خوشبو سے رَقم کرتا ہے گْل تیرا قصیدہ
تابندہ ستارے سرِ دہلیز خمیدہ
خامہ بنیں اَشجار یا اَبحار سیاہی
مرقوم نہ ہو پائیں گے اَوصافِ حمیدہ
ہر شخص کہاں فیض تری نعت کا پائے
ہر شخص کہاں عشق میں آہْوئے رَمیدہ
ہے علم ضَروری وَلے یہ ذِہن میں رَکھنا
پڑھ لکھ کے کوئی ہوتا نہیں عرش رَسیدہ
یعنی میں مدینہ کی فَضاوں میں کھڑا ہْوں!
حیران ہیں اَفکار تو نمناک ہے دیدہ
گْل آپ کی خاطر چنے با عرقِ ندامت
شبنم سے شرابور ہیں گْل ہائے چْنیدہ
صد چاک ہے غفلت سے مگر تیری عِنایت
بھر سکتی ہے ہر عاصی کا دامانِ دَریدہ
آقا تری رَحمت کے سمندر پہ نظر ہے
اَعمال میں سستی ہے مگر پختہ عقیدہ
دامن مرا پْر کر دے ترے اَبرِ کرم سے
گلشن میں کھلیں پھول سرِ شاخِ بْریدہ
یہ کہہ کے قلم قیس مرا تتلی نے چوما
خوش بخت ہو لکھتے ہو محمدؐ کا قصیدہ