صرف اللہ سے ڈرنے والے

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : شخصیات

شمارہ : دسمبر 2014

Click here to read in English

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جمعہ اسی طرح ادا کیا جاتا تھا جس طرح ادا کرنے کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا تھا۔۔۔ یعنی حاکم ہی جمعہ پڑھاتے تھے۔ خاندان بنو عباس کے مشہور حکمران ہارون الرشید خلیفہ تھے۔ جمعہ کا خطبہ وہی دے رہے تھے۔ لوگ سن رہے تھے کہ اچانک ایک شخص کھڑا ہو کر چلاتا ہے:‘‘اللہ کی قسم ! تم نے نہ تو مال برابر تقسیم کیا، نہ عدل و انصاف سے کام لیا، تمھارا دامن برائیوں سے داغ داغ ہے۔’’ہارون غصے سے آگ بگولا ہوجاتا ہے۔حکم دیتا ہے اس گستاخ کو گرفتار کر لیا جائے۔ حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔نماز کے بعد مجرم خلیفہ کے سامنے پیش ہوتا ہے۔

‘‘امام صاحب کو بلا لاؤ۔’’ ہارون ایک چوب دار سے کہتا ہے۔تھوڑی دیر کے بعد سلطنت عباسیہ کے چیف جسٹس امام ابو یوسف (پیدایش 113 ھ وفات 182 ھ) تشریف لے آتے ہیں۔ وہ ایک نظر پورے منظر پر ڈالتے ہیں۔ مجرم کے پیچھے دو جلاد کوڑے لیے حکم کے منتظر ہیں۔ ان کی شعلہ بار نگاہیں پورے دربار پر ہیبت طاری کیے دیتی ہیں۔‘‘اس شخص نے میر ے ساتھ ایسی گستاخی سے باتیں کی ہیں کہ پہلے کسی کو جرأت نہ ہوئی تھی۔ اس گستاخ کی کیا سزا ہو سکتی ہے؟’’امام سارا قصہ سنتے ہیں اور پھر بڑی دھیمی آواز میں کہتے ہیں:

‘‘امیر المومنین ! ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک بدو اٹھا، کہنے لگا: ‘‘آپ ﷺنے عدل سے کام نہیں لیا۔’’ امیر المومنین، یہ بڑی ہی سخت بات تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہنے والے کو معاف کر دیا۔ بس اتنا فرمایا:اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔امیر المومنین! ایک مرتبہ حضرت زبیر اور ایک انصاری نے حضورﷺ کے سامنے کوئی معاملہ پیش کیا۔ حضورﷺ نے حضرت زبیرؓ کے حق میں فیصلہ دیا۔انصاری نے غصے میں کہا کہ اپنے پھوپھی زاد بھائی کے حق میں فیصلہ کر دیا ہے، لیکن حضور نے اس کی گستاخی سے درگزر فرمایا اور کوئی باز پرس نہ کی۔’’

امام ابو یوسف اسوہ نبی کا ذکر کرتے رہے اور ہارون کا رنگ بدلتا گیا۔ رفتہ رفتہ اس کا غصہ سرد ہو گیا اور اس نے اس شخص کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس امام ابو یوسف کی جرات نے ایک بے گناہ کی جان بچا لی۔

ایک دفعہ ان کی عدالت میں ہارون کا ایک مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ ہارون کا چہیتا وزیر فضل بن ربیع گواہ کی حیثیت سے پیش ہوا۔ امام ابو یوسف نے اس کی گواہی لینے سے انکار کر دیا۔ فضل کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا عدالت سے نکل کر سیدھا ہارون کے پاس پہنچا اور امام صاحب کی شکایت کی۔ ہارون، فضل کی باتوں سے بھڑک اٹھا اور امام ابو یوسف کو طلب کر لیا۔ امام عدالت کا کام نپٹا کر حاضر ہوئے۔ ہارون نے غصے میں پوچھا: ‘‘آپ نے فضل کی شہادت کیوں مسترد کر دی؟’’

امام ابو یوسف کہنے لگے: ‘‘امیر المومنین! ایک بار میں نے سنا، وہ آپ سے کہہ رہا تھا میں آپ کا غلام ہوں۔ اگر اس کی بات سچی تھی تو قانون کے مطابق آقا کے حق میں غلام کی گواہی نہیں مانی جاتی اور اگر جھوٹا تھا تب بھی اس کی شہادت قبول نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ جو شخص آپ کی مجلس میں بے باکی سے جھوٹ بولتا ہے وہ میری مجلس میں کیسے باز رہ سکتا ہے۔’’

امام کے لہجے میں سچائی کی جرأت بھی ہے اورتبلیغ کی نصیحت بھی۔ ہارون الرشید کا غصہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ امام کو حاضری کی تکلیف دینے پر معذرت کرتا ہے۔

یہ تو وزیر کی شہادت کا معاملہ ہے، امام کی حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ خلیفہ تک کو انصاف کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ حق دار کو اس کا حق دلانے کے لیے انتہائی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خلیفہ مہدی کے زمانے سے جج کے منصب پر فائزتھے۔ ایک بار خلیفہ ہادی کا جھگڑا ایک عام شہری سے ہوگیا۔ وجہ ایک باغ تھا۔ ہادی اسے اپنی ملکیت قرار دیتا اور وہ عام شہری اپنی۔ آخر خلیفہ اس مقدمے کو عدالت میں لے گیا۔ امام ابو یوسف نے دونوں کے بیانات اور شہادتیں لیں۔ شہادتیں ظاہر کرتی تھیں کہ باغ ہادی کا ہے۔ لیکن امام شہادتوں پر مطمئن نہ ہوئے بلکہ خفیہ تحقیقات کرتے ہیں۔ پتا چلتا ہے باغ خلیفہ کا نہیں ہے اور گواہ خلیفہ کے خلاف سچی گواہی دینے کی ہمت نہیں رکھتا۔ امام صاحب مقدمے کی سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔اگلے روز وہ ہادی سے ملے تو اس نے پوچھا:‘‘مقدمے کا کیا فیصلہ کیا؟’’‘‘شہادتیں تو آپ کے حق میں ہیں، مگر مدعا علیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ آپ یعنی مدعی (خلیفہ) سے حلف بھی لیا جائے۔’’ اما م ابو یوسف نے فرما یا۔‘‘تو پھر آپ کی کیا رائے ہے، کیا آپ مدعی کاحلف اٹھانا صحیح سمجھتے ہیں؟’’ہادی نے پوچھا۔ اس کے لہجے میں حیرت بھرا تجسس کروٹیں لے رہا تھا۔ دراصل ان کے استاد امام ابو حنیفہ کے مطابق حلف یعنی قسم مدعی کے ذمے نہیں مدعا علیہ کے ذمے ہے۔ استاد کے مسلک کی پیروی کرتے ہیں، تو ایک حق دار کا حق مارا جاتا ہے اور حق دار کو حق دلانا ایک مسلمان جج کا وہ فرض ہے جس میں ذرا سی کوتاہی پر بھی خدا کے ہاں شدید باز پرس ہو گی۔‘‘قاضی ابن ابی لیلیٰ کی تو یہی رائے ہے۔’’ انھوں نے سوچ کر ایک ایسے عالم دین کی رائے پیش کی جنھیں خلیفہ ہادی بھی پسند کرتا تھا۔ ہادی سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا: ‘‘اچھا، تو باغ مدعا علیہ کے حوالے کردیجیے۔’’

یہ ہیں امام ابو یوسف دور عباسیہ کے عظیم عالم اور عظیم ترین جج۔ دیکھنے میں معمولی سے آدمی نظر آتے۔ نہایت دبلے پتلے، چھوٹا سا قد، لیکن اس پتلے سے جسم میں ایک عظیم انسان اور علم و فضل کا پہاڑ پوشیدہ تھا۔ علم کی مسند ہو یا عدالت کی کرسی ، یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے گرد و پیش میں ڈوب کر رہ جائیں گے، مگر جب درس دیتے یا مقدمے کی سماعت کرتے اور فیصلہ سناتے تو ایک دنیا ان کے علم اور حکمت، بصیرت اور جرأت پر حیران رہ جاتی ہے۔ لوگ ان کا دبلا پتلا جسم دیکھ کر کہتے:‘‘اگر اللہ چاہے تو پرندے کے پیٹ میں بھی علم بھر دے۔’’ ان کی علمی شان کو ان کے بڑے بڑے ہم عصر علما اور امام خراج تحسین پیش کرتے۔

ایک مرتبہ بیمار ہو گئے۔ ان کے استاد امام ابو حنیفہ عیادت کے لیے آئے۔ وہ عیادت کرکے ان کے گھر سے باہر نکلے تو چہرے پر پریشانی تھی۔ ایک صاحب نے پوچھا : آپ پریشان ہیں؟ امام صاحب نے فرمایا : ‘‘یہ جوان مر گیا تو زمین کا سب سے بڑا عالم اٹھ جائے گا۔’’

یہ ایک شفیق استاد کی اپنے ہونہار اور عزیز ترین شاگرد کے بارے میں رائے تھی۔ امام مالک، سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام احمد بن حنبل، امام شافعی سمیت تمام امام اور علماء امام ابو یوسف کی علمی عظمتوں کے کھلے دل سے معترف ہیں اور انھیں اپنے سے کسی طرح کم نہیں سمجھتے۔

اپنی اس علمی شان کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ میری صرف وہ بات مانی جائے جو قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ جو دین کے مطابق نہیں اسے مجھے لوٹا دیا جائے کیونکہ آخر میں انسان ہوں اور انسان غلطی کر سکتا ہے۔’’

یہ ہے ہمارا تاب ناک ماضی جس سے روشنی حاصل کرنا کامیابی کے لیے ضروری ہے!

٭٭٭