تاريخ
تبليغى جماعت
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
تاریخِ اسلام میں تبلیغی جماعت ایک ایسا روشن اور مؤثر باب ہے، جو خلوص، سادگی اور اللہ تعالیٰ سے گہرے تعلق کی دلنشین گواہی دیتا ہے، یہ جماعت نہ فقہی اختلافات کی آماجگاہ ہے، نہ سیاسی یا نظریاتی کشمکش کا میدان، بلکہ ایک خاموش، بے لوث اور غیر نمائشی تحریک ہے، جو عام مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی گرمی اور دین کی محبت پیدا کرنے کے لئے وجود میں آئی، اس نے دین کا پیغام اُن لوگوں تک پہنچایا جو طویل عرصے سے غفلت، بے عملی اور دنیاداری کی دلدل میں ڈوبے ہوئے تھے-برصغیر کی وہ زمین جو کبھی علم و عرفان کے چمن سے مہکتی تھی، جب روحانی پژمردگی کا شکار ہونے لگی، تو تبلیغی جماعت نے انہی گلیوں، محلوں، اور بستیوں کا رخ کیا جہاں مسجدیں ویران تھیں، صفیں خالی، اور دل ذکرِ الٰہی سے محروم۔
تبلیغی جماعت کی دعوت کا جوہر یہ ہے کہ دین کو محض علمی مناظروں یا فکری مجادلات کے ذریعے نہیں، بلکہ عمل، اخلاق، اور اخلاص کے ذریعہ زندہ کیا جائے۔ وہ زبان سے کم اور حال سے زیادہ بولتی ہے، ایک ایسا عمل جو مسجد کے فرش پر سجدوں کے نشان چھوڑ جائے، ایک ایسا رویہ جو دلوں میں خدا کا خوف پیدا کر دے، ایک ایسا کردار جو دنیا کی چمک دمک سے بالاتر ہو، یہی اس دعوت کا حقیقی جلوہ ہے۔
اگر کسی کو تبليغى جماعت کے کسی قول یا طرزِ عمل سے اختلاف ہو بھی، تو یہ اختلاف کبھی انصاف اور عدل کے دائرے سے باہر نہیں جانا چاہیے، اختلافِ رائے کا مطلب تذلیل یا تحقیر نہیں، بلکہ سنجیدہ فہم اور وسعتِ قلب کے ساتھ بات کرنے کا موقع ہوتا ہے۔
مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کوئی وقتی ردعمل یا جماعتی حکمتِ عملی نہ تھی، بلکہ وہ ایک روحانی الہام تھا، ایک ایسا درد جو امت کے حال کو دیکھ کر دل میں بیدار ہوا تھا۔ انہوں نے دین کو عوام کے دلوں تک پہنچانے کا عزم کیا، اور وہ بھی بغیر کسی لاؤ لشکر یا تشہیری مہم کے۔ ان کی دعوت کا اثر اس قدر گہرا اور پائیدار تھا کہ وہ صدیوں کی غفلت کو پل بھر میں چیرتی محسوس ہوتی، انہوں نے ہم کو سکھایا کہ جب عمل کی روشنی، ذکر کی خوشبو، اور سادگی کی طاقت ساتھ ہو، تو بڑے سے بڑا اندھیرا بھی چھٹ جاتا ہے۔
میری اپنی زندگی میں اس دعوت کا اثر ایک روحانی انقلاب سے کم نہ تھا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے ایام سے لے کر آکسفورڈ جیسے علمی ادارے تک کے سفر میں، میں نے علم کی بہت سی جہات دیکھیں، لیکن جب اس دعوت کے قافلے میں شامل ہوتا تو محسوس کرتا کہ دل کے دریچے کسی اور ہی سمت کھل رہے ہیں۔ علم وہاں تھا جہاں دلیل ہو، لیکن سکون وہاں ملا جہاں ذکر تھا، آکسفورڈ کی پرشکوہ عمارتیں، فکری نشستیں، اور علمی محافل اپنی جگہ، مگر جب کسی گاؤں کے سادہ سے نمازی کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا، تو قلب میں وہ حلاوت محسوس ہوتی جو دنیا کی کسی درسگاہ میں نہیں ملی۔
تبلیغی جماعت کے ساتھی میرے لئے فرشتوں جیسے تھے، نہ وہ دنیا کے طلبگار تھے، نہ شہرت کے متمنی۔ ان کے دل اللہ کی یاد میں سرشار، ان کی زبانوں پر عاجزی، اور ان کے چہروں پر خلوص کی روشنی تھی۔ ان کے ساتھ سفر کرتے ہوئے کبھی پرانی بسوں میں، کبھی ٹرین کے ڈبوں میں، کبھی پیدل گلیوں میں، ہم لوگوں کو نرمی سے دعوت دیتے، اُنہیں دین کے اصول، ايمان، نماز، طہارت، اور اخلاقیات سے روشناس کراتے۔ ان ملاقاتوں میں ہمیں نہ تو ردعمل کا خوف ہوتا، نہ نتائج کی فکر۔ ہمارے لئے اصل کامیابی یہ تھی کہ کسی ایک دل میں بھی اللہ کی یاد کی شمع روشن ہو جائے۔
وہ لمحات آج بھی میری روح میں رچے بسے ہیں، جب مسجدوں کی خاموش فضا میں، فجر کے بعد سورج نکلنے تک ذکر اور دعا کا سلسلہ جاری رہتا، اور انسان اپنے باطن میں ایک نئی دنیا آباد ہوتا محسوس کرتا۔ ان خلوتوں میں وہ سوز و گداز پیدا ہوتا جو علم کے ہزار صفحات بھی پیدا نہ کر سکتے۔ میں نے دیکھا کہ فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے لوگ کس طرح توبہ کے بعد نیکی کی طرف پلٹے، اور وہ تبدیلی ایسی تھی کہ اس کے آثار ان کے چہروں سے جھلکتے، ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتے۔
واپسی پر، میں خود کو اس قابل پاتا کہ نہ صرف قرآن کی سورتیں، نماز کے اذکار، وضو کے مسائل اور سنتوں کی تعلیم عام لوگوں کو سکھا سکوں، بلکہ ان کے دلوں میں اس پیغامِ حق کی محبت بھی راسخ کر سکوں۔ اس دعوت نے مجھے سکھایا کہ دین محض عقلی استدلال یا فقہی موشگافی کا نام نہیں، بلکہ وہ عمل ہے جو دل کو نرم کرے، آنکھ کو اشکبار کرے، اور روح کو پرواز بخشے۔ تبلیغی جماعت کا طرزِ عمل ہمیشہ امت کو جوڑنے والا رہا ہے۔ وہ علمائے دین کی عزت کرتی ہے، اور دین کے اختلافات کو کبھی نفرت کی بنیاد نہیں بناتی۔ ان کے نزدیک اصل پیمانہ اخلاص اور نیت ہے، اور یہی وہ پیمانہ ہے جس کا فیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔میں نے اپنے مشاہدے سے یہ سیکھا کہ دین کی تعلیمات کو محض علمی گفتگو یا کتابی بحثوں تک محدود رکھنا اس کی روح کو قید کرنے کے مترادف ہے۔ دین اُس وقت زندہ ہوتا ہے جب وہ دلوں میں اترتا ہے، اور دلوں میں وہی بات اترتی ہے جو سادہ، خالص، اور عملی ہو۔ اس دعوت نے مجھے بتایا کہ امت کی اصلاح کے لئے ضروری نہیں کہ ہم فلسفے کی پیچیدگیوں یا سیاسی نظریات کی سختی میں الجھیں، بلکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں، نفس کی اصلاح کریں، اور دوسروں کی خیر خواہی کو اپنا شعار بنائیں۔
آج جب میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں، تو دل میں ایک عجیب تڑپ، ایک بےنام تشنگی، اور روح کی گہرائیوں سے ایک صدا ابھرتی ہے کہ وہ دن کتنے پاکیزہ تھے، وہ راتیں کتنی نورانی تھیں، اور وہ لمحات کس قدر مبارک تھے۔ دل چاہتا ہے کہ پھر اسی راہ میں نکلا جائے، پھر کسی مسجد کی چٹائی پر اللہ کا ذکر کیا جائے، اور پھر اسی خلوص، سادگی، اور پاکیزگی میں زندگی بسر کی جائے۔
اس دعوت نے مجھے سکھایا کہ دین صرف علم نہیں، بلکہ ایک جیتی جاگتی، عمل سے روشن، اور اخلاق سے مہکتی حقیقت ہے، اور یہی وہ سبق ہے جو اگر ہم نے اپنا لیا، تو امت ایک بار پھر روحانی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔