خاندان ميں خوش گواری كيسے آئے

مصنف : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : دسمبر 2025

سماجيات

خاندان ميں خوش گواری كيسے آئے

محمد رضی الاسلام ندوی

خاندان میں خوش گواری خوش دلی سے دوسروں کے حقوق ادا کرنے سے آتی ہے -

ایک خاتون کا فون آیا : ” میں آپ سے اپنے ایک خانگی مسئلے میں رہ نمائی حاصل کرنے کے لیے ملاقات کرنا چاہتی ہوں - “میں نے جواب دیا :” تشریف لائیے ، لیکن فون کرکے - “وہ آئیں اور میرے سامنے بیٹھ گئیں - میں نے دیکھا ، وہ ایک بھولی بھالی معصوم سی لڑکی تھی - عمر 25 اور 30 کے درمیان رہی ہوگی - انداز شائستگی لیے ہوئے تھا - میرے دریافت کرنے پر اس نے اپنا مسئلہ ان الفاظ میں بیان کیا :” میں ایک یونی ورسٹی کے شعبۂ قانون میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں اور میرے شوہر بھی - ہم دونوں نے کئی برس ساتھ میں تعلیم حاصل کی ہے - ایک برس قبل ہمارا نکاح ہوا تھا اور ابھی تین ماہ قبل میری رخصتی ہوئی ہے - “میں نے سوال کیا : ” نکاح کے ساتھ رخصتی کیوں نہیں ہوئی تھی ؟

دراصل ہم دونوں اسٹوڈنٹ ہیں - گزر اوقات کے لیے مصارف کا مسئلہ تھا - تین ماہ قبل ہمیں اسکالر شپ ملنی شروع ہوئی ہے ، تب رخصتی کا پروگرام بنا - ہم نے ایک مکان کرایے پر لے لیا ہے - اس میں رہتے ہیں - “ لڑکی نے وضاحت کی -میں نے سسرال اور میکے کے بارے میں کچھ تفصیلات معلوم کیں - پتہ چلا کہ شوہر اپنے ماں باپ کا اکلوتا ہے - گھر وسیع ہے - یہ میاں بیوی بھی بہ آسانی اس میں privacy کے ساتھ رہ سکتے ہیں ، لیکن لڑکی نے الگ رہنے کو ترجیح دی - میں نے سوال کیا :” جب آپ کا سسرالی گھر کشادہ ہے ، شوہر اپنے والدین کا اکلوتا ہے تو آپ نے الگ گھر لینے کی زحمت کیوں کی اور اس کے لیے نکاح کے بعد ایک برس انتظار کیوں کیا؟خاتون نے جواب دیا : ” میں نے نکاح سے قبل ہی یہ شرط رکھی تھی کہ میں سسرال میں نہیں رہوں گی اور میرے شوہر نے یہ شرط مان لی تھی - “

مجھے شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف اور تنازعہ کی اصل وجہ سمجھ میں آگئی تھی - آج کل کی لڑکیاں کسی کے دباؤ میں نہیں رہنا چاہتیں - وہ آزادی چاہتی ہیں - جو ان کی مرضی میں آئے کریں ، کچھ نہ کرنا چاہیں نہ کریں - کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو - سسرال میں ساس سسر اور دوسرے افراد ہوں تو ان کا کچھ کام کرنا پڑ سکتا ہے - کچھ غلط ہوجائے تو ان کی ڈانٹ یا کم از کم کوئی ناگوار بات سننی پڑ سکتی ہے ، اس لیے اچھا ہے ، اکیلے رہیں - جب کہ شوہر اپنے ماں باپ سے تعلق رکھنا چاہتا ہے - اس کی خواہش رہتی ہے کہ وہ ان کی خدمت کرے اور اس کی بیوی بھی - لڑکی سے نکاح کی خواہش میں اس نے علیٰحدہ رہنے کی بات تو مان لی تھی ، لیکن ماں باپ سے الگ رہنا اس کے لیے تکلیف دہ ہے - وہ ان سے ملنے ، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے اور کوئی کام کرنے جاتا ہے تو بیوی کو ناگوار ہوتا ہے اور وہ اس سے جھگڑنے لگتی ہے - اس رویّے نے شوہر کو چڑچڑابنا دیا ہے اور اس کا اظہار نکاح کے بعد تین مہینے ہی میں ہونے لگا ہے -

میں نے دریافت کیا :آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ شوہر سے آپ کو کیا شکایت ہوگئی ہے؟

اس نے جواب دیا : ” وہ بات بات پر خفا ہونے لگے ہیں - ڈانٹنے لگے ہیں اور دو روز قبل تو انھوں نے میرے اوپر ہاتھ اٹھادیا - “میں نے سوال کیا :” شوہر سے آپ کا تعارف کئی برس سے تھا - آپ لوگوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی ہے - ان کے مزاج اور رویّے کو آپ نے اچھی طرح پرکھا ہوگا ، پھر ان میں یہ تبدیلی اچانک کیسے آگئی؟

اس نے جواب دیا : ” وہ بہت اچھے تھے ، بااخلاق ، ملنسار ، دوسروں کے کام آنے والے ، لیکن نکاح کے بعد وہ بدل گئے ہیں - یہی تو میں سمجھ نہیں پارہی ہوں ، کیوں؟میں نے کہا : ” آپ کے شوہر Law میں پی ایچ ڈیکررہے ہیں - انھیں نہیں معلوم کہ Domestic Violence قابلِ سزا جرم ہے؟اس نے جواب دیا : ” خوب معلوم ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ جیل میں کھانے کو تو ملے گا ، پھر کیا پریشانی ہے - “

میں نے کہا : ” آپ نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے - ساس سسر سے آپ کے تعلقات ہوتے تو آپ ان سے اپنے شوہر کے رویّے کی شکایت کرسکتی تھیں اور وہ انھیں سمجھاتے بجھاتے ، بلکہ ڈانٹ بھی سکتے تھے - “لڑکی نے بتایا : ” دو روز سے میں نے گھر چھوڑ دیا ہے اور اپنی ایک سہیلی کے پاس ہاسٹل میں رہ رہی ہوں - شوہر نے میرے والد صاحب کو فون کردیا ہے کہ میں پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہوں - میں نے والد صاحب کو فون کرکے سب باتیں بتادی ہیں - وہ دو دن میں آنے والے ہیں - “

میں نے کہا : ” آپ نے شوہر کا گھر چھوڑ کر اچھا نہیں کیا - یہ دکھا دیا کہ آپ کو شوہر سے زیادہ کسی اور پر اعتماد ہے - اس طرح کی چھوٹی باتیں دلوں میں بیٹھ جاتی ہیں تو دوٗریاں پیدا ہوجاتی ہیں -میں نے کہا : ” آپ کے والد صاحب آنے والے ہیں - وہ ان شاء اللہ آپ دونوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کریں گے - اگر ضرورت سمجھیں تو انھیں بھی میرے پاس لائیے - “

تین چار دن گزرے ہوں گے کہ وہ لڑکی پھر آئی - اس کے ساتھ اس کے والد اور شوہر دونوں تھے - والد صاحب نے بتایا کہ میں نے دونوں کو سمجھا دیا ہے اور وہ ساتھ رہنے لگے ہیں - شوہر بہت شریف دکھائی دیتا تھا - اس کے چہرے پر ڈاڑھی بہت اچھی لگ رہی ہے - جتنی دیر یہ لوگ میرے پاس رہے وہ بالکل خاموش رہا - میں نے ان کے سامنے شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق بیان کیے اور سمجھایا کہ ازدواجی زندگی میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور کن باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ میں نے کہا کہ اپنے حقوق پر توجہ دینے کے بجائے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو تعلقات میں خوش گواری پیدا ہوتی ہے - اسلام میں خود غرضی کے بجائے ایثار کی تعلیم دی گئی ہے - میں نے یہ بھی کہا کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے سسرالی رشتے خونی رشتوں کے مثل ہوتے ہیں ، ان کا خیال رکھنا چاہیے -

میں نے الگ سے لڑکی کے باپ سے کہا کہ میرے نزدیک ازدواجی تنازعہ کا سبب لڑکی کا اپنے شوہر کو اس کے ماں باپ سے کاٹ کر رکھنے کی کوشش کرنا ہے - اپنی لڑکی کو سمجھائیے کہ وہ اپنی سسرال سے خواش گوار تعلقات رکھے ، تبھی وہ شوہر کو خوش رکھ سکے گی -