی و انکساری
انکساری
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ کوئی شخص آنحضرت ؐ سے بڑھ کر حسن خلق کا مالک نہیں تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہواکہ صحابہؓ میں سے کسی نے یا اہلِ بیت میں سے کسی نے آپ کو بلایا ہو اور آپؐ نے اس کو لبیک یعنی حاضر ہوں کہہ کر جواب نہ دیا ہو۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خْلْقٍ عَظِیمٍ۔ کہ آپ کو خلق عظیم پر فائز کیا گیا ہے۔
اللہ کا بندہ ہوں
حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ؐکو ہم نے دیکھا کہ حضورؐ اپنے عصاکو زمین پر ٹیکتے ہوئے ہماری طرف آرہے ہیں۔ ہم حضورؐ کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے۔ حضورؐنے فرمایا کہ نہیں بیٹھے رہو اور دیکھو جس انداز میں عجمی ایک دوسرے کے احترام کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تم ایسے نہ کھڑے ہوا کرو۔پھر آپؐ نے فرمایا:۔‘‘کہ میں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں اس کے دوسرے بندوں کی طرح میں بھی کھاتا پیتا ہوں اور انہیں کی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ (الشفاء لقاضی عیاض باب تواضع)
اسی طرح حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ ایک مجلس میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا حضورؐ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے آپؐ سے کچھ کام ہے لیکن میں آپ سے ان لوگوں کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی میرے ساتھ آکر میری بات علیحدگی میں سنیں۔ حضورؐ نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ اے فلاں’ تو مدینہ کے راستوں میں سے جس راستہ میں چاہے میں وہاں تیرے ساتھ جاؤں گا وہاں بیٹھ کر تیری بات سنوں گا اور جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کردوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ حضرت انس کہتے ہیں حضور کی بات سن کر وہ حضور کو ایک راستہ پر لے گئی پھر وہاں جا کر بیٹھ گئی حضور بھی اْس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اْس کی بات سن کر اْس کا کام نہیں کردیا حضوروہیں بیٹھے رہے۔(شفا عیاض باب تواضع)
انکساری کی انتہا
آنحضرتؐ جب دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے وہ دن آپؐ کے لئے بہت خوشی اور مسرت اور عظمت کے اظہار کا دن تھا۔ مگر حضورؐ خدا کے فضل کے اظہار پر خدا کی راہ میں بچھے جاتے تھے۔ خدا نے جتنا بلند کیا آپؐ انکساری میں اور بڑھتے جارہے تھے یہاں تک کہ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ؐکا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جالگا۔ اور اللہ کے نشانوں پر اس کی حمد وثناء میں مشغول تھے۔ (سیرہ ابن ہشام باب وصول النبی ذی طوی جلد2صفحہ405)
اپنے ہاتھ سے کام کرنا
آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بلند ترین مقام عطا فرمایا تھا۔ اور آپکو ایسے خدام بھی بخشے تھے جو آپ کی خدمت پر ہمیشہ کمربستہ تھے اور آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کو تیار تھے مگر اس کے باوجود آپ اپنے لئے عام دنیاوی معاملات میں کوئی امتیازی حیثیت اختیار کرنا پسند نہ فرماتے اور اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے۔ اور اس میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔اپنے خادموں کا بوجھ ہلکا کرتے اور انہیں آرام پہنچانے کی اتنی کوشش فرماتے کہ وہ آپ پر جان فدا کرنے کے لئے مستعد رہتے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے عمل کو وقار بخشا اور ہاتھ سے کام کرنے میں عزت کی نوید سنائی۔
گھر میں کام
حضور اکرمؐ گھر کے جو کام کرتے تھے ان کا نقشہ حضرت عائشہؓ نے اس طرح کھینچا ہے کہ حضور اپنی جوتی خود مرمت کرلیتے تھے اور اپنا کپڑا سی لیا کرتے تھے۔ (مسند احمدبن جنبل جلد6ص 167'121)دوسری روایات میں ہے کہ آپؐ اپنے کپڑے صاف کرلیتے ، ان کو پیوند لگاتے بکری کا دودھ دوہتے، اونْٹ باندھتے، ان کے آگے چارہ ڈالتے، آٹا گوندھتے اور بازار سے سودا سلف لے آتے۔(الشفاء لقاضی عیاض باب تواضع)مزید بیان کیا گیا ہے کہ ڈول مرمت کرلیتے خادم اگر آٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے اور بازار سے گھر کا سامان اْٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب ا للدنیہ جلد4ص 264اسد الغابہ)
یہ حضورﷺ کی عمومی معاشرتی زندگی کا نقشہ ہے جس کی تائید میں صحابہ نے متفرق واقعات بیان کئے ہیں۔ چند ایک نمونہ کے طور پر پیش ہیں۔
سامان خود اٹھایا
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتؐ کے ساتھ بازار گیا جہاں سے حضورؐ نے کچھ شلواریں خریدیں اور پھر آپؐ کے ساتھ جو خزانچی تھا اسے فرمایا کہ اس دکاندار کو ان شلواروں کی قیمت ادا کردو اور ہاں دیکھو پلڑا جھکا کر رکھنا اور ان شلواروں کی قیمت سے زیادہ قیمت دینا۔ پھر حضرت ابوہریرہؓ نے اس سارے واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی اور یہ بھی بتایا کہ جب حضورؐ اس دکان سے واپس جانے لگے تو وہ دکاندار تیزی سے حضور کے ہاتھ کی طرف بوسہ دینے کو بڑھا لیکن حضورﷺ نے اپنا ہاتھ پرے کرلیا اور فرمایا دیکھو اس انداز میں تو تعظیم (تم) عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کی کرتے ہو اور میں تو بادشاہ نہیں (بادشاہ تو صرف اللہ ہی ہے) میں تو تم جیسا ایک آدمی ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ پھر حضورؐ نے جو شلواریں خریدی تھیں اٹھالیں میں نے چاہا کہ میں انہیں پکڑلوں لیکن حضورؐ نے فرمایا نہیں رہنے دو جس کی چیزہو اس کو خود ہی اٹھانی چاہئے۔ (الشفا لقاضی عیاض۔ باب تواضع)
اجتماعی کاموں میں شرکت
حضورﷺ کی منکسرانہ اور متواضع زندگی کا ایک پہلو اجتماعی کاموں میں شرکت ہے۔ آنحضرتﷺ نے قومی محنت کے امور میں براہ راست شریک ہو کر قومی خدمت کو ایک نیا شرف اور نئی عظمت عطافرمائی۔
تعمیر کعبہ
حضورﷺ کے بچپن میں کعبہ کی تعمیر ہورہی تھی اس میں حضورﷺ نے بھی بڑوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور پتھر اٹھا کر لاتے رہے۔ (صحیح بخاری باب بنیان الکعبہ)
قریش نے آپ کی جوانی کے زمانہ میں جب کعبہ کوگرا کر ازسرنو تعمیر کیا۔ آپ نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اور حجراسود کی تنصیب کے وقت قریش کے جھگڑے کو حکم بن کر عمدگی سے حل فرمایا۔(سیرت ابن ہشام جلد1ص209مطبع حجازی قاہرہ1937حدیث بنیان الکعبہ)
تعمیر مسجد قبا
مدینے سے تین میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام قبا تھا۔ رسول کریمﷺ کی ہجرت سے قبل کئی مہاجرین مکہ سے آکر اس بستی میں ٹھہر گئے تھے۔ حضورؐ نے جب خود ہجرت فرمائی تو مدینہ جانے سے قبل اس بستی میں قیام فرمایا۔
یہاں آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جسے مسجد قبا کہتے ہیں۔
مسجد کی تعمیر میں آپ نے خود صحابہ کے ساتھ مزدوروں کی طرح حصہ لیا۔ روایت ہے کہ حضورﷺ نے صحابہ سے فرمایا قریب کی پتھریلی زمین سے پتھر جمع کرکے لاؤپتھر جمع ہوگئے تو حضور ؐنے خود قبلہ رخ ایک خط کھینچا۔ اور خود اس پر پہلا پتھر رکھا۔ پھر بعض بزرگ صحابہ سے فرمایا اس کے ساتھ ایک ایک پتھر رکھو۔ پھر عام اعلان فرمایا کہ ہر شخص ایک ایک پتھررکھے۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ خود بھاری پتھر اْٹھا کر لاتے یہاں تک کہ جسم مبارک جھک جاتا۔ پیٹ پر مٹی نظر آتی صحابہ عرض کرتے۔ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ یہ پتھر چھوڑ دیں ہم اٹھالیں گے مگر آپ فرماتے نہیں تم ایسا ہی اور پتھراْٹھا لاؤ۔(المعجم الکبیرللطبرانی جلد24ص318مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)
جنگ خندق
حضورﷺ کے زمانے میں سب سے اہم اور سب سے مشکل عمل جنگ خندق کے موقع پر ہوا۔
شوال5ھ میں کفارِ مکہ کی سرکردگی میں پندرہ ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ جس کی روک تھام کے لئے مدینہ کے غیر محفوظ حصہ کے سامنے خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔حضورؐ نے خود اپنی نگرانی میں موقع پر نشان لگا کر پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں کو دس دس صحابہ کے سپرد فرمادیا۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد7ص 397ازابن حجر عسقلانی دارنشر الکتب الاسلا میہ لاہور1981ء)
ان ٹولیوں نے اپنے کام کی تقسیم اس طرح کی کہ کچھ آدمی کھدائی کرتے تھے اور کچھ کھدی ہوئی مٹی اور پتھروں کو ٹوکریوں میں بھر کر کندھوں پر لاد کر باہر پھینکتے تھے۔حضورﷺ بیشتر وقت خندق کے پاس گزارتے اور بسا اوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے تھے۔ او ران کی طبائع میں شگفتگی قائم رکھنے کے لئے بعض اوقات آپ کام کرتے ہوئے شعرپڑھنے لگ جاتے جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ سْرملا کر وہی شعر یا کوئی دوسرا شعر پڑھتے۔ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کو ایسے وقت میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا کہ آپ کا جسم مبارک مٹی اور گردوغبار کی وجہ سے بالکل اَٹا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق)
میں لکڑیاں لاؤں گا
ایک سفر کے دوران کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو مختلف صحابہؓ نے اپنے اپنے کام بانٹ لئے کسی نے بکری ذبح کرنے کا ’کسی نے پکانے کا۔ حضورؐ نے جنگل سے لکڑیاں اکٹھا کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ یہ کام بھی ہم کرلیں گے تو آپؐ نے فرمایا میں جانتا ہوں تم یہ کام بھی کرسکتے ہو مگر میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میں خود کو تم سے ممتاز کروں اور الگ رکھوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو پسند نہں ا کرتا جو اپنے ہمراہیوں سے ممتاز بنتا ہے۔(شرح المواہب اللدنیہ جلد4صفحہ265دارالمعرفہ بیروت1933ء)
’’مخلوق میں جب تک خالق کا نظام نہیں چلایا جائے گا دنیا میں امن نہ ہوگا۔‘‘
سید عطا ء اللہ شاہ بخاری