قرآنيات
مسجد ضرار
ابوالکلام آزاد
قران پاک سورۃ التوبہ آيت ۱۰۷ میں اس کا ذکر آیا ہے اس كی جو تشریح مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں کی ہے وہ یہاں نقل کی جا رہی ہے۔
پیغمبر اسلام جب مدینہ آئے تو پہلے قبا نامی مقام میں قیام فرمایا یہاں آپ کے حکم سے ایک مسجد تعمیر ہوئی جو عہد اسلام کی پہلی مسجد ہے۔ بعض منافقوں نے جس کی تعداد بعض روایات سے بارہ ثابت ہوتی ہے اسی مسجد کے ساتھ ایک نئی مسجد تعمیر کی۔ اورپیغمبر اسلام تبوک کے لئے نکل رہے تھے تو آپ کی خدمت میں آ کر عرض کیا ایک دن وہاں آ کر نماز پڑھا دیجئے۔ آپ نے فرمایا ابھی تو سفر در پیش ہے واپسی پر دیکھا جائے گا پھر جب آپ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو یہ آيت نازل ہوئی اور اللہ نے بانیانِِ مسجد کے منافقانہ مقاصد سے آپ کو مطلع کر دیا۔ آپ نے فوراً حکم دیا کہ یہ مسجد گرادی جائے چنانچہ قبل اس کے کہ مدینہ پہنچیں، مسجد مُنہدم کر دی گئی تھی۔
اس آيت میں مسجد بنانے کے چار مقاصد بیان کئے ہیں:
{ا}۔ "ضرار" یعنے ان کا مطلب یہ ہے کہ قبا کے مُخلص مومنوں کو نقصان پہنچائیں کیونکہ مسجد قبا کی وجہ سے اُنہیں ایک خاص عزِّت حاصل ہو گئی ہے، یہ حسد و عناد سے چاہتے ہیں، ان کی یہ خصوصیت باقی نہ رہے۔
{ب} "وکفراً" کفر کے مقاصد پورے ہوں یعنے اپنی الگ مسجد ہو جائیگی تو مسجد قُبا میں نماز کے لئے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہیگی اور اس طرح نماز ترک کرنے کا موقع مل جائے گا۔ کیونکہ لوگ سمجھیں گے اُنہوں نے اپنی مسجد میں نماز پڑھ لی۔ یہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ترکِ نماز کی حالت ایک ایسی حالت ہے جسے قرآن "کُفر" کی حالت سے تعبیر کرتا ہے نیز معلوم ہوا کہ نیک کاموں کا نیک ہونا مقصد و نیت پر موقوف ہے ورنہ مسجد بنانے جیسا نیک کام بھی کفر کے لئے ہو جا سکتا ہے۔
{ج} "و تفریقاً بین للمومنین" مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے کیونکہ قبا کی تمام آبادی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتی تھی اب بالکل اس کے پاس دُوسری مسجد بنے گی تو جماعت بٹ جائےگی۔ کُچھ لوگ پچھلی مسجد میں جائیں گے کُچھ نئی میں۔ اور جب ایک جماعت نہ رہی تو مسلمانوں کے باہمی اجتماع و تعارف کا وہ مقصد بھی فوت ہو گیا جو قیامِ جماعت کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسجد اگر موجود ہو تو بلا ضرورت دوسری مسجد اس کے قریب تعمیر کرنا جائز نہیں، کیونکہ ایسا کرنا "تفریقاً بین المومنین" ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام آئمہ اسلام نے اتفاق کیا کہ ہر شہر میں جمعہ کی جماعت ایک ہی جگہ ہونی چاہیے اور اگر آبادی اتنی زیادہ ہو جائے کہ ایک جگہ کافی نہ ہو تو پھر بقدر ضرورت ایك سے زیادہ مساجد میں جمعہ قائم کیا جائے۔ یہ نہیں کرنا چاہیے کہ بلا ضرورت بہت سی مسجدیں تعمیر کر دی جائیں اور ہر مسجد میں جمعہ شروع کر دیاجائے۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے یہ صریح حُکم قرآنی پس پشت ڈال دیا اور محض ریا کاری اور نام و نمود کے لئے یا کسی سابق مسجد اور اس کے مہتمموں کو نقصان پہنچانے کے لئے بکثرت مسجدیں ہر شہر و قریہ میں تعمیر کر دیں اور روز بروز تعمیر کرتے جا رہے ہيں۔ اگر ان کی تعمیر کے حالات و مقاصد کا تفحّص کیا جائے تو بڑی تعداد ٹھیک ٹھیک مسجد ضرار کی سی مسجدیں ثابت ہوں گی مگر کوئی نہیں جو اس فساد سے لوگوں کو روکے بلکہ خود علماء و مشائخ اپنے شخصی انتفاع و ترفع کے لئے اس مفسدانہ فعل کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور اپنے معتقدوں کو تعمیر مسجد کے بے محل ثواب سُنا سُنا کر مزید ترغیبیں دیتے ہیں چنانچہ مسلمانوں کی تفریق و انتشار کا ایک بڑا باعث مسجدوں کا وجود بھی ہو گیا ہے۔ ایک ہی محلہ میں چار چار پانچ پانچ جگہ جماعتیں ہوتی ہیں ایک ہی رقبہ میں بلا ضرورت ایک سے زیادہ جگہ جمعہ پڑھایا جاتا ہے پھر صرف اتنے ہی پر قدمِ فساد نہیں رُکا، بلکہ عیدین کی جماعتیں بھی مسجدوں میں ہونے لگی ہیں حالانکہ ایسا کرنا صریح سنت مُستمرہ کے خلاف ہے اور اجتماع ضدیں کا مقصدِ عظیم ضائع کر دینا ہے۔
د "وامھاداً لمن حارب اللہ و رسولہ من قبل" اللہ اور اس کے رسول سے جس نے جنگ کی اس کے لئے ایک کمین گاہ پیدا کردی جائے یا اس کے انتظار و توقع میں پہلے سے ایک جگہ بنا دی جائے یعنے دُشمنانِ اسلام کے لئے جن سے یہ لوگ ساز باز رکھتے ہیں ٹکنے کی جگہ پیدا ہو جائے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں قبیلہء خزرج کا ایک آدمی ابو عامر راہب تھا جو ظہور اسلام سے پہلے عیسائی ہو گیا تھا۔ جب پیغمبر اسلام مدینہ تشریف لائے تو کلمئہ اسلام کا عروج اس پر شاق گُزرا اور اسلام کے خلاف سازشوں میں سر گرم ہو گیا پہلے قریش مکہ کا ساتھ دیا پھر شہنساہ قُسطنطنیہ کے پاس پُہنچا اور اُسے مُسلمانوں پر حملہ کی ترغیب دی۔ قُبا کے بعض منافقین میں اور اس میں قدیم سے رسم و راہ تھی، یہ اُنہیں اسلام کے خلاف اُکستاتا رہتا اور رومیوں کے حملہ کا یقین دلاتا۔ یہاں "لمن حارب اللہ و رسولہ" میں اسی طرف اشارہ ہے۔
اس سورت میں منافقوں کے لئے حسب ذیل احکام دئے گئے ہیں:
الف، ایسے لوگوں کا انفاق نہ قبول کیا جائے{آيت ۸۳} اس سے معلوم ہوا کہ جو افراد جماعت کے مقاصد کو نُقصان پُہنچائیں ، امام کو چاہیے ، انکی مالی اعانات قبول کرنے سے انکار کردے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا مال قبول کرنا اُنہیں بد عملیوں اور شرارتوں پر جُرأت دلانا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ، ہم روپیہ خرچ کر کے اپنے منافقانہ اعمال کی پردہ پوشی کرتے رہیں گے۔
ب۔ صاف صاف کہ دیا کہ یہ لوگ بھی معاندوں کی طرح نجات اُخروی سے محروم رہیں گےاگرچہ اپنے کو مومن سمجھتے ہیں۔{آئت ۶۸}
ج۔ منافقوں سے بھی جہاد کرنے کا حُکم دیا گیا{آئت ۷۳} اس سورت کے دیگر احکام و مواعظ کی طرح اس حُکم کا تعلق بھی آئیندہ پیش آنیوالے واقعات سے تھا چنانچہ جب پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد فتنہ نفاق نے سر اُٹھایا اور مُتعدد قبائل نے زکٰوۃ دینے سے انکار کر دیا تو صحابہ کرام نے اس حُکم کی تعمیل کی اور ان سے قتال کرنے پر مُتفق ہو گئے۔
د۔ اشرار منافقین کی نسبت فرمایا جو ان میں سے بغیر توبہ کئے مرجائیں گے وہ کبھی بخشے نہیں جائیں گے اگرچہ خود پیغمبر اسلام بھی انکے لئے مغفرت كی دُعا فرمائیں{آئت ۸۰} سورۃ منافقون میں فرمایا تھا "سواء علیھم، استغفرلھم"{۶:۶۳} تم ان کے لئے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو ، دونوں حالتیں ان کے لئے یکساں ہیں وہ بخشے جانے والے نہیں۔ یہاں یہی بات زیادہ زور دے کر کہی گئی ہے کہ "ان تستغفرلھم سبعین مرۃ" تم ستر مرتبہ { یعنی سینکڑوں مرتبہ} ہی کیوں دعاءِ مغفرت کرو مگر بخشے جانے والے نہیں۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب عبداللہ بن اُبّی کا انتقال ہوا تواُس کے لڑکے نے آپ سے درخواست کی کہ کفن کے لئے اپنا پیراہن عطا فرمائِیں اور نماز جنازہ پڑھا دیں اور آپ نے درخواست منظور کر لی۔ حضرت عُمررضی اللہ عنہ پر یہ بات شاق گُذری تھی۔مگر آپ نے فرمایا " لو اعلم انی ان زدت علی السبعین غفرلہ، لزدت علیھا{بُخاری و الجماعۃ} اس حدیث اور آئت مندرجہ صدر کی تطبیق میں مفسرین کو مُشکلات پیش آئی ہیں لیکن فی الحقیقت معاملہ بالکل واضح ہے اور تشریح اس کی سورۃمنافقون کے نوٹ میں ملے گی۔
د۔ جن منافقوں نے اس موقع پر شرکت نہ کی، آئیندہ اگر وہ كسی ایسے کام میں شریک ہونا چاہیں، تو صاف انکار کر دیا جائے اور اُنہیں شریک نہ کیا جائے۔{آئت ۸۳}
ڈ۔ ان ميں سے جو کوئی بغیر توبہ کئے مر جائے، پیغمبر اسلام اس کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور نہ حسب معمول دعا مانگیں{آئت ۸۴} حضرت حذیفہ کی ایک روائت سے معلوم ہوتا ہے ، یہ حُکم خاص خاص منافقوں کے لئے ہوا تھا اور آنحضرت نے اُن کے نام بتلا دئے تھے۔ جُبیر بن مُطعم سے مروی ہے کہ یہ بارہ آدمی تھے{فتح الباری}
ز۔ اگر یہ لوگ معذرت کریں تو صاف صاف کہ دیا جائے کہ اب تمہاری زبانی معذرتیں نہیں سُنی جائیں گی۔ عمل دیکھا جائے گا۔ آئیندہ اگر تُمہارے اعمال سے اخلاص ثابت ہوا ، تو سمجھا جائیگا کہ تائب ہو گئے، نہیں تو منافق مُتصوّر ہو گے۔{آئت ۹۴}
ح۔ مسلمانوں کو حُکم ہوا، ان سے گردن موڑ لو یعنی ان سے ربط ضبط نہ رکھو{آئت ۹۵}
اس باب میں بے شمار امور تفصیل طلب ہیں اور مُباحث تفسیر و حدیث کے متعدد مقامات ہیں جن کی وضاحت و تحقیق ضروری ہے لیکن مزید تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔
نوٹ: افسوس یہ تفسیر جس کا مولانا نے یہاں ذکر کیا ہے نہ لکھی جا سکی اور اگر لکھی گئی تو منظر عام پر نہیں آئی۔