نعتيہ فرياد،،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں
اے صبا روضہ اطہر سے گزر ہو جو کبھی
پیش کرنا مری جانب سے سلاموں کے گلاب
عرض کرنا بصد آداب یہ اک دل کی کہی
جب سرکنے لگے نظروں سے تکلف کا حجاب
لے کے جانا ہی پڑے گا تجھے یہ دل کا کنول
جس کے ہر برگ میں غزہ کی ہے بھینی خوشبو
جس کی ہر پتّی میں اقصیٰ کی بسی ہے فریاد
جس کے ہر چاک میں ہے قدس کی عظمت کا رفو
بات یہ ہے کہ نہیں بات بنائے بنتی
لفظ ہونٹوں کی کشاکش میں پھٹے جاتے ہیں
خیر کہنا کہ:حضور ! اصل میں قصّہ یہ ہے
سرفروش آپ کی امت کے کٹے جاتے ہیں
ضبط ممکن نہیں، لیکن ہیں لبوں پر پہرے
پابہ زنجیر ہے ہر دھڑکنِ بےتاب حضور
پھر سیہ پوش فلک، نوحہ کناں ہے آقا
سنگریزوں میں پڑے دیکھ کے مہتاب حضور
موت رقصاں ہے ہر اک تارِ نفَس پر پیہم
محبسِ زیست ہے پھر طنطنہِ شہرِ جنوں
چیتھڑے بکھرے ہیں پھر اطلسی پوشاکوں کے
پھر تہِ خاک ہے تاراج دیارِ گردوں
ہر تنِ سرو ہے فاقوں سے خمیدہ قامت
کوئی پتّا نہیں باقی جو چبایا جائے
سرورا پیاس کا سورج ہے سوا نیزے پر
اب ذرا کوثرِ الطاف پلایا جائے
زہر لگتا ہے ہر اک لقمہ تر ہاتھوں میں
ریت کھاتا ہوا بچہ جو نظر آتا ہے
شبہ ہوتا ہے خود اپنی ہی مسلمانی پر
ایک قطرہ بھی حلق سے جو اتر جاتا ہے
شمر کے زیر تسلط ہے ہر اک بوند حضور
پیاس شبیر کے متوالوں کو تڑپاتی ہے
بھوک افلاس تڑپ کرب تحیر نوحے
موت ہر لحظہ نئے روپ میں آجاتی ہے
کفش برداریِ رہزن پہ ہیں رہبر نازاں
بھیڑیا امن کی اسناد لیے گھومتا ہے
آر سرحد کے رواں دجلہ خونناب ہے اور
پار شہنائیوں سے شہرِ طرب جھومتا ہے
زخم خوردہ ہے سحر ، شام رہینِ مقتل
قاصدِ موت ہے ہر صبح ابھرتا خورشید
پھر ہے سنسان محلّوں میں ہیولوں کا ہراس
پھر تہِ سنگِ قضا دفن ہے گفتار و شنید
بیٹیاں اہل حرم لا کے سرِ راہ حضور
ایک سفّاک سے منسوب کیے جاتے ہیں
چاٹتے پھرتے ہیں منصِف کفِ پائے قاتل
آہ نکلے تو یہاں ہونٹ سِیے جاتے ہیں
اک مہیب ابر لہو بن کے برستا ہے مدام
گولہ باری ہے لہکتے ہوئے باغیچوں پر
ماہ پارے ہیں پگھلتے ہوئے مقتل مقتل
پپڑیاں خون کی ہیں ریختہ بازیچوں پر
مرثیہ خواں ہیں کسی گورِ حمیّت پہ حضور
بے ردا ، خاک بہ سر ، آگ میں جُھلسے ہوئے تن
لخت در لخت نوا ہے سرِ ریگِ صحرا
حبسِ تعزیر میں جل بجھ گیا انگارِ سخن
خون اور گوشت سڑکتی ہے مسلسل دھرتی
جام ارمانوں کے ہرگام تڑختے ہیں حضور
کتنے غنچے ہیں تہِ دستِ بلائے آتش
کتنے گل پنجہِ صرصر میں پھڑکتے ہیں حضور
ہیں تماشائی خدایانِ کلاہ و دستار
صوفیا مستیِ احوال میں رہتے ہیں مگن
مصلحت کیش ہیں سب اہل سیاست آقا
مفت بر پارسا ، چلتے ہیں بچا کر دامن
الغرض خوف کے منڈلاتے ہیں آسیب حضور
ہر رگِ سنگ سے رستا ہے پر اسرار لہو
ریزہ ریزہ ہیں سرِ دشت ستارے آقا
دیکھیے آتشِ وحشت میں سلگتے گیسو
آشیاں پر ہے بگولوں کی اجارہ داری
راکھ ہیں قلب و جگر سینہ و دامان حضور
تلملاتے ہیں حضور آپ کے فرزند یہاں
اہل توحید بنے بیٹھے ہیں انجان حضور
بیچ گردابِ تحیر کے ہے دل کی ناؤ
ڈوبتا زیست کا سامان نظر آتا ہے
دیکھ کر ظلمتِ شب میں یہ سسکتی کرنیں
کوئی سورج میری آنکھوں میں اتر آتا ہے
لیکن اس قحط زدہ دہر کے کچھ گوشوں سے
چند دیوانے لیے ہاتھ میں سر آئےہیں
آپ کے دین کی حرمت کو بچانے آقا
لے کے مقتل میں پہاڑوں سا جگر آئے ہیں
یہ ہیں وہ انجمِ افلاکِ عزیمت جن کی
گرد پا میں ہے کئی کاہکشاؤں کا سراغ
یہ ہیں وہ جن کا لہو ہدر نہیں جاتا ہے
"لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ"
مفلس و بے زر و بے مایہ یہ جانباز حضور
بالا دست اب بھی ہیں اس عالمِ تنگدستی میں
رکھ رہے ہیں بھرم اسلام کا سینہ تانے
بھوک میں پیاس میں زخموں میں غمِ ہستی میں
نوکِ پاپوش پہ رکھتے ہیں ہر آئین فرنگ
"ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ کافی ہے کتاب"
ڈالیے ایک نظر روزنِ بطحا سے حضور
آتشیں نالوں سے شبرنگ ہیں ہونٹوں کے سراب
دشمنِ ملت و دیں قدس تک آپہنچا ہے
اب خدا جانے کہاں تک یہ چلا جائے گا
سر نہ کچلا گیا اس ناگ کا بروقت اگر
ایک دن طیبہ کی گلیوں میں یہ گھس آئے گا
عبید الرحمان ہاشمی