"ہندستان كے "ٹھگ

مصنف : سید مہدی بخاری

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اكتوبر 2025

 تاريخ

ہندستان كے "ٹھگ"

مہدی بخاری

ایڈنبرا کوئنز میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں دنیا بھر سے جمع کی گئیں کچھ قدیم انسانوں کی کھوپڑیاں اور کچھ ڈھانچے رکھے ہیں۔وہیں سات کھوپڑیاں ایسی ہیں جن کی تفصیل میں لکھا ہوا ہے "ہندوستان کے ٹھگ"۔مزید تفصیل میں لکھا ہوا ہے " یہ پیشہ دنیا سے ختم ہو گیا۔"۔میں ان کھوپڑیوں کو دیکھ رہا تھا اور میرے ذہن کے پردے پر ٹھگوں کی پوری تاریخ فلم کی صورت چل رہی تھی۔ ٹھگ امیر علی،ٹھگ فرنگیا اور ٹھگ بہرام کی تصوراتی شکلیں اُبھرنے لگیں تھیں۔ وہیں انگریز افسر میجر جنرل ولیم ہنری سلیمین بھی سُرخ کوٹ میں سامنے آن کھڑا ہوا۔

چودہویں صدی سے انیسویں صدی تک کے پانچ سو سالوں میں ہندوستان میں پیشہ ور قاتلوں کے گروہ وجود رکھتے تھے جن کو ٹھگ کہا جاتا تھا۔انگریز سرکاری کاغذات کے مطابق ان پانچ سو سالوں میں ٹھگوں نے لگ بھگ بیس لاکھ لوگوں کا قتل کیا ہے۔ٹھگی ایک خاندانی پیشہ ہوا کرتا تھا۔ ٹھگ اپنی جیب میں پیلے رنگ کا رومال رکھتے تھے جس سے لوگوں کا گلا گھونٹا جاتا تھا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور گجرات سے کلکتہ تک ٹھگوں کے گروہ تھے۔ یہ گروہوں میں کام کرتے تھے۔ ہندوستان چھوٹی بڑی کئی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ کوئی ایک مرکزی ریاست یا سینٹرل پولیس سسٹم  نہیں تھا جس کے سبب ٹھگوں پر قانون کی گرفت ممکن بھی نہیں تھی۔

ٹھگوں میں سبھی دھرم کے لوگ تھے۔ یہاں تک کہ ہندو اور مسلمان دونوں ساتھ ساتھ ایک گروہ میں کام کرتے تھے۔ یہ خود کو ماں بھوانی یا کالی ماتا کا بھگت کہتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر مسلمان ٹھگ جو کلمہ گو تھے اور جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے تھے وہ بھی ماں بھوانی یا کالی ماتا کا نعرہ لگاتے تھے۔ان کا نعرہ "ماں کالی کی جے ہو" ہوا کرتا۔ٹھگوں کے بہت سے گروہ اور ان گروہوں کے بہت سے سردار تھے۔ ایک ٹھگ بہرام کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس اکیلے نے 900 لوگوں کو اپنے رومال سے پھندا بنا کر گلا گھونٹ کے مارا تھا۔ ایک اور ٹھگ سردار فرنگیا نے سات سو قتل کیے۔ دوسرے سرداروں جیسے کہ امیر علی اور چندن لال نے بھی سینکڑوں افراد کا گلا گھونٹا تھا۔

ٹھگوں کے بارے سنہ 1356 میں لکھی گئی مشہور تاریخی کتاب "تاریخ فیروز شاہی" میں پہلی بار ان کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ سنہ 1290 میں ٹھگوں نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے ایک قریبی رشتہ دار کو قتل کر دیا تھا۔ جس پر سلطان نے حکم دیا کہ ٹھگوں کو گرفتار کیا جائے۔ لگ بھگ ایک ہزار ٹھگ اس زمانے میں پکڑے گئے لیکن فیروز شاہ تغلق نے ان پر رحم کھا کر جان بخشی کر دی اور ان کو ایک جگہ قصبہ بنا کر بسا دیا۔ اسی جگہ انہوں نے آپس میں دوستیاں بنائیں اور گروہ بنا کر پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیلتے رہے۔

ٹھگ سال میں چھ ماہ اپنے گھر بال بچوں کے ساتھ گزارا کرتے اور چھ ماہ وہ "ٹھگی یاترا" میں بسر کیا کرتے تھے۔ یہ یاترا ہر سال دسہرہ کے تہوار سے شروع ہوتی۔ ٹھگ اپنے اپنے علاقوں میں ایک مخصوص جگہ پر دسہرہ کے دن جمع ہوتے۔ دسہرہ ہندوؤں کا ایک تہوار ہے جو عام طور پر ستمبر یا اکتوبر میں منایا جاتا ہے اور اس میں بھگوان رام کی راون پر فتح اور درگا دیوی کی کئی راکشسوں پر فتح کی یاد میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ وہیں سے گروپ بنا کر "ٹھگی یاترا" کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ یاترا سے مراد یہ تھی کہ ٹھگ مسافروں یا راہگیروں کے قافلوں میں شامل ہو کر ان کے ساتھ سفر کرتے اور موقع ملتے ہی کسی رات قیام کرتے ان سب مسافروں یا کارواں میں شامل لوگوں کو اپنے رومال سے گلا گھونٹ کر مار دیتے۔ اس کے بعد مال لوٹ کر فرار ہو جاتے اور پھر کسی قافلے کی تلاش میں لگ جاتے۔

ٹھگوں کے چند کٹر اور واضح اصول تھے۔ اول، وہ انسانی خون نہیں بہائیں گے لہذا آلہ قتل صرف رومال ہو گا اور انسان کو صرف گلا گھونٹ کر ہی مارا جائے گا۔ دوم، لاشوں کو کھُلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ یا تو قبر کھود کر دفنایا جائے گا یا وہ کسی کنوئیں میں پھینک دی جائیں گی۔ سوم، لوٹ کا مال سردار کے پاس جمع ہوتا رہے گا اور چھ ماہ بعد یاترا کے اختتام پر تمام جمع شدہ مال (نقدی، سونا، جوہرات) کی برابر تقسیم ہو گی۔ اس سے قبل کسی سٹیج پر مال کی تقسیم نہیں ہو گی۔ چہارم، صرف قافلوں یا راہگیروں کو مارا لوٹا جائے گا۔ گھروں میں ڈکیتی یا چوری نہیں کی جائے گی۔

ٹھگوں کا گروہ پروفیشنل فوجی رجمنٹ کی مانند ہی چلتا تھا۔ یعنی اس میں عہدے ہوا کرتے تھے۔ ہر ٹھگ کو ذمہ داری مختص ہوا کرتی تھی اور عہدے بھی بڑے سے چھوٹے تک ہوا کرتے تھے۔ مثلاًجمعدار یا سردار: جمعدار گروہ کا سربراہ ہوتا تھا۔ یہ سب سے تجربہ کار ٹھگ ہوا کرتا تھا۔ اس کا کام گروہ کی سربراہی اور قتل کا وقت طے کرنا ہوتا تھا۔ سردار یا جمعدار جب باآواز بلند کہتا " تمباکو لا" تو اس کوڈ ورڈ کا مطلب تھا کہ گروہ اپنے رومال نکال کر حملہ آوار ہو جائے اور مسافروں کے گلے گھونٹ دے۔

بھُرتوتے: بھُرتوتے یا بھُرتوت وہ ہوتے تھے جن کو جمعدار اپنی مرضی سے منتخب کرتا تھا۔ یہ جمعدار کے سب سے بااعتماد لوگ ہوتے تھے۔ یہی اصل قاتل ہوتے تھے جو رومال نکال کر گلاگھونٹتے تھے۔ یہ جسمانی طور پر مضبوط ٹھگ ہوا کرتے تھے۔ جمعدار کا اشارہ پاتے ہی یہ اپنی پوزیشن سنبھالتے یعنی لوگوں کے عقب یا پشت پر جا کھڑے ہوتے اور جمعدار کی جانب سے "تمباکو لا" کی آواز آتے ہی حملہ آور ہو کر گلا گھونٹ دیتے تھے۔

سمسیا: سمسیا وہ ٹھگ ہوتے تھے جن کو بھرتوت کا ہیلپر کہا جاتا تھا۔ سمسیا کا کام تھا کہ گلا گھونٹنے کے عمل کے دوران وہ مرنے والے کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر رکھیں تاکہ وہ خاص مزاحمت نہ کر پائیں۔

لُگھا: ان ٹھگوں کا کام واردات کے مقام پر قبریں کھود کر رکھنا تھا۔

بائی کُریا: ان ٹھگوں کے ذمے واردات کے وقت آزو بازو نظر رکھنا کہ قرب و جوار میں کوئی انسان دیکھتا نہ ہو۔مزید ان کے ذمے کاروانوں یا قافلوں میں شامل ہونے کے واسطے قافلے کے سربراہ کو کوئی مجبوری یا عذر یا بہانہ سنا کر اسے اپنے گروہ کی قافلے میں شرکت پر منوانا ہوتا تھا۔ یہ شکل و صورت و لباس سے معصوم یا مسکین یا مفلوک الحال لگتے تھے۔

ٹھگوں کا گروہ بارہ سے بیس ٹھگوں پر مشتمل ہو سکتا تھا۔کئی بار یہ کئی کئی دن قافلے کے ساتھ چلتے رہتے۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کرتے۔ انہیں باتوں میں لگا کر اندازے لگاتے کہ کس کے پاس کتنا مال،سونا، قیمتی اشیاء ہیں۔ واردات کی رات کا تعین صرف جمعدار کیا کرتا تھا۔یہ مسافروں یا قافلوں کو اس بات پر منا لیتے کہ شب بسری کو خیمے گاؤں یا آبادی سے ہٹ کر لگانا ٹھیک رہے گا۔ اور پھر وہ رات آ جاتی جب جمعدار کی آواز بلند ہوتی "تمباکو لا"۔ آناً فاناً سارا قافلہ موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ کیا بچے یا عورت کیا جوان و بزرگ۔ مارنے کے بعد یہ " ماں بھوانی کی جے ہو" یا "کالی ماتا کی جے ہو"کے نعرے بلند کرتے۔ لاشوں کو ٹھکانے لگاتے اور پھر نئے قافلے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے۔

سنہ 1819 تک کمپنی بہادر کو ٹھگوں کے بارے خاص معلومات میسر نہیں تھیں۔ لوگوں کی گمشدگیوں کی رپورٹس تو ہندوستان بھر میں موصول ہوتی تھیں مگر سینٹرل سسٹم ایسا نہیں تھا کہ معلوم ہو پائے گمشدگیاں کس حد تک یا کس تعداد میں ہو رہی ہیں۔سنہ 1819 میں انگریز افسر ولیم ہنری سلیمین کو ایک گاؤں کے کنوئیں سے تیس انسانی لاشیں ملنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ ولیم سلیمین کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ اس کی تفتیش میں لگ گیا۔ سنہ 1830 تک ولیم سلیمین تفتیش میں لگا رہا۔ بلآخر اس نے سرکاری اور ذاتی بہت سے وسائل استعمال کرتے ہوئے ٹھگوں کا کچھ پتہ لگایا۔ کہا جاتا ہے وہ گیارہ سال تک ذاتی وسائل سے بھی معلومات جمع کرتا رہا۔ اپنی تنخواہ بھی تفتیش میں لگا دیتا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہندوستان سے ٹھگوں کا خاتمہ کر کے رہے گا۔ سنہ 1830 میں اس نے با لآخرایک مفصل رپورٹ مرتب کر کے کمپنی کو بھیجی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آفس میں اس رپورٹ پر کھلبلی مچ گئی۔ حقائق بھیانک تھے۔ کمپنی بہادر نے ولیم سلیمین کو خصوصی اختیارات دے دیے۔ پولیس، فوج اور مجسٹریٹ اس کے تابع کرتے ہوئے مقامی قانون سے بالا خصوصی اختیارات سے نواز دیا گیا۔ سلیمین نے سب سے پہلے اعلان کیا کہ جو کوئی ٹھگ کسی دوسرے ٹھگ یا گروہ کی مخبری کرے گا اسے "وعدہ معاف گواہ" بنا دیا جائے گا۔ یعنی اسے پھانسی نہیں دی جائے گی بلکہ رہا کر دیا جائے گا۔ اس کی ٹارگٹ لسٹ میں سب سے بڑا ٹھگ فرنگیا، امیر علی اور بہرام کے گروہ شامل تھے۔

انگریز قانون میں بعد ازاں "وعدہ معاف گواہ "کا قانون بھی ولیم سلیمین کی کامیابی کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ ٹھگوں کے گروہ پکڑ میں آنے لگے۔ انگریز افسر نے دن رات کارروائی کرتے ہوئے پھانسیوں کا آغاز کیا۔ سزائے موت کے ڈر سے ٹھگ دوسرے ٹھگوں کی مخبری کرنے لگے۔ یوں ایک دن فرنگیا بھی ولیم سلیمین کے سامنے گرفتار کر کے حاضر کر دیا گیا۔ فرنگیا "وعدہ معاف گواہ" بننے پر راضی ہوا۔ کہا جاتا ہے دوران تفتیش ولیم سلیمین کی فرنگیا کے ساتھ دوستی ہو گئی تھی۔فرنگیا کے انکشافات کی بدولت امیر علی ٹھگ گروپ بھی پکڑا گیا۔ولیم سلیمین نے اگلے تین سالوں کے اندر ہندوستان سے ٹھگی کا خاتمہ کر دیا۔

فرنگیا پھانسی سے بچ گیا۔ وہ طبعی موت مرا۔ سلیمین نے ہندوستان بھر میں چار ہزار ٹھگوں کو پکڑا۔ پندرہ سو کو پھانسیاں دے دی گئیں۔ باقیوں کو کالا پانی بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے عمر قید کاٹی۔ بہت سے ٹھگ دورانِ قید مر گئے۔ ٹھگوں کی نشاندہی پر قبریں کھود کر مردے یا لاشیں یا ان کے ڈھانچے نکالے گئے۔ سلیمین بعد ازاں سول سروس سے ترقی پا کر برطانوی فوج کا حصہ بنا۔میجر جنرل ولیم ہنری سلیمن نے اپنی یادداشتیں بھی لکھیں جن کو بعد ازاں شائع کیا گیا۔سنہ 1856 میں 67 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوا۔

ایڈنبرا کوئنز میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے میں سات ٹھگوں کی کھوپڑیاں دیکھ کر نکلا تو باہر بارش برس رہی تھی۔ ذہن میں تاریخ سمٹ آئی اور پھر گڈ مڈ ہو کر منتشر خیالات میں ڈھلنے لگی۔ کیا واقعی دنیا سے ٹھگی کا خاتمہ ہو گیا یا اس پیشے نے ترقی پا کر سرمایہ دارانہ نظام کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایک سسٹمیٹک پھندا ہے جو اربوں انسانوں کے گلے گھونٹ رہا ہے۔آج کی دنیا کے ہر انسان کے گلے میں ایک رومال ہی تو پڑا ہوا ہے۔کیا سٹیٹ بینکس، کارپوریٹ و قرضہ جاتی مالیاتی ادارے، اور ان کے پیچھے چند بڑے زیونسٹ خاندان جن کے ہاتھوں میں دنیا کی کُل دولت کا اسی فیصد موجود ہے وہ ٹھگ گروہ نہیں ؟۔اب مرنے والے ارب ہا انسان زندہ لاش کی صورت چلتے پھرتے رہتے ہیں ان کی اکثریت کو گھٹن کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

پس نوشت ( از – عمر بن نعيم)

چند سال قبل تین فارماسیوٹیکل کمپنوں کے لئیے ایک پروجیکٹ کیا تھا میرا کام سسٹم ڈیزائن كرناتھا جسمیں مجھے یوزرز اور سسٹم ریکوائرمنٹ جمع کرنا تھے اس سلسلے میں انکے سسٹم کو ڈیپ دیکھا اور مختلف لیول کے یوزرز کے انٹرویوز وغیرہ کئیے ۔ تمہید کا مقصد یہ کہ۔جو کچھ آپ نے ٹھگوں کے بارے میں بیان کیا ہے یہ ان سے کم بے رحم نہیں ان کا طریقہ واردات مختلف مگر مقصد لوٹنا ہی ہے ۔

اوورپر سکرپشن اور مارکیٹنگ انکا رومال ہے یہ ڈاکٹروں کی لابنگ انکو فری سیمپلز، کلینک اسپتال اپگریڈ ، کانفرنس اسپانسرشپ، ٹورز اور مالی فائدے وغیرہ کا لالچ دے کرتے ہیں مقصد ایسی دواؤں کو پروموٹ کرنا ہوتا ہے جو اصل بیماری پر وقتی افادیت دیتی ہیں مگر مریض کو برسوں ان کا عادی بنا لیتے ہیں ۔ اس لانگ ٹرم ڈیپنڈنسی میں یہ بیماری کو ختم نہیں مینج کرتے ہیں ۔ پھر انکی قیمتوں کا کنٹرول یا پرانا سٹاک آوٹ کرنے کے لئیے شارٹیج کی خبر پھلا کر مریضوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان دواوں کو ضرورت سے زیادہ خرید کر اسٹاک کر لے-اسی پروجیکٹ کے دوران کچھ رپورٹس بھی دیکھیں جو مختلف دوائیوں کی قیمتوں کا موازنہ کرتی ہیں۔ ایک دوا جو معاہدے کے تحت پاکستان میں نہایت معمولی قیمت پر بن رہی تھی لیکن وہی دوا یہی کمپنی سینکڑوں گنا مہنگی بنا رہی ہے-اس سے بھی زیادہ چونکانے والی بات یہ تھی کہ کمپنی کی اس دوا کا مارکٹنگ بجٹ اتنا زیادہ تھا کہ اگر اسی رقم سے وہ سستی والی دوا خریدی جاتی تو وہ دوا پورے پاکستان کے مریضوں کو مفت فراہم کی جا سکتی تھی۔ میری اس نشاندہی پر مجھے بتایا گیا کہ انکی مارکیٹنگ پلاننگ ہی ایسی ہے کہ ڈاکٹرز اور میڈیکل۔اسٹور اس دوا کا ذکر تک نہیں کریں گے ۔