میں نے ملازمت کا ابتدائی اور بڑا حصہ ہری پور میں گزارا۔ ایک بار ابا جان پروفیسر عابد صدیق صاحب کچھ دن کے لیے ہمارے پاس تشریف لائے۔ بچے ابھی چھوٹے چھوٹے تھے۔ میرا بیٹا عکرمہ محمد بمشکل دو برس کا ہوگا۔ ایک دن وہ بسکٹ کھا رہا تھا اور بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ میں اسے بار بار روکتا اور بائیں ہاتھ سے بسکٹ نکال کر دائیں میں پکڑا دیتا۔ ابا جان دیکھتے رہے۔ پھر اٹھے اور پوتے کی کھلونوں والی ٹوکری لے آئے۔ پوتا صاحب بسکٹ بھول کر گاڑیاں اور دوسرے کھلونے ٹٹولنے لگے۔ اب ابا جان نے اسے گود میں بٹھایا اور بائیں ہاتھ میں ایک گاڑی پکڑا دی اور دائیں ہاتھ میں بسکٹ۔ نہ گاڑی چھوڑی جا سکتی تھی اور نہ بسکٹ۔ پوتے نے مزے مزے سے بسکٹ کھایا۔ وہ ختم ہوا تو ابا جان نے دوسرا بسکٹ پکڑا دیا۔ بس پھر کیا تھا بائیں ہاتھ میں گاڑی مستقل پکڑائے رکھی۔ مجھے سمجھایا کہ بچے کو کرتے ہوئے کام سے روکنے ٹوکنے کے بجائے کوئی بہتر متبادل مصروفیت دینی چاہیے۔ یہی تربیت ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ بچوں کو کھانے کی چیز دینے سے پہلے کھلونے ڈھونڈتے تھے تاکہ بایاں ہاتھ مصروف کیا جا سکے۔ الحمدللہ چند دن میں عادت پختہ ہوگئی۔
شادی کے کچھ عرصے بعد ہم کچھ دوست کسی اجتماع کے سلسلے میں رائے ونڈ اکٹھے ہوئے۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہوئی۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ ابھی موبائل فون عام نہیں ہوا تھا اور پاکستان میں صرف پیر پگاڑا صاحب کے پاس پاک ٹیل موبائل تھا۔ سب دوستوں نے حال احوال سنایا تو مشترک بات یہ نکلی کہ سب کی بیویاں بہت بولتی ہیں اور فساد کھڑا کیے رکھتی ہیں، بس کسی کی ذرا کم بولتی ہے تو کسی کی زیادہ۔ اگلے دن ناشتہ مولانا محمد جمیل صاحب امام تبلیغی مرکز کے ہاں تھا۔ ان کے ہاں پہنچے تو یہی رونا رویا کہ بیویاں بہت بولتی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ بیوی بولتی ہے۔ مولانا کا زخموں پر یہ نمک چھڑکنا تکلیف دہ تھا لیکن انھوں نے بات جاری رکھی۔ فرمانے لگے کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ بیوی بولتی ہے اور اسے بات منوانی آتی ہے۔ بس تم لوگ یوں کرو کہ اس کے بولنے کے موضوعات تبدیل کرنے کی کوشش کرو۔ آج وہ زیور کپڑا جوتا بول رہی ہے، کوشش کرو کہ وہ اللہ رسول ایمان قرآن نماز روزہ تقویٰ آخرت جنت اور اس کی نعمتوں کو بولنے لگے۔ اس کے لیے اسے ماحول دو اور اس کی تربیت کرو۔ یوں سمجھو کہ زبان ایک موٹر ہے۔ اس پر پینجا مشین والا پٹہ چڑھا دو گے تو یہ روئی دھنکنے لگے گی، اسی پر مرچ پیسنے والا پٹہ چڑھا دو گے تو یہ مرچیں پیسنے لگے گی، آٹے والا پٹہ چڑھا دو گے تو یہ گندم پیسنے لگے گی۔ یہ تمھارا کام ہے کہ کتنا آٹا نکلوانا ہے اور کتنی مرچیں پیسنی اور کتنی کپاس پِنجنی ہے۔ عورت تو بولے گی، یہ تمھارا کام ہے کہ اس کی بولتی زبان پر اللہ رسول کا کلمہ چڑھا دو۔
اس چند منٹ کی گفتگو میں ہم سب کو محسوس ہوا کہ بیوی کے غلط سلط بولنے میں زیادہ قصور ہمارے سسرال کا یا بیوی کی ساس نندوں کا نہیں ہے بلکہ ہمارا اپنا ہے۔ ہم نے اب تک اپنی speaking machines کی تربیت نہیں کی ہے اسی لیے یہ مشینیں ہماری مرضی کا بول نہیں بول رہی ہیں۔ سبھی نے فوری طور پر نیت کی کہ اب اس تربیت کا اہتمام کریں گے۔ ایک دوست نے کہا کہ میں تو اپنی بیوی کو مدرسے بھیجوں گا کہ دین کی تعلیم حاصل کرے تاکہ اللہ رسول کی بات بول سکے۔ مولانا نے فوراً پوچھا کہ کتنی صحابیات نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے؟ ہم سب صم بکم۔ فرمانے لگے کہ بیوی کو مدرسے بھیجنے کے بجائے جناب ملازمت کے بعد خود شام میں کچھ وقت کے لیے کسی عالم سے سبق لینا شروع کیجیے اور گھر آکر بیوی کو پڑھانا شروع کیجیے۔ عورتوں کو دین سکھانے کی اصل ترتیب یہی ہے اور اسی میں خیر ہے۔
کاش ہم میں اتنی صلاحیت ہو کہ ہم سوشل میڈیا پر انٹ شنٹ بولنے اور گالی گلوچ کرنے والے دیندار طبقے کے لیے متبادل مصروفیت مہیا کریں تاکہ ان کی صلاحیتیں اور مہارتیں مثبت کاموں میں استعمال ہوں۔ ہمارے دین دار اور دین پسند طبقے کا
سب سے بڑا مرض یہ ہے کہ ہم اپنا ماضی سنوارنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ماضی جیسا کیسا تھا گزر چکا اور ماضی کے سب لوگ اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے اور ہماری کسی تقریر یا تحریر سے ان کا انجام تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔ خدا نے ہم سے پوچھ کر ان کا فیصلہ نہیں کرنا۔ کاش ہم اپنے لوگوں کو مستقبل کی پیش بندی سکھائیں اور بہتر مستقبل کے لیے حال کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی تربیت دیں۔ مہلتِ عمل صرف زمانہ حال ہے اور یہ صرف آنکھ بند ہونے تک ہے، اور آنکھ بند ہونے کے وقت کا ایک لمحے کا اعتبار نہیں ہے۔
میرا ذاتی عمل یہ ہے کہ اب میں ماضیِ بعید تو چھوڑیے، ماضیِ قریب کے بھی کسی قضیے میں الجھے ہوئے احباب کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔ بے شک اسے سرد مہری کہہ لیجیے۔ مہلتِ عمل کے وقت یعنی زمانہ حال کو اچھی طرح استعمال کرنے کی بات مجھے خواہ جس مذہب والے سے ملے، اسے لیتا ہوں اور اسی کی اشاعت کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر ایسی مثبت بات کرنے والے بہت کم ہیں اور مسلمانوں میں تو گنتی کے چند، کوشش کرتا ہوں کہ انہی سے رابطے میں رہوں۔ اسی کو میں مجالس الابرار سمجھتا ہوں۔***