سيرت النبی ﷺ
بيويوں كے حقوق سيرت النبی كے آئينے ميں
فہد حارث
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلم معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا کہ یہاں کے مذہبی طبقات کے بعض افراد اور گروہوں نے اپنے مقامی عرف و رواج کو مذہب کے نام پر سندِ جواز دینے کی کوشش کی اور یوں نہ صرف دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا بلکہ کئی لوگوں کی دین سے برگشتی اور الحاد میں جا پڑنے کے ذرائع بھی پیدا کردئیے۔
ایک درس دینے والی خاتون جو بزعم خویش خود کو "اسلامی میرج کونسلر" بھی باور کرواتی ہیں، جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کے بھائی دوسری لڑکیوں کے چکر میں پڑ کر کسی طور سے اپنی بیوی کی جائز خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے روادار نہیں ہیں اور گھر والوں کے سمجھانے پر یہ بول چکے ہیں کہ میں بیگم کو پیسہ کوڑی تو دیدونگا لیکن کوئی مجھے اس سے محبت کرنے، اچھا سلوک روا رکھنے یا بحیثیت والدین، بچوں کی تربیت کی آدھی ذمہ داری اٹھانے کی توقع نہ رکھے، تو اپنی میکے روٹھی اپنی بھابھی کو منانے واسطے وہ "دیندار میرج کونسلر" انکو ایک لمبا چوڑا "قرآن و حدیث کے دلائل سے بھرپور" درس دیکر یہ فتویٰ صادر فرماتی ہیں کہ "اسلام نے مرد پر واجب قرار نہیں دیا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت کرے، اس پر واجب صرف بیوی بچوں کا نان نفقہ اور بحیثیت انسان اس کی عزت کرنا ہے۔ اس لیے آپ اپنے بچوں کو لیکر واپس سسرال آجائیں کیونکہ روزِ قیامت اللہ نے آپ سے یہ نہیں پوچھنا کہ آپ کے شوہر نے اپنی ذمہ داریاں نبھائی یا نہیں، البتہ وہ آپ سے ضرور پوچھے گا کہ آپ نے اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھائیں"
بجائے اس کے کہ وہ نہایت "دیندار خاتون" اپنے بھائی کو نامحرمات سے سفلی تعلقات رکھنے پر سمجھائیں، ان کو بیوی کو اسکا جائز حق دینے پر اصرار کریں، الٹا موصوفہ اپنی بھابھی کو اسلام کے نام پر "دبا دبوں" کے گھر واپس لانے میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ بقول ان کے مرد تو مرد ہوتا ہے، اگر عورت اس سے زیادہ عرصہ دور رہے تو دوسری "چالاک و مکار" عورتیں، ان کے "معصوم بھائی" کو اچک لے جاسکتی ہیں۔ ایسے میں خسارہ ان کی بھابھی کا ہی ہونا ہے۔ اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ مدرس موصوفہ کوئی جاھل خاتون ہیں، نہ جی نہ، موصوفہ عصری علوم کے لحاظ سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔
یہ ہے ہمارے معاشرے کے بعض مذہبی حضرات کا وہ مکروہ چہرہ جہاں وہ اپنی ناجائز اور مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لیے قرآن و حدیث پر اتہام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے مرد پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ عورت کی مالی و جنسی ضرورت کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیاتی ضرورتوں کا بھی خیال کرے۔ اس سے اچھے سے بات کرے، لگاوٹ کا مظاہرہ کرے، محبت کا اظہار کرے جیسا کہ اللہ نے سورۃ الروم آیت نمبر ۲۱ میں تصریح کی ہے کہ "(اللہ نے) تم سے ہی تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و رحمت کے بیج بوئے"۔ گویا یہ آیت بتاتی ہے کہ شادی شدہ زندگی کا ایک مقصد جہاں عزت و عفت کی حفاظت اور نسل انسانی کی بقاء ہے وہیں اس کا مقصد میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت اور نفسیاتی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت نمبر ۱۹ میں مردوں کو خاص تاکید کی کہ ان (اپنی بیویوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو۔اسی بات کو آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ کہہ کر ادا کیا کہ تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپﷺ خود بھی اپنی بیویوں کے ساتھ نہایت محبت و مودت سے رہتے تھے۔ ہر روز عصر کے بعد آپﷺ اپنی تمام ازواج کے ہاں ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور عشاء کے بعد اس بیوی کے ہاں قیام کرتے جن کی باری ہوتی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ام المومنین سیدہ صفیہؓ کو اونٹ پر چڑھنے کی حاجت ہوئی، قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے مشکل درپیش ہوئی تو آپﷺ نے اپنا گھٹنا آگے کردیا او ر وہ اس پر پیر رکھ کر اونٹ پر سوار ہوگئیں۔ گویا اگر آج کے زمانے میں دیکھا جائے تو ایسے ہی جیسے کوئی صاحب اپنی بیوی کے بیٹھنے کے لئے کار کا دروازہ کھول دے، وہ الگ بات ہے کہ اس کے ایسا کرتے ہی اس پر رن مرید اور جورو کا غلام کے القابات کس دئیے جاتے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ کی زوجہ اونٹ پر ہودج میں سوار تھیں ۔ اونٹ چلانے والے نے ذرا تیزی سے اونٹ چلایا تو آپﷺنے اس کو برجستہ فرمایا کہ دھیرے چلو، تمہارے اونٹ پر آبگینوں سی نازک سواریاں بیٹھی ہیں۔ یہ ہے وہ تناظر جس میں نبی ﷺ اپنی ازواج کو دیکھتے تھے۔ اسی طرح بعض روایتوں میں مذکور ہے کہ بسا اوقات آپﷺ کی بیویاں آپ ﷺ سے ناراض ہوکر تلخ کلامی کرجاتی تھیں، ایسے مواقع پر آپﷺ ضبط سے کام لیتے تھے اور اس تلخ کلامی کا جواب محبت سے دیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ ایک دفعہ آپﷺ سیدہ عائشہؓ کے ہاں براجمان تھے اور اس اثناء میں لونڈی یا غلام غالباً سیدہ زینب ؓ کے گھر سے ایک پیالے میں کھانے کی کوئی چیز لے کر آیا- سیدہ عائشہؓ کو یہ دیکھ کر جلن کے مارے اتنی غیرت آئی کہ آپ ؓ نے ہاتھ مار کر وہ پیالہ گرادیا۔ آپ ﷺ کچھ نہیں بولے، صرف غلام سے یہ فرمایا کہ تمہاری ماں کو غصہ آگیا تھا اور اس پیالے کی جگہ دوسرا پیالہ واپس کروادیا۔ جبکہ آج ہمارا حال یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا ہو تو نہ صرف میاں اور اس کے گھر والے بلکہ خاتون کے گھر والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ عورت ضبط سے کام لے اور خاوند کو غصہ نہ آنے دے جبکہ نبی ﷺ کے اس طرز عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے ضبط کی تلقین و مثال دونوں کے لئے قائم کی ہے اور اگر ایک فریق غصہ میں ہو تو دوسرے فریق کو ٹھنڈا رہنے کو کہا ہے۔
آج ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے سامنے جتنا سنجیدہ رہے گا اور ہنسی مذاق سے پرہیز کریگا، اس کا اتنا ہی رعب اور وقار بنے گا جبکہ افضل البشرﷺ اپنی ازواج کے ساتھ نہ صرف ہنسی مذاق فرماتے تھے بلکہ ان کے ساتھ ان کی عقل و شوق کے لحاظ سے برتاؤ بھی کرتے تھے۔ حدیث میں آتا ہےکہ آپ ﷺ نے سیدہ عائشہؓ کے ساتھ ایک دفعہ دوڑ لگائی، سیدہ عائشہؓ ہلکا جسم ہونے کی وجہ سے جیت گئیں اور نبی ﷺ کو جتایا کہ میں نے آپﷺ کو ہرادیا۔ کچھ سالوں بعد پھر یہی دوڑ کا واقعہ پیش آیا لیکن اس دفعہ سیدہ عائشہؓ کا جسم بھاری ہوچکا تھا سو آپﷺ دوڑ جیت گئے اور سیدہ عائشہؓ کے ساتھ مزاح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اس دن کا بدلا تھا۔ ایسے ہی ایک دفعہ سیدہ عائشہؓ کے سر میں درد تھا اور انہوں نے آپﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپﷺ نے ان کی دلجوئی کے لئے فرمایا کہ عائشہؓ فکر نہ کرو، اگر تمہیں اس درد سر میں کچھ ہوگیا تو میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے غسل دونگا، کفناؤں گااور لحد میں اتارونگا۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ ؓ نے تنک کر فرمایا کہ ہاں آپ ﷺ تو یہی چاہتے ہیں کہ میں مرجاؤں اور آپ میرے بستر پر میری سوکن لے آئیں ۔ سیدہ عائشہؓ کی اس بات پر آپﷺ نے قطعی برا نہیں منایا۔ الغرض آپﷺ نے خود اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ خواتین کے ساتھ نہایت پیار و محبت اور لگاوٹ سے رہنا چاہیئے اور ان کی مادی و جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیاتی ضروریات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیئے۔ اسی بات کے سد باب کے لئے آپﷺ نے فرمایا کہ ان اللہ یبغض الجعظری الجواظ یعنی اللہ ان سے نفرت کرتا ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے نہایت سخت اور اپنے آپ میں متکبر ہوں۔
علامہ ابن قیم نے زادالمعاد کی دوسری جلد میں اس سلسلے میں کیا ہی عمدہ لکھا ہے کہ انصار کی لڑکیاں سیدہ عائشہؓ کے پاس کھیلنے کے لئے آیا کرتی تھیں۔ آپﷺ نے کبھی بھی انہیں ان کے ساتھ کھیلنے سے منع نہیں فرمایا۔ سیدہ عائشہؓ برتن میں جس جگہ پانی پیتیں، آپﷺ بھی اپنا ہونٹ وہیں رکھتے اور پانی پیتے۔ سیدہ عائشہؓ کی گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھتے۔ ان کی گود میں سر رکھ کر آرام کرتے۔ جب کچھ حبشی مسجد نبویﷺ کے سامنے اپنے کرتب دکھارہے تھے تو آپﷺ نے سیدہ عائشہؓ کو وہ کھیل دکھایا اور وہ آپﷺ کے کندھوں کا سہارا لئے ہوئے تھیں۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آج کے دور میں شوہروں کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیویوں کو باہر گھمانے پھرانے لے جائیں اور شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہیں تفریح کے مواقع بہم پہنچائیں۔
حتیٰ کہ جنسی ضروریات کے لئے بھی آپﷺ نے مردوں کو تاکید کی کہ
لایقعن احدکم علی امراتہ کما تقع البھیمۃ ولکن بینھما رسول، قیل وما الرسول یا رسول للہ! قال القبلۃ و الکلام
یعنی تم میں سے کوئی اپنی بیوی پر اس طرح نہ گر پڑے جس طرح جانور گرتے ہیں۔ پہلے میاں بیوی کے درمیان پیغام رسانی ہونی چاہیئے۔ پوچھا گیا کہ پیغام رسانی کا کیا مطلب یا رسول اللہﷺ؟ آپﷺ نے فرمایا بوس و کنار اور محبت بھری باتیں۔
اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری جلد ۱۳ صفحہ ۲۲۲ میں لائے ہیں جس میں نبی ﷺ نے مرد کی تین کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک کمزوری یہ بتائی کہ مرد اپنی بیوی کے پاس جائے اور بات چیت اور الفت و محبت کے اظہار سے قبل اپنی بیوی سے جماع کرے۔ اپنی ضرورت پوری کرلے اور بیوی کو یونہی چھوڑ کر چلتا بنے۔ یہی وجہ تھی کہ نبی ﷺ نے سیدنا عبداللہ بن عمر سے جو کہ عام طور پر دن میں روزہ رکھتے تھے اور راتیں تہجد میں گزار دیتے تھے، فرمایا کہ ان لبدنک علیک حقاً و ان لاھلک علیک حقاً یعنی تم پر تمہارے بدن کا بھی حق ہے اور تمہارے گھروالوں کا بھی حق ہے۔خود سوچئیے کہ جو شریعت جنسی ضروریات کی تسکین تک کے لئے نفسیاتی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے اتنی تفصیل سے احکامات جاری کرتی ہے اور جس کا پیغمبر خود ان احکامات پر عمل پیرا ہوکر دکھاتا ہے، اس شریعت کے ماننے والوں کو یہ زیبا دیتا ہے کہ وہ اپنی بیویوں پر بے جا سختی کریں یا فضول رعب جھاڑیں اور صرف نان نفقہ دیکر اپنی ذمہ واریوں سے سبکدوش ہوجائیں۔ اسی لئے آپﷺ نے فرمایا کہ خیرکم خیرکم لاھلہ و انا خیرکم لاھلی یعنی تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے زیادہ بہتر ہوں۔
نبی ﷺ جن کی مکہ کی تیرہ سالہ زندگی مشرکین کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرتے گزری اور مدینہ کی دس سالہ زندگی جس میں ہر پل یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کب کہاں سے حملہ ہوجائے اور مسلمان بشمول نبی ﷺ ہر وقت چوکنا رہتے تھے،گزری وہاں آپﷺ سیدہ عائشہؓ کے ساتھ دوڑیں بھی لگارہے ہیں تو ان کو حبشیوں کا کرتب بھی دکھارہے ہیں تو ہودج ہانکنے والے کو اپنی ازواج کو آبگینے جیسا نازک بتا کر آہستہ چلانے کی تلقین بھی کررہے ہیں۔ اس قدر ٹینشن والے ماحول میں ہم میں سے آج کوئی ہوتا تو ہر وقت اسکا منہ ہی بنا ہوا ہوتا کہ بی بی تم کو رومانس و محبت کی پڑی ہے اور یہاں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں جبکہ نبی ﷺ نے اپنی تمام تر پیغمبرانہ اور سیاسی ذمہ داریوں کے باوجود اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی دلجوئی کرنے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔
یہی وجہ رہی کہ آپ ﷺ کی دیکھا دیکھی سیدنا عمرؓ جیسے سخت مزاج انسان تک فرمایا کرتے تھے کہ شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ بچوں کی طرح سلوک کرنا چاہیئے، ان کے ساتھ کھیل کود کرنا چاہیئے اور ان کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہیئے۔
ہماری اماں کہتی ہیں کہ میاں بیوی تو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں، رازداں ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت اور انڈراسٹینڈنگ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جوانی میں ان کو ایک دوسرے کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، بڑھاپے میں اس سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے۔ خاوند کو چاہیئے کہ بیوی کاہر دم خیال رکھے، ایسے ہی جیسے وہ اپنی بہن اور بیٹی کو اس کے شوہر کے ساتھ خوش دیکھنا چاہتا ہے، بالکل ویسے ہی یہ سوچ لے کہ اس کی بیوی بھی کسی کی لاڈلی بہن اور چہیتی بیٹی ہے جو اس کو خوش و خرم اور ہنستا بستا دیکھنا چاہتا ہے۔