تاريخ
زاويہ نظر كا فرق
خالد بن وليد ، عمر بن خطاب اور ابو عبيدہ كی زندگی سے
سليم زمان خان
خالد بن ولیدؓ کی صلاحیتوں،جانبازی ،دلیری ، خود اعتمادی اور آزاد طبیعت کو حضورﷺبہت پسند فرماتے تھے۔ ان غلطیوں پر کہ جن پر کسی اور صحابی کی سخت سرزنش کی جاتی ، سیدنا خالدؓ سے درگزر کرلیا جاتا تھا ۔حضرت خالد بن ولیدؓکیساتھ معاملات کرتے وقت بہت احتیاط سے برتاﺅ کرنا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اتناآزاد ، دلیر، شجاع ہو اور اپنی ایک منفردرائے رکھتا ہو، پھر اسکو یہ اعتماد بھی ہو کہ اللہ اور اسکے رسولﷺ اس سے محبت کرتے ہیں ، تو پھروہ کسی اور کے قابو میں آنے والا نہیں ہوتا۔ حضورﷺ کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ بھی ان سے بہت احتیاط سے برتاﺅ کرتے تھے ،اور اس دور میں بھی حضرت خالدؓ اپنی جنگی کارروائیوں میں بہت حد تک خود مختارتھے۔لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور مسلمان دمشق میں حالت جنگ میں تھے کمان حضرت خالد بن ولید فرما رہے تھے کہ دمشق کی جنگ کے دوران ہی حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مکتوب حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے معزولی کے احکامات تھے اور یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ مسلمانوں کے نئے سپہ سالار اعلیٰ ہونگے۔ ابو عبیدہؓ اس خط سے بہت دکھی ہوئے، لیکن امیر المومنین کا حکم تھا کہ جس کی تعمیل لازم تھی۔ یہاں پر سیف اللہؓ کا کردار دیکھیے۔ جب ان کو یہ کہا گیا کہ آپؓ کو معزول کرکے ایک عام سپاہی بنایا جارہا ہے، تو کیا آپؓ اس حکم کو سر آنکھوں پر تسلیم کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت خالدؓ اطمینان سے کہتے ہیں کہ اگر میں عمرؓ کے لیے لڑتا تھا تو اب نہیں لڑوں گا ،لیکن اگر میں اللہ رب العزت کے لیے لڑتا تھا، تو اسی طرح ایک سپاہی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتا رہونگا!
حضرت ابو عبیدہ ابن جراح عشرہ و مبشرہ صحابہ کرام میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔۔ جو اولین صحابہ کرام میں سے ہیں۔۔ اور مکی دور کے صبر کی بھٹی اور مدنی دور کے جذبہ ایثار میں پک کر نبی کریمﷺکی جانب سے "امین امت" کے لقب سے فیض یاب ہوئے ہیں۔۔ خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے مابین گہری محبت تھی اور جب خالدؓ نے ان سے یہ پوچھا کہ اب میرے لیے اگلا حکم کیا ہے، تو ابو عبیدہؓ نے اگلا حکم یہ دیا کہ آپؓ میرے نائب ہیں اور نائب کی حیثیت سے جنگ کی کمان آپؓ سنبھالیں گے۔ یعنی سیدنا عمر فاروقؓ کے حکم کی تعمیل بھی ہوگئی اور حضرت ابو عبیدہؓ نے جنگی حکمت عملی اور سپہ سالار کی حیثیت سے جو فیصلہ کیا،وہ میدان جنگ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے امت کے اعلیٰ ترین مفاد میں بھی تھا۔
اسلامی تاریخ نے اس معزولی اور حضرت ابو عبیدہ کے زیر نگرانی جنگ لڑنے پر بہت سی موشگافیوں سے کام لیا ہے۔ اور بہت سے الزامات حضرت خالد بن ولید پر لگائے ہین۔۔ جبکہ اگر آج کی دنیا میں آپ لیڈر شپ کی کتب کو پڑھیں تو آپ کو واضح طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کی وجہ سمجھ آئے گی۔۔ حضرت عمرؓ کے پیش نظر ایک حکمت تھی اور آپؓ نے بعد میں اس کی وضاحت بھی کہ لوگوں کو شاید یہ خیال ہونے لگا تھا کہ مسلمانوں کو فتح خالدؓ کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان کا اللہ پر توکل و یقین کمزور پڑ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ،ورنہ انکے دل میں ذاتی طور پر حضرت خالدؓ کے لیے کوئی برائی یا بدگمانی نہیں تھی۔۔ اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول ہیں ( اور میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ایسا ہے) تو پھر ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چاہئے کہ اس فیصلہ میں کہ حضرت خالد بن ولید کو حضرت ابو عبیدہ کے زیر نگرانی جنگ لڑنا چاہئے کوئی عظیم مصلحت پوشیدہ ہے۔۔
● حضرت خالد بن ولید ایک بہترین جرنیل تھے۔ اور میدان جنگ میں ان کی حکمت عملی کا کوئی مثال نہیں۔لیکن اب وقت تھا ایک مضبوط ایڈمنسٹریٹر کا جو جنگ اور فتح کے بعد علاقوں کا نظم و نسق اور انتظامات کو ایک جرنیل کی نظر سے نہیں بلکہ ایک سیاستدان، مبلغ اور عادل حکمران کی طرح چلا سکے جسے کے لئےجنگی حکمت عملی جس میں دشمن کا صفایا، اس کو تباہ کرنا یا اسے شکست دینے سے زیادہ صبر آزما مراحل سے گزرنا اور ایک طویل المدت حکمت عملی ترتیب دینا تھی اس کی مثال ایک واقعہ سے دوں گا-
"جب مسلمانوں نے دمشق پر حملہ کیا تو شہر کے ایک جانب سے حضرت خالدؓ اپنی فوجوں کو لیکر جنگ کرتے ہوئے داخل ہوگئے۔جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت خالدؓ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور شکست یقینی ہے، تو شہر کی قیادت اس دروازے کی طرف دوڑی کہ جہاں حضرت ابوعبیدہؓ کی فوجیں موجود تھیں اور دروازہ کھول کر حضرت ابوعبیدہؓ کو امن و عافیت کے ساتھ شہر میں داخل ہونے اور اپنے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرتے ہوئے صلح کی شرائط طے کرلیں۔حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کو امان دے دی۔ لیکن دوسری جانب حضرت خالدبن ولیدؓ کو اس امان نامے اور صلح کی اطلاع نہیں ہوئی تھی اور وہ ابھی تک لڑائی میں مصروف تھے۔ یہاں ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا کہ جب دونوں مسلمان فوجیں دمشق کے عین بیچ میں آپس میں ملتی ہیں، ایک امن سے داخل ہورہی ہے اور دوسری طرف خالدؓ کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہوتا ہے۔خالدؓ کا استدلال یہ تھا کہ میں نے شہر تلوار کے زور پر فتح کیا ہے، جبکہ حضرت ابو عبیدہؓ اس بات پر مصر تھے کہ یہ شہر ایک صلح کے نتیجے میں قبضے میں آیا ہے۔بالآخر حضرت خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کی دلیل کو تسلیم کرلیا اور تمام امن کی شرائط مان لی گئیں اور اس طرح مسلمانوں نے دمشق پر بھی قبضہ کرلیا۔۔ یعنی حضرت ابو عبیدہ کی حکمت عملی طویل المدتی تھی ۔۔جسے تسلیم کیا گیا۔۔ یہ سیاست ،صبر وتحمل اور مزاج میں ٹھہراؤ کی نشانی ہے۔ "
● حضرت خالد سیف اللہ ؓ دمشق کے امیر یاوالی مقرر ہوئے تھے،لیکن 17ھ میں حضرت عمرؓ نے ان کو معزول کر کے یہ عہدہ بھی حضرت ابوعبیدہ ؓ کو تفویض کیا، حضرت خالد ؓ دمشق سے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے لوگوں سے کہا، تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ امینِ امت تمہار والی ہے حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس کے جواب میں کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خالد ؓ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے،غرض اسی لطف ومحبت کے ساتھ امارت یا ولایت کا چارج لینے کے بعد ملکی انتظامات میں مصروف ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے انتظامی حیثیت سے ملک شام میں جو مختلف اصلاحیں جاری کیں،ان میں سے اکثر حضرت ابوعبیدہ ؓ کے ہاتھ سے عمل میں آئیں،18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو نہایت سرگرمی کے ساتھ شام سے چارہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے بھیجے- اشاعت اسلام کا بھی ان کو خاص خیال تھا،چنانچہ قبیلہ تنوخ،بنوسلیج اورعرب کے دوسرے بہت سے قبائل جو مدت سے شام میں آباد ہو گئے تھے اورعیسائی مذہب کے پیرو تھے،صرف ابوعبیدہ ؓ کی کوشش سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے،بعض شامی اوررومی عیسائی بھی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔ یہ کام بزور شمشیر ناممکن تھے۔۔ اور انہی کاموں کو اسلام میں تالیف قلب کہا جاتا ہے جو تلوار کی ضد ہے۔
● حضرت عمر کے زمانہ میں تمام ممالک مفتوحہ میں نہایت شدت کے ساتھ طاعون کی وبا پھیلی خصوصاً شام میں اس نے بہت نقصان پہنچایا، اور اسی جگہ میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے ان کے لئے صحت اور خوراک کے انتظامات کرتے ہوئے لوگوں کو وباء سے نکالتے ہوئے خود طاعون کا شکار ہوئے اور 58 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔ یہاں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم لدنی اور بحثیت خلیفہ رسول آپ کے وجدان کا ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا۔ جن میں دو باتیں نہائت قابل غور ہیں۔۔
1۔ حضرت خالد کو ایک ایسے شخص كے ليے عہدہ چھوڑنے كا حكم جس نے آگے چل کر نہائت صبر کی حکمت عملی سے وباء کے خلاف نبرد آزما ہونا تھا ۔
2۔ حضرت ابو عبیدہ کی شہادت اسی مرض سے ہونا تھی جبکہ ابھی خالد بن ولید نے مزید کارنامے انجام دینے تھے۔۔
●•● *حاصل بحث۔۔*
دنیا جدید کی لیڈر شپ کی کئی کتابیں ایسی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ہر کام ہر شخص نہیں کر سکتا ۔۔اس دنیا میں ہر شخص کسی امتیازی خصوصیت کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔۔ کوئی رحم دل ہے ،کوئی تاجر مزاج ہے،کوئی جنگجو اور تیز طبعیت ہے، کوئی معاملات کو سرد مہری سے طے کرتا ہے،کوئی صبر کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑتا۔۔
یہ علم آج کے دور میں
(The Right Man for the Right Job at the Right Time: The Executive's Guide to Tapping Top Talent
Book by Philip Martin)
یا بقول اسٹیفن کووی کہ " ہر انسان میں ایک لیڈر ہے۔۔ جسے ڈھونڈنا ضروری ہے" ضروری نہیں وہ لیڈر صرف آرمی کے اصولوں پر ہو ،وہ صبر کے اصولوں کا بھی علمبردار ہو سکتا ہے، وہ علم کا رہنما بھی ہو سکتا ہے۔ وہ عام آدمی کے مسائل پہنچانے والا ایک صحافی بھی ہو سکتا ہے۔
جب آپ کی تربیت فوجی کی جائے تو آپ مد مقابل کو "دشمن " سمجھتے ہیں جس کا سر بزور طاقت کچلنا ضروری ہے۔ تب آپ کے الفاظ میں بھی لفظ ،دشمن، جان سے مار دو، اس کو سبق سکھاؤ وغیرہ ہوتے ہیں۔ چند داشتاؤں ،چند ادیبوں ، ناچنے گانے والوں یا صحافیوں کےسر تن سے جدا کر کے خوف و ہراس سے آپ وقتی طور پر حکمرانی اور بہترین حکمرانی کر سکتے ہیں لیکن تالیف القلوب نہیں۔۔ چنگیز خان ایک بلا کا نام تھا لیکن اپنی اجارہ داری سو سال بھی برقرار نہ رکھ سکا ۔۔لیکن اگر آپ کی تربیت ایک سیاسی گھرانے میں ہوئی ہے تو آپ مدمقابل کو " اپوزیشن " سمجھتے ہیں۔ جس سے مذاکرات، بات چیت اور کچھ لو اور کچھ دو کے اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ تب آپ گفتگو ، سیاسی اختلاف اور نظریات کی قدر کرتے ہیں( مہذب قوموں کی بات ہے)
اسی طرح اگر آپ ادیب ہیں تو آپ کا مد مقابل نہ آپ کا دشمن ہے نہ ہی اپوزیشن ہے جس کا آپ کو مقابلہ کرنا ہے تب آپ کا مدمقابل آپ کا نقاد ہے۔ جس سے جنگ نہیں بحث ہو گی اور اس بحث سے علم کے مزید دروازے کھلیں گے۔۔
لیکن اگر آپ صنعتکار ہیں تو آپ کا مد مقابل competitors ہوں گے۔۔ جن سے نبٹنے کے لئے آپ ایسی حکمت عملی ترتیب دیں گے جس میں مد مقابل کو اپنی بہتر کوالٹی اور اچھی سروس سے شکست دی جا سکے۔۔
لہذا بحثیت پاکستانی شخصیت پرستی کی بجائے اپنے زاویہ نظر paradigm پر کام کریں ... کیونکہ اگر آپ کے ہاتھ میں بندوق ہو تو ہر مسلے کا حل گولی ہو گا، اگر آپ کے ہاتھ میں ہتھوڑی ہو گی تو ہر مسئلہ کیل محسوس ہو گا ، اور اگر آپ کے ہاتھ میں کتاب ہو گی تو ہر مسئلہ میز کے اطراف میں بیٹھ کر حل ہو گا۔۔
اسی لئے ڈاکٹر اسٹیفن کووی کہتا ہے کہ اگر آپ صدیوں پر محیط تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنے زاویہ نظر کو تبدیل کریں۔۔
If you want small changes, work on your behavior; if you want quantum-leap changes, work on your paradigms." - Stephen R. Coveyدراصل حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابو عبیدہ دو شخصیات دو مزاج ہیں۔۔ امور سلطنت صرف تلوار اور بندوق کی نوک سے نہیں چلتے اور نہ ہی ہر معاملے میں منافقت سے بھرپور افہام و تفہیم مسائل کا حل ہے۔۔ تحمل مزاج اور دور اندیش لیڈرز ،تکنیکی ماہرین اور بلاشبہ توانائی سے بھرپور فوج کسی بھی ملک کی ترقی اور سالمیت کی ضمانت ہے۔۔