انیس سو چونتیس میں نہ تو اس طرح سے پکی سڑکیں تھیں، نہ آرام دہ موبائل ٹرالرز، نہ بلٹ پروف جیکٹس، نہ موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹی وی چینلز یا پھر ریڈیو۔ پھر بھی ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ چیانگ کائی شیک کے سات لاکھ فوجیوں کے گھیرے میں چوہوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ چیھتڑوں میں لپٹی ریڈ آرمی اور کیمونسٹ سیاسی کارکنوں کے ہمراہ گھیرا توڑ کر باہر نکلا جائے۔گھیرا توڑنے میں ہی لگ بھگ چالیس ہزار کامریڈ مارے گئے۔ مگر ماؤ اور چواین لائی کی قیادت میں بچ جانے والے ستاسی ہزار عسکری و سیاسی کارکنوں نے جنگل کی راہ لی۔
جنوب سے شمال تک نو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پا پیادہ ایک سال تین دن میں طے کیا گیا۔ درمیان میں کئی مرحلے ایسے بھی آئے کہ دشمن سے بچنے کے لیے مسلسل چار دن اور چار راتوں تک سفر جاری رکھنا پڑا۔
عظیم یانگسی سمیت چوبیس دریا، اٹھارہ پہاڑی سلسلے اور گیارہ صوبے عبور کرکے جب یہ قافلہ شمالی صوبہ شانسی پہنچا تو صرف دس ہزار کامریڈ زندہ بچے۔ مرنے والوں میں ماؤزے تنگ کا چھوٹا بھائی ماؤ زی تان اور دو سوتیلے بیٹے بھی شامل تھے۔ ماؤ کی بیوی کو شدید زخمی حالت میں ماسکو کے ایک ہسپتال روانہ کیا گیا۔
دل بہت بڑا تھا ماؤ کا۔ لانگ مارچ کے بعد جب شمالی علاقے مانچوریا پر قابض جاپانیوں کے خلاف جنگ کا مرحلہ آیا تو ماؤ نے صرف ایک چینی بن کے سوچا اور چیانگ کائی شیک سے جاپانیوں کے خلاف فوجی اتحاد کرلیا۔ چار برس جاپانیوں سے لڑنے اور انہیں پیچھے دھکیلنے کے بعد ماؤ نے پھر اپنے راستے جدا کر لیے اور اگلے چھ برس چیانگ کائی شیک سے نبرد آزما رہا۔ حتیٰ کہ چیانگ کو چین سے بھاگ کر تائیوان کے جزیرے میں پناہ لینی پڑی اور یکم اکتوبر انیس سو انچاس کو ماؤ نے بیجنگ میں سرخ انقلابی پرچم لہرا دیا۔
اس سفر کے دوران ماؤ نے جنگی حکمتِ عملی پر لکھنا بند نہیں کیا۔ شعر کہنے کی عادت نہیں چھوڑی۔ بیماری کے باوجود کہیں پیچھے نہیں رہا۔دریا کسی کی پیٹھ پر چڑھ کے عبور نہیں کیے۔ پہاڑوں پر چڑھنے میں صرف ایک چھڑی کی مدد لی۔ اپنی باری پر کھانا بھی پکایا اور کامریڈوں کے کپڑے بھی دھوئے اور خود کو اور ساتھیوں کو مسلسل زندہ رکھنے والی خطابت بھی جاری رہی اور گیت بھی گائے۔
ماؤزے تنگ میں اگر جناتی صبر، دیوارِ چین سی ثابت قدمی، حالات کی نزاکت کے تحت ذاتی انا اور ضد کو پسِ پشت ڈال کر فیصلے کرنے کی عظیم صلاحیت نہ ہوتی تو ماؤ بھی اپنا انقلاب دل میں لیے کہیں پہاڑوں میں ہی مرکھپ چکا ہوتا۔
بقول ماؤ ‘انقلاب کسی ضیافت، مضمون نگاری، فنِ مصوری یا کشیدہ کاری کا نام نہیں۔ اگر تم جاننا چاہو کہ انقلابی نظریہ اور انقلابی طریقہ کیا ہوتا ہے تو پھر خود سیکھو۔ اصلی علم براہِ راست تجربے کے بغیر ممکن نہیں۔’
"صد شکر کہ ماؤزے تنگ کوئی بے صبرا فاسٹ بولر نہیں بلکہ غیر معمولی گگلی سپنر تھا۔ ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ ماؤ کو اپنی نیند پر مکمل قابو تھا۔ وہ تین دن بھی جاگ لیتا تھا اور توپوں کی گھن گرج میں بھی سو سکتا تھا۔ ماؤ سے پہلے یہ وصف صرف نپولین میں دیکھا گیا۔
ایک درمیانے سے سخت گیر کسان کے بیٹے ماؤ نے نہ تو کسی اعلیٰ درس گاہ کا منہ دیکھا نہ ہی کسی گوتم بدھ، کنفوشیئس یا مارکس سے عالمِ رویا میں اسباق لیے۔ اسے تو خود کو کسی قابل بنانے کے لیے لائبریری اسسٹنٹ، پرائمری سکول کا استاد، دھوبی، ٹریڈ یونینسٹ، ادیب، سپاہی اور شاعر کی زندگی بسر کرنا پڑی اور پھر زندگی کی یونیورسٹی سے جو سرمایہ کمایا، انقلاب پر لگا دیا۔
آج ماؤزے تنگ کی روح اگر آب پارہ پر گزری ہوگی تو سوائے اس کے اور کیا گنگنایا ہوگا۔
آپ ایک اور نیند لے لیجیے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا
(جون ایلیا)