سماجيات
گمنام اور مشہور ہونا
مترجم ، توقير بھملہ
ایک زمانے میں چارلی چیپلن اپنی شہرت کی انتہا پر تھا۔ دنیا اسے اُس کی مخصوص مونچھوں، بوسیدہ سیاہ سوٹ، ہیٹ اور چھڑی کی وجہ سے پہچانتی تھی۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص اُن چیزوں کے بغیر حقیقی زندگی میں کیسا دکھتا ہے۔ایک دن وہ سڑک پر چل رہا تھا کہ ایک تھیٹر کے باہر اُس نے ایک اشتہار دیکھا،چارلی چیپلن کی نقل کرنے کا مقابلہ!سو اُس نے سوچا کیوں نہ خود حصہ لے لیا جائے؟ اندر گیا فرضی نام لکھوایا، اداکاری کے لیے کپڑے پہنے، اسٹیج پر چڑھ کر وہی مخصوص کردار ادا کیا، اور نتائج کا انتظار کرنے لگا۔ جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ اصلی چارلی چیپلن… پانچویں نمبر پر آیا ہے!یہی تو زندگی ہے جب آپ گمنام ہوں، تو زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر احمد خالد توفیق کہتے ہیں کہ ،میں کوئی بہت مشہور تو نہیں، لیکن اتنی سی شہرت ضرور حاصل کرلی ہے کہ میری تحریر جہاں جہاں پہنچتی ہے وہاں کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ بس ذرا سا غرور ہوا تو سوچا، کیوں نہ کسی فرضی نام سے لکھا جائے؟
یوں میں بن گیا سید الششتماوی۔ایک مختصر کہانی لکھی سید الششتماوی کے نام سے آن لائن میگزین کو بھیجی۔ اگلے دن وہ شائع ہوئی اور سید الششتماوی پر تبصرے شروع ہوگئے۔کسی نے کہا، یہ صفائی والا معلوم ہوتا ہے، بس قلم پکڑ لیا اور خود ساختہ ادیب نے بے ہودہ کہانی لکھ ڈالی!دوسرے نے کہا، نہ قواعد سے آشنائی نہ زبان میں جان، نہ کہانی میں دم، تخیل تو بالکل مردہ ہے!غرض توہین آمیز تبصروں کی بھرمار تھی، مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک قاری نے مشورہ دیا:سید الششتماوی صاحب، کبھی ڈاکٹر احمد خالد توفیق کی کہانیاں پڑھیے،تب پتا چلے گا کہ تحریر کا اسلوب کیا ہوتا ہے، چاشنی کیا ہوتی ہے اور ایسی کہانی جو قارئین کو سحر زدہ کرتے ہوئے آخری لفظ تک توجہ بھٹکنے نہ دے کیسے لکھی جاتی ہے!میں نے ہنستے ہوئے سوچا، جب آپ گمنام ہوں، آپ کی بہترین تحریر بھی معمولی لگتی ہے،اور جب آپ مشہور ہوں، تو آپ کی معمولی بات بھی دانشمندی لگتی ہے۔