خاتون اول اور فولو می  follow me

مصنف : سليم زمان خان

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جنوری 2026

سماجيات

خاتون اول اور فولو می  follow me

سليم زمان خان

ہفتہ کا دن چھٹی ہوتی ہے،لیکن مجھے چھٹی نہیں ملتی۔۔ یہ دن بیگم صاحبہ کی ڈیوٹی میں گزرتا ہے۔ بس یہ رعائت ہوتی ہے کہ میں گیارہ بجے تک ناشتہ کر لوں۔۔ شہرکا بڑا شاپنگ مال بارہ بجے کے بعد آباد ہونا شروع ہوتا ہے۔ اور وہ بھی چھوٹا طبقہ پہلے آنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ بڑے لوگ تو اٹھتے ہی تین بجے سہ پہر تک اور آتے آتے شام ہو جاتی ہے۔ہم میاں بیوی بھی اپنے باقی کام نمٹاتے قریباً 4 بجے ہائپر اسٹار پہنچ جاتے ہیں۔۔ مجھے یہاں آنا اس لئے اچھا لگتا ہے کہ بیگم کم سے کم وقت جو یہاں خرچ کرتی ہے وہ دو گھنٹے ہوتا ہے۔ اور مجھے وہاں ایک قیمتی غیر ملکی کافی شاپ میں کافی کی چسکیوں کے ساتھ اپنی کتاب پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس ہفتے بھی اسی روٹین کے تحت بیگم کو مشہور کپڑوں کے برینڈ میں چھوڑتا ہوا میں کافی شاپ جا گھسا۔ انہیں میری کافی کا علم ہے ۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ٹھیک آدھ گھنٹے بعد مجھے کافی چاہئے ہو گی۔

ابھی میں بیٹھا ہی تھا کہ دو چنچل اور انتہائی ماڈرن خواتین بھی شاپ میں داخل ہوئیں۔ سر سے پیر تک برینڈید خواتین تھیں۔ اور نجانے ایسی کیا بات ہوئی تھی کہ ان سے اپنی ہنسی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی۔ اور منہ بگاڑ بگاڑ کر مختلف پوز سے سلفیاں ہی سلفیاں لئے جا رہی تھی۔ اتنا زیادہ ہنسی مذاق ہو رہا تھا کہ کافی شاپ کا سنجیدہ ماحول ان سے زچ ہونے لگا۔ اب اس ماحول میں کتاب تو پڑھی نہیں جا سکتی تھی تو میں نے بھی آنکھیں سیکنے کا قصد کیا۔ایک دو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو ان کے قریب آٹو گراف لینے گئے اور حسرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی ڈرامہ آرٹسٹ یا فلم اسٹارز ہیں ۔ قریب گزرتے ویٹر کو اشارہ کیا اور اس کے کان میں پوچھا کہ یہ لڑکیاں کون ہیں۔ اس نے اس طرح مجھے دیکھا جیسے میرے منہ سے اس کی ماں یا بہن کی شان میں کوئی گستاخی ہوئی ہو۔ حیرت اور خفگی سے بولا ۔ آپ انہیں نہیں جانتے؟؟ میں قسم کھانے کو تیار ہو گیا کہ یہ والی جنس بہت عرصے سے میرے لئے قابل غور نہیں رہی۔

وہ بولا یہ لمبی والی تو tik tok اسٹار ہے۔۔ اور اس کے تو تقریباً 5 ملین فالورز ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی tik tok اسٹار ہے۔ اور اس کے ساتھ اس کی سہیلی ہے ۔ اس کے بھی 3 ملین فالورز ہیں ۔اوہ۔۔۔ میرے منہ سے نکلا۔ یعنی یہ وہ لڑکیاں ہیں جو چند سیکنڈز کی ویڈیو ناچ گانے اور نقالی کی بناتی ہیں؟۔۔ ویٹر بہت خفا ہوا اور بولا نہیں سر!!! یہ ایک منٹ کی اشتہاری ویڈیو کےبھی3 لاکھ لیتی  ہیں اور اس کے علاوہ ان کے اور بھی کام ہیں۔ میں چونکا کون سے کام ۔؟ وہ بولا سر ان کو ڈیزائنر اپنے کپڑوں کے اشتہاروں کے لئے لیتے ہیں ،گانے کی ویڈیو میں کام ملتا ہے۔ فنکشنز میں بطور entertainers بلایا جاتا ہے۔ناچنے کے لئے ؟؟ میں نے پوچھا۔ تو وہ بولا سر ناچتے آجکل صرف کھسرے ہیں۔ یہ بڑی پارٹیوں کے لوگ ہیں۔میں نے ویٹر سے پوچھا یہ وہی ہے جس کی ذاتی ویڈیو کسی نے اس کے موبائل سے نکال کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی۔؟ ویٹر مسکرایا۔ سرررر۔ جانتے آپ سب ہیں۔!! لیکن یہ وہ نہیں۔ وہ تو اس سے بھی بڑی tik toker ہے۔ میں نے تجسس سے پوچھا یار کوئی اپنی ہی گندی ویڈیو کیوں بنائے گا اور پھر اتنا بے ہوش کہ کوئی اس کے فون سے ویڈیو شئیر کر لے؟؟؟ وہ بولا سر۔ اب آپ اتنے بھی سادہ نہ بنیں نا!!! یہ سب پبلسٹی کے لئے خود کیا جاتا ہے۔اوہ  ہ ہ۔۔ میرا منہ کھلا رہ گیا۔۔ اتنی دیر میں کافی شاپ کا ادھم مدھم پڑنا شروع ہوا ۔خواتین جس تیزی اور ادھم سے آئی تھیں اسی شور شرابے کے ساتھ واپس نکلنے لگیں۔شکر اس بات کا کہ موصوفہ کافی وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑی۔ کسی کے انتظار میں آئیں تھیں وہ پہلے سے ہی انتظار میں تھے۔تو یہ 5 منٹ کا بھونچال آیا اور چلا گیا۔ جب وہ دو خواتین واپس جا رہی تھیں تو ایک کی برانڈڈ ٹی شرٹ پر پیچھے بڑا بڑا *follow me* لکھا ہوا تھا۔ اور اس کی شرٹ اور پتلون کے درمیان اس کی کمر نظر آ رہی تھی۔ جس پر بچھو کا ٹیٹو بنا ہوا تھا۔اس Follow me نے مجھے چونکا دیا۔ اور میں سوچنے لگا کہ اس طرح follow me کہاں پڑھا ہے۔ اور میں گہری سوچ میں چلے گیا۔ چشم باطن میں میں نے ہزاروں سال کا سفر طے کر لیا ۔

یہ تین ہزار سال پرانے یونان کا شہر Athína ہے۔ جسے آج کل ایتھنز کہا جاتا ہے۔۔ سورج کے ڈوبنے میں ابھی ایک گھنٹہ ہے،اس کی شعائیں عمارتوں کی زردی بڑھا رہی ہیں۔ میں ابھی ابھی شہر میں داخل ہوا ہوں۔ میرے سامنے شہر کی گہما گہمی ہے دکاندار گاہکوں سے بھاؤتاؤ کر رہے ہیں۔ ریڑھی والا ریڑھی پر سامان لاد رہا ہے۔ تلواریں بنانے والے لوہار کی دھونکنی خوب دمک رہی ہے اور سرخ لوہے کی سلاخ کو کوٹ رہا ہے جس سے ماحول میں لوگوں کی بھنبھناہٹ کے بیک گراونڈ میں لوہا کوٹنے کی ٹن ٹن ماحول کو اور دلکش کر رہی ہے۔ اسکے ساتھ ہی مجھے ایک خوشبو کے جھونکے نے مسحور کیا اور میں نے چونک کر اپنے قریب سے ایک بیس بائیس سالہ نوجوان لڑکی گزرتے دیکھی۔ اس نے اپنے چہرے پر اسقدر پوڈر نما چیز تھوپی ہوئی ہے کہ اس کا چہرہ مصنوعی لگ رہا ہے۔ اس نے آنکھوں کے گرد کالا کالا کاجل نما لگا رکھا ہے اور ہونٹ کالک کے قریب قریب سرخ کر رکھے ہیں۔جب یہ میرے آگے سے گزری تو مجھے محسوس ہوا کہ اردگرد کھڑے نوجوان اسے دیکھ رہے ہیں جبکہ میری طرح کے ادھیڑ عمر جسمانی مسائل یا مذہبی اوڑھنی کی وجہ سے اس لڑکی کو دیکھ کر منہ بسور رہے ہیں۔۔اس نوجوان خاتون نے ایک ایسی قمیض پہن رکھی ہے جو اتنی لمبی ہے جتنی آج کل منی اسکرٹ۔ اور کمر پر ایک سرخ پٹہ باندھا ہوا ہے۔ اس کی قمیض کا گلہ پیچھے سے کمر کے درمیان تک کھلا ہوا ہے جس میں تسمہ ڈالا ہوا ہے جبکہ سامنے سے cleavage lines سے گزرتا ہوا ہے۔میں نے ساتھ گزرتے ہوئے مسافر سے پوچھا کہ اس ماحول میں یہ کون ہے تو اس نے حقارت سے اس کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں جہاں اس کا اٹھکیلیاں لیتا بدن پیر رکھ رہا تھا وہاں زمین پر ایک مخصوص نشان بن رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ یونانی زبان میں ایک لفظ بن رہا تھا۔یہ *ΑΚΟΛΟΥΘΕΙ* ہے جس کا عام فہم مطلب ہے "follow me" ہے۔۔ اوہ میں چونک پڑا یہ "Pornai" پورنائی ہے۔۔

پورنائی ایک ایسے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے " بیچنا" ۔ یہ غلاموں کا ایک طبقہ ہے جو *کسبی* یا سیکس ورکرز کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں اپنے گاہک خود ڈھونڈنے ہوتے اور پھر ان کی کمائی سے ٹیکس بھی کاٹا جاتا۔ اسی کو بطور ماخذ porn کا جدامجد سمجھا جاتا ہے، انہیں الفاظ کی بجائے ایک مخصوص وضح قطع اختیار کرائی جاتی ۔ ان میں سے ہی میرے سامنے چلنے والی یہ خاتون ایک آزاد سیکس ورکر تھیں۔ انہیں پورنائی طبقہ میں زیادہ اچھا مقام حاصل ہوتا۔یہ اپنی کمائی خود استعمال کرتیں ۔ اور غلامانہ چوتھے طبقے سے بہتر زندگی بسر کرتے ۔ لیکن انہیں اپنی تشہیر کے لئے مخصوص قسم کا لباس ،مخصوص رنگ کا اسکارف اور جوتوں کے تلووں میں "follow me" جیسا لفظ لکھنا ہوتا تھا ۔ اور گاہک خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑتا۔ ایک سے زیادہ ہوتا تو بھاؤ تاؤ پر بات ختم ہوتی ان بے چاریوں کے اس زمانے میں زیادہ سے زیادہ 5 یا 7 فالورز ہوتے۔ اگر لاکھوں ہوتے تو نجانے کیا ہوتا ۔ ان کے اپنے مخصوص علاقے ہوتے۔ ان میں اکثر خواتین اور حضرات کا پیشہ گانا بجانا اور مختلف تہواروں پر ناچنا بھی ہوتا۔ یہ اسٹریٹ تھیٹرز میں بھی کام کرتے۔ اور کم وقتی یاکل وقتی اجرت لیتے۔

جب سے پدر سری نظام کا وجود ہوا ہے خواتین کو چار بڑے طبقات میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ اور اس کا سب سے قدیم تحریری ثبوت کم وبیش 5 ہزار سال سے ملتا ہے۔ اور حمورابی بادشاہ جو آج سے کم وبیش ساڑھے چار ہزار سال قبل اپنے عدل وقانون کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس نے ان طبقات اور ان سے انصاف کے طریقے اپنے قانون میں واضح کئے ہیں۔ ان چار طبقات میں سے چوتھا طبقہ غلاموں پر مشتمل تھا، ان میں وہ غلام لڑکیاں اور نو عمر لڑکے ہوتے جو کسی مرد یا عورت کی ملکیت ہوتے۔ اور یہ ان کے مالک بھی چھوٹے طبقوں کے لوگ ہوتے ،یہ سب سے سستی عیاشی تھیں اور اکثر کے پاس ان خدمات کے لئے کمرے تک بھی نہیں ہوتے تھے۔ اور انہیں کسی اوٹ وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا۔ یہ غلیظ اور معاشرے کے دھتکارے مرد و خواتین ہوتے۔ ان کے ساتھ کم و بیش وہی سلوک ہوتا جو آج کل خواجہ سراؤں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔

*پورنائی* ان چار طبقوں میں سے تیسرے نمبر کے شہری شمار ہوتی تھیں ان ہی میں وہ خواتین تھیں جو آزاد تھیں مگر غربت یا بیوہ ہونے کی وجہ سے یہ کام کرتے ان میں وہ خواتین بھی ہوتیں جنہوں نے اپنے مالکوں سے معاہدہ کر کے آزادی لے لی ہوتی۔ یہ ہر کام کرتے چاہے ناچ گانے کا ہوتا یا جسم فروشی، ان میں سے اکثر شاعری بھی کرتیں۔ اس طبقہ کو اگر ہماری برصغیر کی زبان میں کہیں تو یہ "کنجر" کہلائیں گے۔آپ کنجر کو آج کے مخصوص کردار میں سوچ رہے ہوں گے جبکہ کنجر سنسکرت کے لفظ "کننا چرا" سے ماخوذ ہے۔ کننا چرا کے لغوی معنی جنگل میں آوارگرد کے ہیں۔

کنجر ، شمالی بھارت، کشمیر اور پاکستان میں بسنے والے ایک خانہ بدوش قبیلے کا نام ہے۔ میراثی قبائل بھی غالباً انہی سے متعلقہ ہیں۔ ان لوگوں کو بسا اوقات ناتھ، بنجارا اور گشتے کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ نام اچھے معنوں میں نہیں لیے جاتے اور ان سے ان لوگوں کا کم تر ہونا مراد لیا جاتا ہے۔ اسی لئے آج "گشتی" ایک مخصوص طبقہ کو کہا جاتا ہے جبکہ یہ ایک قبیلہ کا نام تھا-لفظ کنجر کے معانی اور ان لوگوں کو کمتر سمجھے جانے کے ضمن میں جوش ملیح آبادی کا یہ واقعہ باعث دلچسپی ہوگا۔ ایک بار جناب جوش لاہور تشریف لائے تو ایک نوجوان نے ان سے استدعا کی کہ جناب ! میر تقی میر کا ایک شعر سمجھا دیا جائے۔ جوش صاحب نے گلوری منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا، کہئیے میاں صاحب زادے کون سا شعر ہے؟ نوجوان نے بتایا-میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں --جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں--جوش مسکرائے اور فرمایا، کنجر تنگ کر رہا ہے؟ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ جوش صاحب بولے، صاحب زادے، یہ پنجاب کا کنجر نہیں ہے۔ گنگا جمن کی وادی میں کنجر، خانہ بدوش کو کہتے ہیں، جس کا کوئی متعین ٹھکانہ نہ ہو۔

چونکہ یہ پیٹ پالنے کو ہر طرح کا کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔لہذا برطانوی راج میں جرائم پیشہ قبائل ایکٹ 1871 (Criminal Tribes Act)کے تحت کنجروں کو بطور قبیلہ ، ناقابل ضمانت جرائم کے عادی افراد کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

پاکستان میں دو مختلف قبیلے کنجر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔صدیوں پر محیط سفر زندگانی کے دوران ان میں سے ایک طبقہ قحبہ گری سے منسلک ہو گیا جبکہ ایک گروہ کاریگری اور تفریح و تفنن طبع کو ذرائع روزگار بنائے ہوئے ہے۔ یہ لوگ گانا بجانا، ناٹک اور سرکس سے منسلک ہیں یا مٹی، سرکنڈوں اور رنگین کاغذوں سے روایتی کھلونے بنا کر گلی گلی بیچتے ہیں۔ کنجر کی اصطلاح ایک قبیلے کے نام سے زیادہ قحبہ گری یا اخلاقی طور پر پست افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امرائے ہند انہی مفلس و نادار برادریوں سے بیویاں خریدتے رہے ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کے لئے کوئی کام برا نہیں تھا اسی لئے جب فلم انڈسٹری برصغیر میں پروان چڑھی تو بہت سے گھرانے اس انڈسٹری سے باوقار روزگار کمانے لگے کیونکہ ان کے چھوٹے چھوٹے کام یا غیر اخلاقی حرکتوں سے فلم اندسٹری ایک زیادہ عزت دار اور نامور کام تھا۔

قدیم یونان ، سلطنت روم، جاپان یا چین میں معاشرے میں دوسرے درجہ پر فائز خواتین کا طبقہ یونان میں Hetaerae, رومیوں میں meretrix ،جاپانیوں میں Oiran اور چین میں (jì) کہلاتا تھا۔۔ ان خواتین تک عام آدمی کی رسائی تقریبا ًناممکن تھی۔

یہ طبقہ آج کل courtesan کہلاتا جس کے عام فہم مطلب ایسی خاتون کے ہیں جو اپنی مرضی سے جسے چاہے اپنے قریب کرے ،جب تک چاہے اپنے قریب کرے ۔ یہ قدیم دور میں فنون لطیفہ، کلاسیکل رقص، شاعری ، ادب کی ماہر خواتین ہوتیں تھیں۔ بڑے بڑے قلعہ نما گھروں میں رہا کرتیں ۔ صرف امراء وزراء یا سیاسی لوگ ان کی محافل میں جاتے یہ صرف شہر یا حکومت کی بڑی مجالس میں شرکت کرتیں ، اور یہ اپنی مرضی سے اپنے ساتھ رہنے والے ساتھی کو چنتیں۔ اور یہ مدت بغیر نکاح کے ہوتی۔ تاہم اس دوران ان کا تمام خرچ اس شخص کے ذمہ ہوتا۔ یہ آزاد سیکس کی عادی نہ تھیں۔ کسی بندے کو ان تک پہنچنے کے لئے اعلی کلاس یا عہدے کی ضرورت ہوتی۔ اور یہ چند ماہ مختلف قریب آنے والے بندوں کو آزماتيں پھر کسی ایک کے قریب ہوتیں۔۔ لیکن ان کو بیوی کا درجہ نہ ملتا۔ بلکہ یہ بیوی سے علیحدہ صرف معاشرے میں مرد کے اختیارات اور نام و نمود کا حصہ ہوتیں۔۔ اس سے مرد کے معاشی طور پر مضبوط ہونے کا پتہ چلتا کہ اس کا تعلق اس طبقہ کی کس خاتون سے ہے۔ اور اس وقت اس کی معاشرے بلکہ سچ پوچھیں تو ( مارکیٹ ویلو) کیا ہے۔ اور اس پر مرد حضرات رشک کرتے۔ بادشاہ نواب اور دیگر امراء ان خواتین کو اپنے رکھ رکھاؤ اور ادب و آداب کے باعث اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے بھی اکثر ذمہ داری سونپتے۔ مغل دور کے ہندوستان میں اس طبقہ کو "طوائف" کہا جاتا تھا۔ جس کا کام جسم فروشی قطعی نہیں تھا البتہ جس پر فدا ہو جاتیں اسے کنگال کر کے رکھ دیتیں۔ بنیادی طور پر یہ انتہائی مہذب، باادب اور رقص و سرور اور اعلی درجے کی شہری ہوتیں۔ انہیں سیکس ورکر تو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا تھا مگر یہ کسی کی بیوی بھی نہیں بنتی تھیں۔۔ ان کے زیر سرپرستی چھوٹے طبقہ کی خواتین جنسی کاروبار کرتیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے چوتھے طبقے سے شروع کر کے دوسرے طبقہ تک بات کر دی مگر پہلے طبقہ خواتین کی طرف نہیں آیا۔۔ اس اول طبقہ کو سمجھنے کے لئے آپ کو امریکہ یا کسی بھی جدید معاشرے کی "خاتون اول" کو سمجھنا ہو گا۔ ہر بادشاہ، وزیر ،جاگیر دار اور امیر شخص کو معاشرے میں ایک خاتون اول رکھنے کا اختیار تھا اور اس کے بعد آج کل ایک اصطلاح جو صرف دوسرے طبقہ کے لئے جدید مغرب میں استعمال کی جاتی ہے اسے Courtesan کہا جاتا ہے۔ یا suger baby,یہ وہ خواتین ہیں جو کسی بھی ادارے سے منسلک ہو ںمگر آپ کے ساتھ بغیر شادی رہیں گی ۔ ان کے تمام اخراجات ناز ونخرہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ لیکن خاتون اول کی برابری کوئی دوسری عورت نہیں کر سکتی۔ آپ آج کے معاشرے میں اگر غور کریں تو امیر کبیر ،کاروباری حضرات، صدور، وزرائے اعظم کی بیویاں جنہیں مغرب خاتون اول کہتا ہے اس معاشرے کی عکاس ہیں جہاں اول،دوئم سوئم اور چہارم کا فرق موجود ہے۔ قدیم زمانے میں شہزادیاں، ملکہ یا وہ خواتین جو کسی کی نکاح میں ہوتیں طبقہ اول کہلاتا ان کا کسی دوسرے شخص سے تعلق یا آشنائ قابل تعزیر جرم تھا۔ جس کی سزا موت ہو سکتی تھی۔ ان خواتین پر پردہ لازم تھا ۔ آپ اگر آج Google پر veil یعنی (نقاب) کو ٹائپ کریں تو وہ آپ کو یہ بتائے گا کہ یہ نقاب ہر معاشرے کی پاکیزہ اور حیا دار خواتین جو خواتین اول تھیں پر لازم تھا کہ وہ اسے یعنی نقاب کریں ، اور یہ بھی قانون تھا کہ یہ کس سے پردہ کریں گی اور کس سے انہیں پردہ نہ کرنے کی اجازت ہے۔ اسلام جس زمانے میں طلوع ہوا اس نے خاتون اول کا فرق ختم کر کے اپنے مکمل معاشرے میں عورت کو عزتدار کر دیا اور غلام خواتین کے بعد معاشرے کی آزاد عورت کو ( المحصنات) کہہ کر مخاطب کیا۔ اور تمام طبقات کا فرق ختم کرنے کو ( المحصنات) کی تمیز کو کچھ یوں واضح کیايَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩﴾...سورۃ الاحزاب''اے نبیؐ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔''

قدیم عرب میں غلام خواتین اپنے چہرے اور جسم یعنی سینے کو ظاہر کرتیں اور مخصوص قسم کا بناؤ سنگھار کرتيں تاکہ پہچان ہو۔۔ ان کے دیکھا دیکھی نئی بچیاں بھی بعض اوقات ان کی طرح اپنے آپ کو سجھا سنوار لیتیں۔۔ لیکن جب اسلام آیا تو اس نے اپنی غلام اور باندیوں سے بھی یہ پیشہ نہ کرانے پر واضح حکم دیا۔۔ اور آزاد خاتون یعنی (المحصنات) کو باندیوں اور غلاموں سے ممتاز کرنے کو انہیں پردہ کا حکم دیا۔ صرف اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کے معاشرے کی ہر بہو،بیٹی معاشرت کی خاتون اول ہے۔۔ اس حد تک کہ اگر غلام خاتون بھی پردہ کرنا چاہے گی تو اس کا مالک اسے منع نہیں کر سکتا۔

دنیا بھر کے ہر معاشرے کی خواتین اول یا ان کمائی اولاد tik tok پر وہ ادھم نہیں مچاتے جو ہمارے مسلمان معاشرے کی ہر گھر کی خاتون اول ،بیٹی ،بہن اور بیوی کر رہی ہیں۔ جب مجھے 1993 میں جاپان جانے کا اتفاق ہوا تب پاکستان میں نیا نیا میکدونلڈ کلچر آیا تھا۔ اور بڑے بڑے رئیس زادے اور خواتین اول اپنی امارت کے اظہار کی خاطر میکدونلڈ میں کھانا فرض سمجھتے تھے۔ مجھے جاپان جا کر حیرت ہوئی جب مجھے پتا چلا کہ یہاں میکدونلڈ غریب اور مزدور طبقہ استعمال کرتا ہے تاکہ سستے ترین طریقے سے زندگی گزارے۔ وہاں قطاروں میں کھڑے ہو کر کھانا لیا جاتا۔ جبکہ خواتین اول کبھی بھی ان قطاروں کا حصہ نہیں رہیں۔۔ آج ماحول مختلف ہے۔ وہی حال tik tok کا ہے ۔۔ یہ وہاں کے نچلے طبقے کے مشاغل تھے جنہیں ہم نے اپنی پاک بیٹیوں اور بہنوں کو دنیا کو ناچتے دکھانے،فضول مذاق کرنے اور اپنی بہو بیٹیوں کے فالوورز بڑھانے کو اپنے معاشرے میں ایک تہذیب بنا لیا ہے۔ یہ جو قدیم خواتین کے طبقاتی نام ہیں ہو سکتا ہے ان میں سب ایسی نہ ہوں مگر آج ان میں مذاق میں بھی جانے والی خاتون کو اس طبقہ کا حصہ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج سے 50 سال بعد یا دو صدیوں بعد tik toker ایک ایسے طبقے کا نام ہو جیسے آج ہم کنجر کسی قبیلہ کو نہیں چند عادتوں کو کہتے ہیں گشتے ایک قبیلہ تھا لیکن آج اسے ایک بڑا کام کرنے والے سمجھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کل ایک کمتر ،جسم فروشی اور معاشی طور پر کنجر طبقے کوtik toker کے نام سے جانا جائے۔۔ جبکہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی معاشرے کی ہر عورت کو خاتون اول بنانا چاہتے ہی۔۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو خاتون جنت صرف اس لئے قرار فرمایا کہ رہتی دنیا تک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کائنات کی خواتین کا رول ماڈل ہوں۔

جنہوں نے بوقت وفات اپنے خاوند نامدار سے ارشاد فرمایا تھا کہ" میرے جنازے کو رات میں اٹھانا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔"