منتخب كالم
تحریک انصاف کا مستقبل؟
آصف محمود
تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے ۔ اس پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا ہے تو ایسے برسا ہے جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں ۔تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بن سکتی تھی مگر افسوس اسے درویش کا تصرف بنا دیا گیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مقبول قومی سیاسی جماعت جس کے ساتھ بہت سارے نوجوانوں کا رومان لپٹا ہے ، غیر ضروری مہم جوئی کی وجہ سے برف کی صورت دھوپ میں رکھی ہے۔
سمجھ نہیں آ رہی یہ کشتہِ مرجان اپنی ترکیب میں ہے کیا چیز؟ یہ ایک سیاسی جماعت ہے، کوئی قافلہ انقلاب ہے ، عشاق کا ’لوّرز کلب‘ ہے ، کوئی شعوری تحریک ہے ، ایک سماجی کلٹ ہے، سیاسی فرقہ ہے، کوئی نادیدہ اور پراسرار سی قوت ہے، کسی کی پراکسی ہے ، صرف اقوال زریں کا ایک مجموعہ ہے یا محض ایک جنون ہے جو گاہے فاشزم کی دہلیز پر دستک دے آتا ہے؟ میر نے کہا تھا:
زمین و آسماں زیر و زبر ہے--نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کہاں وہ وقت کہ دوست ایک نازو ادا سے کہتے تھے آنے والا دس سال کے لیے آیا ہے، زاد راہ اس کے ساتھ ہے اور کہاں یہ وقت کہ چار سالوں میں ہی وقت قیامت کی چال چل گیا اور عشاق بیٹھے سوچ رہے ہیں، یہ رخِ یار سچ میں لعلِ احمر تھا یا پانیوں پر کشیدہ کاری کی گئی تھی ۔ کیا سے کیا ہو گیا دیکھتے دیکھتے۔
اندوہ عشق میں تحریک انصاف نے جتنے غمزے عشوے دکھائے تھے، 9 مئی کی وحشتوں میں جل کر راکھ ہوگئے ۔ یہ سیاست نہ تھی یہ وحشت تھی ۔ یہ احتجاج نہ تھا یہ جنون کی آتش تھی ۔ اس کی چنگاریوں سے اب اس کا اپنا دامن سلگ رہا ہے۔ہر وہ فرد جرم جو اس نے دوسروں پر عائد کی تھی، آج اس کے اپنے دامنِ سیماب سے لپٹی پڑی ہے ۔ باز گشت کی طرح ایک ایک الزام پلٹ کر آرہا ہے ۔ ہر دعویٰ خزاں کے پتے کی طرح پامال ہوا۔ تبدیلی کیا کھلی، امید کے سارے پیرہن ہی چاک ہو گئے۔کہاں وہ دن کہ تبدیلی صبح روشن کی طرح دہکتی تھی، کہاں یہ شام کہ اب وہ اجڑے خیموں کی راکھ ہوئی پڑی ہے۔
کہاں وہ التفاتِ ناز کہ روز کوئی وکٹ گرا کرتی تھی اور تحریک انصاف کے پرچم کی خلعت فاخرہ نئے مہمانوں کے گلے میں ڈالی جاتی اور کہاں یہ آشوبِ غم کہ ساتھی ایک ایک کر کے خیمہ گاہ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ سوچتا ہوں، کیا یہی وہ دن ہیں جو اللہ اپنے بندوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے؟
یہ تبدیلی تھی یا دائروں کا سفر۔ اس کے آخر پر کوئی منزل نہیں۔ ان مسافتوں کا حاصل صرف دھول ہے۔ دھواں ہے۔ رائیگانی ہے۔ عمر ان جہاں سے چلے تھے وہیں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی چار قدم پیچھے، کھائی کے کنارے۔
عمران کی سیاست کا پہلا دور حسرتوں کا دیوان تھا۔ سرگودھا میں، میری فیملی نے کالج بنایا تو افتتاح کے لیے ہم نے عمران خان کو بلایا۔ ہم اسلام آباد سے سر گودھا کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک کے کنارے پورے چارلوگوں نے گاڑی روکی اورعمران کوپھولوں کا ہار پہنایا۔ میں نے پوچھا یہ کون تھے۔ جواب ملا یہ سرگودھا پی ٹی آئی کے صدر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عمران غزل سنا کر بھی اکیلے ہی کھڑے ہوتے تھے خود ہی مکرر مکرر کا مطالبہ کرتے اور اپنے مطلع اور مقطع پر خود ہی واہ واہ کرتے رہتے ۔ قریب تھا کہ کسی ادھورے شعر کی طرح ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا لیکن پھر وقت کا موسم بدلا اور جاڑے گلزار ہو گئے
دروغ بر گردنِ راوی، روایت یہ ہے کہ سال کے ’بارہ موسموں‘ نے ان کا ہاتھ تھام لیا ۔ دسمبر گرم ہو گیا، جون میں برفیں پڑنے لگیں۔ ایک پیج پر ایسی قوس قزح اتری، مدعی، آرزو اور مدعا، سب عشق ہوگئے۔
سونامی جیسی تندی سے عمران سیاست کے دوسرے دور میں داخل ہوئے، یہ دوراسی نسبت عشقی کا دیوان تھا۔ وہ ایسے آئے جیسے ’چڑھی تیوری، چمن میں میر آیا۔‘ بے خودی، بے ادائی، بے نیازی، سارے نوشتے اس دیوان کا حصہ تھے۔ تحریک انصاف جھوم کے اٹھی اور ایک سونامی بن گئی۔
ڈی چوک سے لے کر کوچہِ اقتدار تک ایک بزمِ اطفال سی سج گئی۔ نہ کوئی غم نہ پریشانی، نہ ذمہ داری کا کوئی بوجھ نہ درد مندی اور معاملہ فہمی۔ انتہائی اہم قانون سازی کے مراحل بھی درپیش ہوئے تو کسی نے حزب اختلاف سے بات کرنا گوارا نہ کیا۔ لیکن پھر بھی جنگل کے بھید کی طرح ’قانون سازیاں‘ ہوتی رہیں اور حزب اختلاف تعاون فرماتی رہی۔ گالیاں کھا کر بھی بد مزہ نہ ہوئی۔پوسٹ ٹروتھ کا ایک تاج محل تعمیر کیا گیا اور اس پر ’نیا پاکستان‘ لکھ دیا گیا۔ سارے نقوش کہن مٹا ہی دیے۔اس عشق کی وارفتگی حیرت کدہ سے کم نہ تھی ۔ آثار جلالی و جمالی یوں باہم ہوئے، آنکھیں خیرہ ہونے لگیں ۔’یا قربان‘ کا یہ سونامی تھما تو معلوم ہوا شہر مہرباں کی فصیل ساتھ بہا لے گیا۔
عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے الگ کر دیے جانے کے بعد عمران کی سیاست کا تیسرا دور شروع ہوا۔ عمران یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اقتدار سے الگ ہونے سے کسی کی سیاست ختم نہیں ہو جاتی اگر اس میں سیاسی بصیرت موجود ہو۔ بصیرت کے باب میں مگر تحریک انصاف کا ہاتھ تنگ تھا۔ یکے بعد دیگرے بحران اس کے دامن سے لپٹتے چلے گئے۔آج عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔
عجیب سا ایک طنطنہ تھا۔ خمار تھا۔ جذب و مستی کا عالم تھا۔ دس دس سال حکومتی بندوبست کے رجز پڑھے جاتے تھے۔ اور آج سب بدل چکا۔ جہاں چراغاں تھا وہاں دھول ہے۔ غرور عشق اب نڈھال پڑا ہے۔ نشاط کی جگہ حزن نے لے لی ہے۔طنطنے کی جگہ اب شکوہ ہے۔ منڈیریں خالی ہیں پرندے اڑ رہے ہیں۔
بے بصیرتی کی وحشت سے پھوٹتی حسرتیں ہجوم کرتی ہیں اور دائروں کے سفر سے دل بوجھل ہوتا ہے تو افغان شاعر امیر جان صبوری یاد آتے ہیں:
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی--جام خالی، سفرہ خالی، ساغرو پیمانہ خالی
کوچ کردہ،دستہ دستہ، آشنایاں،عندلیباں --باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
تحریک انصاف کا باغ بھی سونا ہو رہا ہے، رستے کوچے سب خالی ہو رہے ہیں ۔باغچہ خالی ہوتا جا رہا ہے ۔ ساتھی کوچ کرتے جا رہے ہیں ۔ بلبلیں اڑتی جا رہی ہیں۔دوست دوستوں کو چھوڑ رہے ہیں ۔ موسیقاروں نے ساز رکھ دیے ہیں ۔ طبیب بیمار کو دیکھنے سے ڈرتا ہے ، مسافر رستوں سے خوف زدہ ہیں ۔ سر بکھیرنے والے تار بکھر گئے ۔ آشنا نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں ۔ ویرانے کے پتھروں کی ریت سر میں آ رکی ہے۔دریا سست چشمے خشک اور سونامی نڈھال ہو چکا ۔ عشق کی آگ نے اپنے ہی وجود جلا ڈالے ۔
مہر جاناں کے استقبال میں اب کون پھول برسائے گا؟