سيرت النبی ﷺ
كيا نبی ﷺ سودا كرتے ہوئے بھاؤ تاؤ كيا كرتے تھے
لطيف الرحمان لطف
کچھ دن قبل علاقے کے ایک پھل فروش سے پھل خرید رہا تھا کہ اچانک ایک شان دار گاڑی ریڑھی کے پاس آ کر رک گئی - گاڑی سے تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک صاحب بڑے طمطراق سے نمودار ہوئے ، انہیں دیکھ کر میوہ فروش کی باچھیں کھل گئیں کہ تگڑا گاہک ہاتھ آیا ہے - وہ مجھ سے رخ پھیر کر فوراً تگڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوا ، سیٹھ صاحب نے ریڑھی پر دھرے چار پانچ قسم کے پھلوں پر "تحقیقاتی" نگاہ دوڑائی ، ہر ایک کا نرخ پوچھا پھر گویا ہوا " بہت مہنگے دے رہے ہو کیوں ؟ یہ میں اتنے کا کلو لوں گا یہ اتنے کا درجن چاہیے اور یہ اس قیمت پر درکار ہے""ویسے نرخ تو زیادہ نہیں ہیں صاحب! آپ جو دینا چاہیں دے دیں" ریڑھی والے نے پیشکش کر دی ، اس کے بعد سیٹھ صاحب نے ہر کلو اور ہر درجن میں پچاس پچاس روپے کم کر دئے ، شاید تین قسم کے پھلوں میں اپنے ڈیڑھ سو روپے بچا لیے پھر فاتحانہ انداز میں اپنی لگژری گاڑی کی طرف چلتا بنے ، ریڑھی والے کی تعجب خیز نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں یہاں تک کہ گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی -
مجھے جاپانی پھل (املوک) اور سیب لینا تھا ، ایک چار سو کا کلو دے رہا تھا ،دوسرا ساڑھے تین سو کا، پھل فروش نے سیٹھ صاحب کو دی جانے والی رعایت کے بعد میرے لئے بھی اسی رعایت کی پیشکش کر دی جو میں نے ٹھکراتے ہوئے کہا " خان صاحب! ہمارے پاس گاڑی تو نہیں ہے البتہ دل ضرور ہے آپ سے سو روپے کم کروا کے نہ تو میں امیر کبیر ہو جاؤں گا نہ ہی آپ کو یہ معمولی رقم دینے سے قلاش ہو جاؤں گا- "
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ امیر لوگ سبزی فروشوں اور ریڑھی پر پھل فرخت کرنے والوں سے پچاس سو روپے کی خاطر الجھتے رہتے ہیں حالانکہ یہی لوگ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ہزاروں ، لاکھوں کی خریداری کرتے ہوئے بڑی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں ، مہنگے ریستورانوں میں کھانا کھانے کے بعد ہزاروں کے حساب سے ٹپس دیتے ہیں لیکن جب کسی غریب ریڑھی والے کے پاس آتے ہیں تو پائی پائی کا حساب کرتے ہیں ، حالانکہ سخاوت کا اصل موقع یہی ہونا چاہیے - صاحب ثروت ہونے کا تقاضا تو یہی ہے کہ چھوٹے درجے کے محنت کشوں کا اضافی خیال رکھا جائے ، ان کے پچاس سو روپے کم کرنے کے بجائے دو چار پیسے اوپر دینے چاہئیں -
لگژری گاڑی والے صاحب کا رویہ دیکھ کر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث یاد آئی " لیس الغنی عن کثرۃ العرض ولکن الغنی غنی النفس"( امیری صرف اسباب اور مال و دولت کی کثرت کا نام نہیں بلکہ اصل امیری دل کی امیری ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی خرید وفروخت کے معاملے میں نرمی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا جائے ، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے، جو جب بیچے ، نرمی کرے، جب خریدے، نرمی کرے اور جب تقاضا کرے نرمی کرے “۔(سنن ابن ماجه)
بیچنے میں نرمی یہ ہے کہ قیمت مناسب رکھی جائے ، خریدار کو حتی الامکان رعایت دینے کی کوشش کی جائے ، اسے ادھار کی ضرورت ہو تو دیا جائے ، مہلت مانگے تو دی جائے ، گنجائش سے زیادہ رعایت کا مطالبہ کرے تو جھگڑے بغیر نرمی سے معذرت کر لی جائے ، مشتری خریدی گئی چیز کسی وجہ سے واپس کرنا چاہے تو واپس لی جائے -
خریدنے میں نرمی کا مطلب یہ ہے کہ قیمت میں ایسی رعایت کا مطالبہ نہ کیا جائے جس میں بیچنے والے کا نقصان ہو جائے ، کوئی مجبوری نہ ہو قیمت فوری ادا کی جائے ، بیچنے والا چھوٹے طبقے کا ہو تو حسب گنجائش کچھ اوپر ادائی کی جائے ، خریدی ہوئی چیز میں معمولی نقص ہو تو اسے نظر انداز کیا جائے -
ادھار میں نرمی کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت مند کو حسب تقاضا آسانی کے ساتھ ادھار دیا جائے ، جتنی گنجائش ہو اسے مہلت دی جائے اور ادھار واپس مانگتے ہوئے نرم رویہ اختیار کیا جائے -
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے " اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے کے ایک ایسے شخص کی مغفرت فرما دی جو بیچنے ، خریدنے اور تقاضا کرنے میں نرمی کرنے والا تھا (ترمذی)
کیا خریداری کے وقت بھاؤ تاؤ کرنا سنت ہے ؟
بعض لوگ خریداری کرتے وقت بھاؤ تاؤ کرنے کو سنت قرار دیتے ہیں اور اس پر فرض سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ عمل کرتے ہیں ، ہم نے خود کئی لوگوں کو دیکھا جو کچھ خریدتے وقت کسی چھوٹے درجے کے دکان دار یا سبزی فروش کی ناک میں دم کئے رکھتے ہیں اور اسے اپنی دانست میں سنت کی پیروی سمجھتے ہیں - ظاہر ہے اکثر لوگوں کے پاس اس عمل کے مسنون ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے یہ بات کسی سے سنی ہوئی ہوتی ہے ، عام طور پر اس موقف کے اثبات کے لئے ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے لیجئے وہ حدیث پیش خدمت ہے -حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تم اپنے اس پانی ڈھونے والے اونٹ کو ایک دینار میں بیچتے ہو؟ اور اللہ تمہیں بخشے“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں، تو یہ آپ ہی کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا دو دینار میں بیچتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے“ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ اسی طرح ایک ایک دینار بڑھاتے گئے اور ہر دینار پر فرماتے رہے: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے! یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ گئے، پھر جب میں مدینہ آیا تو اونٹ پکڑے ہوئے اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال! انہیں مال غنیمت میں سے بیس دینار دے دو“ اور مجھ سے فرمایا: ”اپنا اونٹ بھی لے جاؤ، اور اسے اپنے گھر والوں میں پہنچا دو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجہ)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے اگر کچھ ثابت ہوتا بھی ہے تو بس یہ ہے کہ خریداری کے وقت بھاؤ تاؤ کرنا جائز ہے اسے سنت کہنا غلط فہمی ہے ، حدیث سے ثابت ہونے والی ہر چیز سنت نہیں کہلاتی، اسے "ثابت بالسنۃ" یا "ثابت بالحدیث" کہا جاتا ہے جس کا حکم جواز اور اباحت کا ہوتا ہے ، حدیث میں مرغی کھانے کا ذکر ملتا ہے ، دودھ پینے کا تذکرہ آتا ہے ، بکرے کا گوشت تناول کرنے کی روایات ملتی ہیں ، کیا یہ سب کام سنت ہیں اور نہ کرنے والا تارک سنت ہوگا ؟ ہر گز ایسا نہیں ، لہذا بھاؤ تاؤ والی حدیث سے بھی بس اس عمل کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اس لئے پچاس ، سو روپے کے لئے کسی ریڑھی والے اور چھوٹے درجے کے دکان دار کی ناک میں دم نہ کرنے والا ہر گز گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ دوسری احادیث کی روشنی میں ایسا شخص خدا کی رحمت اور بخشش کا مستحق ٹھہرے گا -
اسی حدیث کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خریدا ہوا اونٹ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا اور طے شدہ قیمت بھی ادا کر دی گویا اس حدیث سے جہاں بھاؤ تاؤ کا جواز ثابت ہوتا ہے وہی "اذا اشتری سمحا" والے فرمان نبوی کی عملی شکل دیکھنے کو ملتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ طور خریدار نرمی اور کم زور بائع سے ہم دردی کی اعلی مثال خود پیش فرمائی، بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جب گھر آ کر اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو گھر والوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی اونٹ تھا وہ بھی بیچ کر آگئے ، ممکن ہے یہ بات حضور تک پہنچی ہو ، یہ بھی امکان ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مالی حالت کی کم زوری پہلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو اور اونٹ خریدنا ان کی باوقار انداز میں اعانت کا ایک بہانہ ہو - بڑے لوگ کسی کم زور کی مدد کے لئے باوقار طریقہ ہی اختیار کرتے ہیں -
مفتی صاحب کی ریڑھی والے سے خریداری
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کسی دور میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر نقل و حرکت کیا کرتے تھے ، اندرون شہر سفر کے دوران جہاں نماز کا وقت آتا قریبی مسجد میں جا کر نماز پڑھتے ، مسجد سے نکلتے ہوئے بعض دفعہ خریداری بھی کر لیتے -جامعہ دارالعلوم کراچی کے قریب "عوامی کالونی" نامی ایک بستی ہے جہاں کی سب سے بڑی اور مرکزی جامع مسجد جامعہ کے زیر انتظام ہے ، یہ مسجد سنگر چورنگی (موجودہ انڈس چورنگی) سے ذرا فاصلے پر لب سڑک ہی واقع ہے - پندرہ بیس سال قبل ہمارے گاؤں کے ایک قاری صاحب یہاں موذن ہوتے تھے، ان کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ مفتی صاحب نے یہاں نماز ادا کی ، غالباً ظہر کی نماز، مسجد سے نکلتے ہوئے پھل فروش کی ریڑھی کے پاس آئے اور ان سے کچھ پھل خریدے ، جب پیسے دینے کی باری آئی تو ریڑھی والے نے پیسے لینے سے انکار کر دیا جس پر مفتی صاحب نے کہا" اگر پیسے نہیں لینے ہیں تو پھل بھی واپس لے لیں"
یہ سن کر ریڑھی والے نے کہا ؛ ٹھیک ہے حضرت! اتنے پیسے بنتے ہیں -مفتی صاحب کو شک ہوا کہ یہ پیسے کم بتا رہا ہے چنانچہ دوبارہ فرمایا:" بھائی! ان پھلوں کے جتنے پیسے آپ کسی دوسرے کسٹمر سے لیں گے اتنے ہی مجھ سے بھی لے لیں، میری وجہ سے قیمت کم کرکے اپنا نقصان مت کیجئے ورنہ میں آپ سے یہ پھل نہیں خریدوں گا"
چنانچہ پھل فروش نے مجبور ہو کر وہی پیسے بتا دیئے جو اصل میں بنتے تھے اور مفتی صاحب نے ادائی کر دی -مفتی صاحب نے اس واقعے میں نہ صرف یہ کہ غریب ریڑھی والے سے سخت بھاؤ تاؤ سے گریز کیا بلکہ اپنے دینی ، علمی اور عوامی تشخص کا بھی غلط استعمال نہیں کیا جس سے بہت کم لوگ خود کو بچا پاتے ہیں ، ایک عام داڑھی والا اور معمولی دینی شناخت رکھنے والا شخص بھی ایسے موقع پر اپنی شناخت بیچنے کی کوشش کرتا ہے ، مسجد کا حوالہ دے کر قیمت میں رعایت مانگی جاتی ہے ، مدرسے کا نام لے کر نرخ گھٹانے کی سعی کی جاتی ہے ،داڑھی ، کرتے اور پگڑی کو دام سستے کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، اگر کوئی صاحب منصب و شہرت ہے تو اس کا حوالہ دے کر سامنے والے کو مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ کسی غریب محنت کش سے چند روپے کم کرائے جا سکیں-
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ریڑھی میں سبزی اور پھل بیچنے والا شخص یومیہ کتنا کماتا ہوگا ؟ میں نے اپنے طور پر جاننے کی کوشش کی ہے ، اس لیول کے محنت کش یومیہ 1000 سے 2000 تک کما لیتے ہیں ان میں سے اکثر کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اگر 2000 بھی یومیہ کما لیں تو کرایہ ، گھر کا راشن ، بجلی گیس کا بل اور بچوں کی فیسیں بھرنے کے بعد ماہانہ کتنا بچاتے ہوں گے ؟ شاید کچھ بھی نہیں ،اس لئے ایسے لوگوں سے سخت بھاؤ تاؤ کرنا سنگ دلی ، بے حسی اور انتہائی درجے کی بخیلی ہے-
مولانا محمد ظاہر شاہ چترالی رحمہ اللہ کی ایک خوب صورت عادت
مولانا محمد ظاہر شاہ چترالی رحمہ اللہ کو جب اسپتال جانا ہوتا ، کسی کام سے یا کسی سے ملنے کے لئے کہیں جانا ہوتا تو گھر سے نکل کر دارالعلوم کی کینٹین کے پاس آتے ، کینٹین کے اندر اور سامنے کے سبزہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ، یہاں کوئی آشنا اور ہم مزاج طالب علم نظر آتا اسے اشارہ کرکے بلا لیتے اور کہتے " مولوی صاحب! اگر فارغ ہو تو چلو تھوڑا گھوم پھر کر آتے ہیں"مولانا جیسی شیریں سخن اور مرنجان مرنج شخصیت کی ایسی پیش کش ہم جیسے طالب علموں کے لئے "نعمت غیر مترقبہ" کا درجہ رکھتی، کون ایسا بد ذوق ہوگا جو ایسے پر بہار شخص کی ہم راہی اور کچھ دیر کی ہم نشینی اختیار کرنے پر آمادہ نہ ہو ،مجھے بھی کئی بار استاد جی کے ساتھ اس طرح "گھوم پھرنے" کی سعادت حاصل رہی ہے -کسی طالب علم کو ساتھ لینے کے بعد استاد محترم ہزارہ وال کینٹین کے عقب میں ایستادہ جامعہ کے پرانے گیٹ سے باہر نکلتے اور سامنے ٹیکسی اسٹاپ کا رخ کرتے ، وہاں عام طور پر "کالا خان" مرحوم اپنی ٹیکسی کے دروازے سے سر باہر نکال کر کسی کی راہ تک رہے ہوتے ، جب ان کی نظر استاد جی پر پڑتی تو پرجوش سلام کے ساتھ استاد جی کو لبیک کہتے ، کبھی کبھار کالا خان یہاں نظر نہ آتے تو استاد جی کسی اور ٹیکسی والے سے بات کرتے-حضرت مولانا کی عادت تھی کہ منزل پر پہنچنے کے بعد ٹیکسی والے کو طے شدہ کرائے سے کچھ زیادہ ادا کرتے ، ہم نے جب بھی ان کے ساتھ ٹیکسی میں سفر کیا ان کو اسی طرح کرتے دیکھا ، استاد جی فرماتے" مولوی صاحب! ٹیکسی ڈرائیور ، دکان دار یہاں تک کہ ریڑھی والے کسی داڑھی ٹوپی والے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں کہ پیسے کم کروائے گا ، اس منفی ثاثر کو توڑنا ضروری ہے کیوں کہ اس سے دین داروں اور اہل مدرسہ کی بدنامی ہوتی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ہم دین کے نمائندے ہیں اس بنا پر ہمیں چھوٹے طبقے کے محنت کشوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے ،ان کو چند روپے زیادہ دینے سے ہم قلاش تو نہیں ہوں گے -