جس طرح انیس سو تین کے بعد کیپٹن الفرڈ ڈریفس کیس کو فرانس میں اور انیس سو اناسی کے بعد بھٹو کیس کے فیصلے کو پاکستان میں کسی مقدمے میں کوئی بھی وکیل بطور نظیر یا حوالہ پیش کرنا پسند نہیں کرتا، کیا افضل گرو کے فیصلے کو کوئی بھی چوٹی کا بھارتی وکیل آئندہ کسی بھی عدالت کے روبرو بطور ایک روشن قانونی حوالے کے پیش کرکے کسی بھی ملزم کے لیے سزائے موت کا مطالبہ پسند کرے گا ؟
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں کیپٹن ڈریفس پر یہ الزام تھا کہ اس نے قومی راز جرمنوں کے حوالے کیے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کام دراصل ایک اور افسر نے کیا تھا جسے بچانے کے لیے فوجی عدالت نے ڈریفس کو عمر قید سنا دی اور جب پانچ برس بعد اصل کہانی سامنے آئی تو ڈریفس کو فوج میں عہدے سمیت بحال کردیا گیا۔یوں فرانسیسی فوج کے ایک دھڑے کی یہود مخالف ضمیر مطمئن کرنے کی کوشش کو روشن خیال فرانسیسی سماج نے کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس حقیقت کے باوجود سزائے موت سنائی گئی کہ بھٹو براہِ راست نہیں بلکہ بلاواسطہ شریکِ جرم گردانا گیا تھا اور کورٹ کا فیصلہ متفقہ کے بجائے منقسم تھا۔ پھر بھی اس وقت کی جمہوریت مخالف فوجی جنتا کا ضمیر مطمئن کرنے کے لیے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ مگر آج تک اس فیصلے کی پھولی لاش پاکستان کے قومی ضمیر پر بوجھ بنی تیر رہی ہے۔
محمد افضل گرو کو تیرہ دسمبر دو ہزار ایک کے بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے صرف دو دن بعد بلاواسطہ شریکِ جرم، دو دیگر ماسٹر مائنڈز ایس اے آر گیلانی اور شوکت گرو اور اس کی بیوی افشاں کے ہمراہ حراست میں لے لیا گیا۔پولیس نے افضل کے قبضے سے پیسے، ایک لیپ ٹاپ اور موبائیل فون بھی دریافت کرلیا مگر انہیں بطور ثبوت سربمہر کرنا بھول گئی۔لیپ ٹاپ میں سوائے وزارتِ داخلہ کے جعلی اجازت ناموں اور پارلیمنٹ میں داخلے کے جعلی پاسز کے عکس کے سوا کچھ نہ نکلا۔ غالباً ملزم نے سب کچھ ڈیلیٹ کردیا تھا سوائے سب سے اہم ثبوت کے۔۔۔
جانے کیوں افضل کو پورے ہندوستان سے اس کی پسند کا وکیل بھی نہ مل سکا۔ سرکار کی طرف سے جو ایک جونئیر وکیل فراہم کیا گیا اس نے بھی اپنے موکل کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ افضل کے شدت پسندی کی جانب مائل ہونے اور پھر شدت پسندی سے تائب ہونے اور تائب ہونے کے باوجود سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں بار بار بہیمانہ سلوک کا نشانہ بننے اور اس سلوک کے باوجود ایک پڑھے لکھے شہری کی طرح زندگی گذارنے کی سنجیدہ کوشش کی داستان پر اوپر سے نیچے تک کسی بھی عدالت نے کان دھرنے کی کوشش نہیں کی۔
جس مقدمے میں انصاف کے تمام تقاضوں کے پورا ہونے پر شک نے دو بھارتی صدور کو افضل گرو کی پھانسی کی توثیق سے باز رکھا۔وہ توثیق بالاخر تیسرے صدر نے کردی اور یوں سپریم کورٹ کے فیصلے کی یہ سطریں جیت گئیں کہ ‘اگرچہ ملزم کے خلاف کوئی براہِ راست ثبوت نہیں۔اس کے باوجود سماج کا اجتماعی ضمیر تب ہی مطمئن ہوگا جب مجرم کو سزائے موت دی جائے۔’
اب اگر اکیسویں صدی کی عدالتیں بھی انصاف کے تقاضوں سے زیادہ سماج کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں تو پھر قرونِ وسطی کی پاپائی مذہبی عدالتوں نے یورپ میں لاکھوں عورتوں کو چڑیل اور لاکھوں مردوں کو مرتد بنا کر زندہ جلا کے کیا گناہ کیا۔ وہ عدالتیں بھی تو سماج کا اجتماعی ضمیر ہی مطمئن کر رہی تھیں۔روس اور مشرقی یورپ میں گذشتہ بارہ سو سال میں ہر سو ڈیڑھ سو برس بعد یہودی اقلیتوں کی نسلی صفائی کی کیوں مذمت کی جائے۔ یہ نیک کام بھی تو سماجی اکثریت کا ضمیر مطمئن کرنے کے لئے ہی ہو رہا تھا۔ ریاست گجرات میں جو کچھ ہوا اس سے بھی تو ریاست کی سماجی اکثریت کا دل ٹھنڈا ہوا ہوگا۔تو پھر قانون کی کتابیں بھی الگ رکھ دیجئے اور ہر مقدمے پر عوامی ریفرینڈم کروایئے۔اکثریت اگر کہہ دے کہ پھانسی دو تو پھانسی دے دو۔صرف اتنے سے کام کے لیے گاؤن پہننے، بھیڑ کے بالوں کی سفید ٹوپی سلوانے ، کٹہرا بنوانے اور قانونی نظائر کی لائبریریاں جمع کرکے سماعت در سماعت کا تکلف کیوں ؟
(بی بی سی دس فروری ۲۰۱۳)