زندگی میں پرسنل سپیس (personal space) کیوں ضروری ہے؟

مصنف : حسنین جمال

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : نومبر 2025

سماجيات

زندگی میں پرسنل سپیس (personal space) کیوں ضروری ہے؟

حسنين جمال

ہمیں بچپن سے پرسنل سپیس کے بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں جاتا۔ لیکن‘ مہذب دنیا میں بہرحال پرسنل سپیس اور ڈسٹنس ایسی چیزیں ہیں جن کا علم ہونا اور جنہیں اپنا حق سمجھنا انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ جب آپ تمام ایسی باتیں کہہ چکتے ہیں جو کہنے والی نہیں تھیں اور وہ بھی کہ جو کہنے میں ہرج نہیں تھا تو اس کے بعد جو نقصان سب سے پہلے ہوتا ہے وہ آپ کے ڈسٹنس کا ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگلا شکار آپ کی پرسنل سپیس ہوتی ہے۔

پروکسیمکس (proxemics) وہ علم ہے جس میں سائنسی طور پہ باقاعدہ‘ پرسنل سپیس اور دوسرے انسانی رجحانات زیربحث لائے جاتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ پرسنل سپیس وہ ایریا ہوتا ہے جو کوئی بھی انسان ذہنی طور پہ اپنے آس پاس کی جگہ کو سمجھتا ہے۔ جیسے کوئی اگر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا ہو تو وہ چاہے گا کہ میری گود میں کوئی بچہ نہ ٹھونسا جائے، یا میرے ساتھ کوئی اور بندہ نہ چپک کے بیٹھے، تو وہ اس کا پرسنل سپیس ہو گا۔ ایسے ہی دماغی طور پہ کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کے بارے میں بات کرنا اسے پسند نہیں ہوگا، وہ کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ عموماً کسی سے بہت ذاتی سوالات کرنا بھی پرسنل سپیس میں دراندازی والی بات ہوتی ہے۔ وہ جو ہمارے یہاں پوچھتے ہیں ”آپ کی شادی ہو گئی؟ کتنے بچے ہیں؟ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں؟ ہائے بچہ کیوں نہیں ہوا؟‘‘ تو یہ‘ اور ایسے بہت سے سوال پرسنل سپیس توڑنے والے راکٹ کہلائے جا سکتے ہیں۔ پروکسیمکس ہمیں سمجھاتا ہے کہ اگر کسی انسان کی پرسنل سپیس ڈسٹرب کی جائے گا تو اسے بے آرامی، پریشانی، ناراضی، غصہ… کچھ بھی آسکتا ہے، یا پھر یہ سب چیزیں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں اور ایسا مسلسل ہو تو اچھا بھلا آدمی نفسیاتی مریض بن سکتا ہے۔

عموماً دوست یار یا میاں بیوی ایک دوسرے کی پرسنل سپیس کا تیا پانچہ یہ سوچتے ہوئے کرتے ہیں کہ میں چونکہ اس بندے کے سب راز جانتا ہوں/جانتی ہوں‘ اس لیے مجھے حق ہے کہ میں اس کے ہر مسئلے کا تیاپانچہ کروں۔ کیا کوئی انسان، کسی وقت بھی، کہیں بھی، بلاشرکت غیرے، کچھ سوچنے کا حق نہیں رکھ سکتا؟ کیا اس پہ فرض ہے کہ وہ اپنا دکھ، درد، خوشی، راز، تکلیف یا آئیڈیا کسی دوسرے کو ضرور بتائے؟ کیا اسے کچھ دیر کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا؟ تو بس یہ تین سوال جس وقت جھلّا کے انسان اپنے آپ سے کرے گا، وہ انڈیکیٹر ہوگا کہ جناب اب پرسنل سپیس برابر چاہیے۔ اب جھلاہٹ بڑھ رہی ہے، سکون کی تلاش ہے اور وہ اکیلے بیٹھ کے ہی ملے گا۔

ٹرین، بس یا جہاز کے سفر میں بھی یہ حرکت بہت ہوتی ہے۔ ”جی آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ سے شروع ہونے والی گفتگو پڑوسیوں کے بچوں کی شکایتوں پہ ختم ہوتی ہے۔ کبھی ساتھ والا جواب نہ دے تو وہ اکھڑ، بدمزاج، مغرور اور نجانے کیا کیا کہلاتا ہے۔ بھائی، کیا ضروری ہے کہ وہ بھی اسی ریلیکس حالت میں ہو جس میں آپ سفر کر رہے ہیں؟ تو اس کی سپیس برقرار رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اوّل تو بات کرنے کی ضرورت نہیں، اگر کیجئے بھی تو مختصر جواب سننے پر منہ نہ بنائیں، بس کوئی بھی دوسرا کام پکڑ لیں اور سمجھ جائیں کہ سامنے والا اپنا فاصلہ مینٹین رکھنا چاہتا ہے۔

یہ مسئلہ سب سے زیادہ دو نئے دوستوں کے درمیان پایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پہ بھی موجود ہے۔ کمیونیکیشن کی تاریخ میں سب سے اہم چیز ٹیلی فون کی ایجاد تھی، وہی آج بھی ہے۔ جب انسان کو ضروری کام ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے کو فون کرتا ہے، یہ ایک عام سی بات ہے۔ گپ شپ، حال چال پوچھنے کے لیے یا کوئی صلاح مشورہ کرنا ہو تو میسیج یا وٹس ایپ وغیرہ پہ کیا جاتا ہے۔ اب جو پرانے دوست ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ فلاں آدمی کی ترجیحات کیا ہیں۔ وہ میسیج یا وٹس ایپ کا جواب جلدی دے گا یا شام کو گھر جا کے فارغ ٹائم میں یہ سارے کام کرے گا۔ نیا دوست یہ نہیں جانتا۔ یہیں سے زندگی کی نئی چخ چخ شروع ہوتی ہے۔ نیا دوست آپ سے پوچھ سکتا ہے ”کیا مطلب؟ تم میسیج کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ تم نے میرا پیغام دیکھ کے ریپلائے کیوں نہیں کیا؟ دوستی زیادہ اہم ہے یا باقی سارے کام؟ میری بات کا جواب دینا اہم ہے یا تمہاری مصروفیات؟‘‘ تو یہ بھی پرسنل سپیس پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک قسم ہے۔ ایک بندہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ جسے ضروری کام ہو گا وہ فون کرے گا اور میسیج وغیرہ کو دیکھنا یا جواب دینا ہر وقت ضروری نہیں سمجھتا، تو یہ اس کے پرسنل سپیس کا معاملہ ہے۔ یہاں تک کہ فون یا گھر کی ڈور بیل اگر تین چار بار بجنے کے بعد نہیں سنی جاتی تو اصولی طور پہ مشن سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی کسی ذاتی کام میں مصروف ہو۔ کسی بھی وقت یہ پیچھے ہٹنا جو ہے، یہ سپیس دینا کہلاتا ہے۔

اس ساری کشمکش سے گزرنے کا نقصان بہرحال یہ ہے کہ اس تحریر کو بھی جھک مارنا سمجھا جائے گا۔ سوچا جا سکتا ہے کہ پرسنل سپیس جیسے معاملے پر اتنی لائنیں گھسیٹنے کی ضرورت کیا تھی۔ ضرورت تھی اور ضرورت ہے۔ یہی بحث ہمیں سکھاتی ہے کہ باپ بیٹی کے کمرے میں بھی جائے تو پہلے دروازہ کھٹکھٹائے، والدین کے کمرے میں بھی یہی تکلف ملحوظ رہے اور اجنبیوں سے بھی ایک ایسا فاصلہ رکھنا بچپن سے سکھایا جائے جو ادب آداب کے دائرے میں تو آتا ہی ہو، بچوں کو دراز دستی کے امکانات سے محفوظ بھی رکھ سکے۔ اپنا پرسنل سپیس قائم رکھنا اور بچوں کو اس کی تربیت دینا اب نئے معاشرتی نارمز میں شامل ہے، جلد یا بدیر اسے قبول کرنا ہی پڑے گا۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔۔۔آخر میں ایک حدیث کا مفہوم شئیر کرنا چاہوں گا؛آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔۔"جب کسی کے گھر جاؤتو تین دفعہ دستک دو اور جواب نہ ملنے پہ برا نہ مناؤاور لوٹ آو۔"