قرآن متقين كے ليے ہدايت ہے تو باقی كيا كريں

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : جون 2025

قرآنيات

قرآن متقين كے ليے ہدايت ہے تو باقی كيا كريں

رضوا ن خالد

محترمہ روبینہ شاہین صاحبہ لکھتی ہیں؛ قرآن کہتا ہے ھدی للمتقین; یعنی یہ(کتاب) متقین کے لئے ہدایت ہے-وہ کہتی ہیں کہ اس آیت کو پڑھ کر ذہن میں سوال آتا ہے کہ متقی ہو جانا ہی تو ہدایت ہے، پھر جو متقی ہو چکا اس کو کتاب کیا ہدایت دے گی؟ اور اگر کتاب نے متقین کو ہی ہدایت دینی ہے، تو غیر متقی جن کو ہدایت کی حقیقی ضرورت ہے، ان کا کیا ہو گا؟وہ مزید کہتی ہیں کہ خدا وہ ہے جو عہد الست لیتا ہے، انسان کو وہ عہد بھلا دیتا ہے، زمین پر امتحان کے لئے بھیجتا ہے، شیطان کو ورغلانے کی چھوٹ دیتا ہے، اتمام حجت کے لئے انسان کی ہدایت کا بندوبست کرتا ہے، نبی بھیجتا ہے، کتابیں اتارتا ہے۔انکا سوال یہ ہے کہ ایک غیر متقی شخص کے سامنے شیطان تو اپنی پوری آن بان سے کھڑا ہے، کتاب کی ہدایت صرف متقین کے لئے ہے، تو بھئی غیر متقی سے سوال کس بات کا ہو گا؟ جس کی ہدایت سے خدا کے کلام نے بھی ہاتھ اٹھا لیا، جس کو کلام خدا کمزور بھی کہتا ہے، جس کے سامنے شیطان بھی تمام قوت کے ساتھ کھڑا ہے، اس شخص سے سوال کس بنیاد پر ہو گا؟

وہ کہتی ہیں کہ اگر ہدایت صرف متقین کے لئے ہے، غیر متقین کے لئے جہنم کے علاوہ کیا ہے؟دیکھیے محترمہ، سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ تقوی اور ہدایت ایک چیز نہیں۔

تقوی اس احساس کا نام ہے کہ کوئی پیدا کرنے والا موجود بھی ہے اسکی میرے معاملات اور زندگی پر نظر بھی ہے اور پیدا کرنے والا میری موت کے بعد مجھ سے زندگی کا حساب بھی لے گا۔ یہ احساس حاصل ہو گا ہی نہیں اگر بندہ ایمان کی پہلی سیڑھی کا پہلا زینہ نہ چڑھ جائے۔ اسے اس زینے پر لانے کے لیے ہی قرآن غیرھدایت یافتہ افراد کو نشانیاں فراہم کرتا ہے، ان نشانیوں پر ویلیو فری غور فکر سے ہر غیر متعصب انسان کو یہ بنیادی احساس ضرور مل جاتا ہے لیکن اس زینے پر پہنچنے کے بعد بھی اسے پوری زندگی گزارنی ہے اور اپنے معاملات سے متعلقہ ہدایت تو اسے قدم قدم پر چاہیے ہو گی۔ اب قرآن سے اسکا مستقل مکالمہ اسے ان روزمرہ معاملات سے متعلق ہدایت پر رہنے میں مدد دے گا اور یہ آیت اسی مستقل ہدایت سے متعلق ہے۔

آپ فرض کیجیے میں ایک دہریہ ہوں، یعنی متقی نہیں ہوں، تو قرآن سے مکالمہ اور اسمیں موجود نشانیوں پر غور و فکر مجھ پر بس یہ باور کروائے گا کہ ضرور مجھے بنانے والا کوئی ہے اور وہ جو بھی ہے یہ کلام اسی کا  ہے اور اس كے ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے، یہ احساس غالب آتے ہی میں دہریہ نہیں رہا کیونکہ یہ ایمان کی پہلی سٹیج ہے۔ ممکن ہے میں مزید غور و فکر نہ کروں اور یہ مانتے ہوئے یہیں رک جاؤں کہ خدا موجود بھی ہے اسنے میرے لیے کچھ کلام بھی کیا ہے-اس سٹیج پر البتہ میں متقی نہیں ہوں لیکن پھر بھی قرآن کی نشانیوں پر کچھ غور نے میری دہریت کو چٹخا دیا ہے لیکن ہدایت کی بات کی جائے تو وہ ایک ایسی حالت کا نام ہے جسمیں کوئی شخص اپنے مقصد زندگی پر تیزی سے گامزن ہوتا ہے، وہاں تو میں اس احساس کے ملنے کے باوجود نہیں پہنچا ہوں کہ مجھے پیدا کرنے والا موجود بھی ہے اسکا کوئی کلام بھی ہے جو مجھے مدد دے سکتا ہے۔ اس سٹیج پر اگر میں قرآن سے مکالمہ جاری رکھوں تو بالآخر تقوی نامی احساس کو پا لوں گا جس کے تحت رہتے ہوئے اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس مجھ پر غالب رہنے لگے گا، اس کیفیت کو جس میں جوابدہی کا یہ احساس نفسیات پر غالب ہو تقوی کہتے ہیں اور جب میں اس سٹیٹ آف مائنڈ کے تحت قرآن کو پڑھونگا تو قرآن ضرور ایسی طاقت میرے شامل حال کر دے گا کہ جس کے تحت مقصد زندگی سے ہٹنے کا میرا امکان کم سے کم ہو جائے گا۔

زندگی کا ایسا سفر جس میں بندہ بغیر کوئی بہت بڑی غلطی کیے مقصد زندگی کے حصول کی طرف بڑھتا ہے ھدایت کہلاتا ہے۔آپ نے عہد الست بھلانے کی بات کی، ہم سب یہاں تک کہ دہریوں تک کے لاشعور میں موجود یہ احساس کہ ہمیں بنانے والا ضرور کوئی ہونا چاہیے، ہماری زندگی کا کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے، ہم اچانک کہیں سے آ موجود ہوئے تو کہیں آگے بھی ہماری کوئی منزل ہونی چاہیے اور ایسے سب احساسات اسی عہد الست کا شاخسانہ ہیں۔ تبھی بظائر دہریے بھی شدید مشکل میں کسی انجانے سے دعا کرتے نظر آتے ہیں۔شیطان ہمیں بہکانے میں جتنا بھی آزاد ہو ہمارے اس لاشعوری احساس کو نہیں دبا سکتا۔ اب واپس آپکے بنیادی مدعے کی طرف آتے ہیں، ھدی للمتقین; سے آپکا یہ اعتراض کہ یہ(کتاب) صرف متقین کے لئے ہدایت کیوں ہے ایمان کی سٹیجز سے متعلق کنفیوژن کے باعث پیدا ہوا۔ آپ نے اس سے یہ مطلب کیوں نہیں لیا کہ اللہ آپکو ایمان کی بنیادی سٹیج سے اوپر کی اس سٹیج پر لانا چاہتا ہے جہاں آپ متقین میں شامل ہو کر اس کتاب سے صرف اللہ کی نشانیاں ہی نہیں پائیں گی بلکہ مستقل ہدایت اور اللہ کی مسلسل رہنمائی آپکے شامل حال ہو جائے گی۔ ورنہ بنیادی روشنی سے تو یہ کتاب دہریے اور غیرمتقی کو بھی نواز دیتی ہے، آپکے الفاظ میں کہوں تو اسمیں دیے گئے ثبوت اور نشانیاں دہریوں کے بھی لاشعور میں موجود عہد الست کے سبق کو تحریک دیتی ہیں۔ اس سے اگلا کام انسانوں کو خود کرنا ہوتا ہے، یعنی متقی بننا نہ بننا میرا اختیاری معاملہ ہے،

جب میں اپنے اختیار کے ساتھ متقین میں شامل ہونگا تو اللہ میرا ہاتھ پکڑ لے گا۔