اپنی اولاد كے ليے موكل اور دوسروں كے ليےتوكل

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : دسمبر 2025

سماجيات

قول و فعل كا تضاد

اپنی اولاد كے ليے موكل اور دوسروں كے ليےتوكل كی تعليم

طفيل ہاشمی

اب تو حالات بہت بدل گئے ہیں ایک زمانہ تھا کہ بالعموم دینی مدارس میں اگر یہ پتہ چل جاتا کہ کوئی طالب علم چوری چھپے کسی رسمی امتحان کی تیاری کر رہا ہے یا کسی نے کوئی امتحان دے دیا ہے تو اسے بیک بینی و دو گوش مدرسے سے خارج کر دیا جاتا تھا اگرچہ اس دور میں بھی کچھ مدارس ایسے تھے جن میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی. مثلا میں نے جامعہ اشرفیہ میں دورہ حدیث کے دوران میٹرک کی تیاری کی اور اس کے فورا بعد امتحان دے دیا اس طرح کچھ اور مدارس میں بھی ایسی پابندیاں نہیں تھیں بالخصوص کچھ مدارس ایسے تھے کہ جن کے مہتمم خود کسی حد تک رسمی تعلیم کے حامل تھے(مولانا نذیر احمد، بانی جامعہ امدادیہ) اور اپنے ادارے کے بچوں کو اس سے روکتے نہیں تھے بشرطیکہ مدرسے کی اصل تعلیم میں کوئی رخنہ اندازی نہ ہو لیکن جب میں نے وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان کو یہ پروپوزل دی کہ اپ کے مدارس کے بچوں کو ہم اوپن یونیورسٹی سے چند ایسے کورسز کروا کر جو مدارس میں نہیں پڑھائے جاتے اور ان کا امتحان لے کر یونیورسٹی سے میٹرک ایف اے بی اے ایم اے کی ڈگری دینے کے لیے تیار ہیں تو انہوں نے ہمارے ساتھ تحریری معاہدہ کرنے کے بعد مدارس کو منع کر دیا کہ کوئی مدرسہ کسی بچے کو اوپن یونیورسٹی کے پروگرام میں نہ بھیجے اس کے بعد میں نے بہت دفعہ مولانا سلیم اللہ خان سے یہ جملہ سنا ہے کہ ہم نے اپنے طلبہ کو مسیتڑ بنانا ہے مسیتڑ کا لفظ وہ ہمیشہ کہتے تھے مسیتڑ بنانا ہے لیکن مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب انہوں نے اپنے بیٹے عادل خان کو مسیتڑ بنانے کے بجائے پی ایچ ڈی بنا دیا اسی طرح جامعہ کراچی کے منتظمین وفاق المدارس کی اسناد کو حکومتی ڈگریوں کے مساوی قرار دینے کے بہت خلاف تھے لیکن انہوں نے اپنی تمام اولاد کو ہر طرح کی ڈگریاں دلا کر ان کو بینکوں میں ایسی جگہوں پر ایڈجسٹ کر دیا جہاں شاید وہ ملینز میں مشاہرہ لیتے ہیں. ایک بار ملتان جانے کا اتفاق ہوا تو مولانا حنیف جالندھری نے مجھے خیر المدارس کا تفصیلی دورہ کرایا اور اس کے بعد اپنے ایک انگلش میڈیم سکول کا وزٹ بھی کروایا جس میں ان کےبچے بھی انگلش میڈیم میں پڑھتے تھے اور ان کے لیے سب کچھ اسی طرح تھا جیسے کسی موسٹ ماڈرن انگلش میڈیم سکول میں ہوتا ہے یہ سب کیا تھا اج بھی دینی مدارس کے فضلاء کو توکل کا وہ درس دیا جاتا ہے جس کا کوئی مفہوم اسلامی ادبیات میں نہیں ہے لیکن اپنی اولاد کے لیے ہر طرح کے مناصب اور مقامات حاصل کرنے کے لیے تگ و دو جاری رہتی ہے. سامنے کی بات ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم جلوس کے لیے سارے ملک کے نوجوانوں کو، مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کو لے کر اسلام اباد پر چڑھائی کر دیتے ہیں جب اس کے بدلے میں کوئی عہدہ، کوئی منصب، کوئی اقتدار میں شراکت کچھ بھی ملنے کا موقع ہو تو صرف اور صرف حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی اولاد کو ہی یاد رکھا جاتا ہے. اگرچہ دوسری سیاسی جماعتوں میں اس سے بھی برا حال ہے لیکن وہ یہ کام اسلام کے نام پر نہیں کرتے جبکہ اسلامی جماعت یہ کہتی ہیں کہ وراثت تو قران کا حکم ہے اور اس کے لئے وورث سلیمان داؤد کی ایت پڑھتے ہیں.