قرآنيات
سورۃ یوسف کی چند آیات پر تدبر
ڈاكٹر محمد مشتاق
رمضان میں اللہ تعالیٰ نے جن آیات پر تدبر کی توفیق دی، ان میں ایک سورۃ یوسف کی آیات 70 تا 76 بھی ہیں۔ ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ جب سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی دوسری دفعہ مصر آئے اور ساتھ میں چھوٹے بھائی جناب بن یامین کو بھی لے آئے، تو ان کو رخصت کرتے وقت سیدنا یوسف علیہ السلام نے جناب بن یامین کے سامان میں ایک پیالہ بھی رکھ دیا۔ پھر سرکاری ملازمین نے ان پر چوری کا الزام عائد کیا۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا چیز گم کی ہے، تو انھوں نے کہا کہ بادشاہ کا پیمانہ۔ پھر تلاشی لینے پر جناب بن یامین کے سامان میں سے وہ پیالہ نکال لیا۔ ان آیات میں کئی دلچسپ مباحث ہیں۔ ان پر وقتاً فوقتاً گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن سردست اس سوال پر اپنے نتائجِ تحقیق پیش کرنے ہیں کہ کیا آیت 70 میں مذکور پیالہ اور آیت 72 میں مذکور شاہی پیمانہ ایک ہی چیز ہیں یا دو الگ چیزیں؟
بہت عرصے سے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا اور اس سوال کی ایک وجہ یہ تھی کہ آیت 70 میں ”السقایۃ“ کا لفظ آیا ہے جو مؤنث ہے اور اسی کےلیے آیت 76 میں ضمیر مؤنث استعمال ہوئی ہے: ثم استخرجھا من وعآء أخیہ؛ دوسری طرف آیت 72 میں ”صواع الملک“ کے الفاظ ہیں اور صواع کےلیے ضمیر مذکر ہی آیا ہے: و لمن جآء بہ۔۔۔ من وُجِد فی رحلہ۔۔۔ ان دو مقامات پر ”بہ“ میں ضمیر متصل اور ”وُجِد“ میں ضمیر مستتر مذکر ہیں اور ان کا مرجع ”صواع“ ہی ہے۔ فما جزآؤہ۔۔۔ اور جزآؤہ میں بھی بعض مفسرین کے نزدیک ضمیر مذکر صواع کی طرف راجع ہے، لیکن ان دو مقامات کے متعلق دوسری تاویل بھی ہے۔ اس لیے انھیں نظر انداز بھی کریں، تو پہلے مذکور دو مقامات پر تو بالاتفاق ضمیر مذکر کا مرجع صواع ہے۔ پھر آیت 76 میں ضمیر مؤنث ”استخرجھا“ کیوں استعمال کی گئی؟ اس کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ صواع مذکر بھی ہے اور مؤنث بھی، اس لیے دو (یا چار) مقامات پر اس کےلیے ضمیر مذکر آیا اور یہاں ضمیر مؤنث؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اس ایک مقام پر ہی ضمیر مؤنث کیوں آیا؟ یعنی اس فرق کی حکمت کیا ہے؟عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہاں ضمیر مؤنث سقایہ کی مناسبت سے آیا ہے جس کا ذکر آیت 70 میں گزرا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ ضمیر کا مرجع اتنا دور کیوں ہے جبکہ درمیان صواع بھی اس کا مرجع ہوسکتا ہے؟
چنانچہ میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ کہیں سقایہ اور صواع دو الگ چیزیں تو نہیں ہیں اور معاملہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے سقایہ رکھا ہو اور نوکروں کو صواع ملا ہو؟
جب میں نے اس موضوع پر تفسیری ذخیرہ کھنگالنا شروع کیا تو بیسیوں تفاسیر اور دسیوں لغات اور ان کے علاوہ متعدد دیگر کتب میں متعلقہ مقامات پڑھ چکنے کے بعد کہیں بھی یہ بات نہیں ملی کہ سقایہ اور صواع دو الگ چیزیں تھیں، سوائے ایک تفسیر کے، جو بیسویں صدی عیسوی میں اردو میں لکھی گئی۔مولانا وحید الدین خاں نے ان دو کو الگ الگ سمجھا اور اپنی تفسیر تذکیر القرآن میں واقعے کی نوعیت اسی طرح بتائی جیسے میں نے چند سطور اوپر لکھی ہے۔ تاہم تنہا مولانا کی بات کو دیگر تمام مفسرین اور صدیوں کی علمی روایت کے مقابلے میں لینا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ صدیوں سے ان دونوں کو ایک ہی چیز سمجھا گیا ہے، تفسیری روایت میں بھی اور لغت میں بھی۔ وہ وجہ کیا ہے؟
صواع کو کئی اہلِ علم نے صاع کے ساتھ متعلق سمجھا اور چونکہ صاع ناپنے کا پیمانہ تھا، اس لیے صواع کو بھی ناپنے کا پیمانہ قرار دیا؛ پھر چونکہ صواع کی اضافت بادشاہ کی طرف تھی، تو اسے بادشاہ کے ناپنے کا پیمانہ بھی مان لیا۔ دوسری طرف چونکہ سقایہ اور صواع کو ایک قرار دیا گیا تھا، اس لیے یہ بھی مان لیا گیا کہ یہ دراصل پینے کا برتن تھا، جسے ناپنے کے پیمانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ (اردو میں ویسے بھی ’پیمانہ‘ پینے کا بھی ہوتا ہے اور ناپنے کا بھی۔) پھر چونکہ بائبل اسے چاندی کا برتن قرار دیا گیا تھا اور یہودی روایات میں اس میں موتیوں اور جواہر کا بھی ذکر تھا، اس لیے یہ بھی مان لیا گیا کہ برتن/پیمانہ بہت قیمتی بھی تھا۔ یہاں تک پہنچ کر بعض اہلِ علم نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اتنے قیمتی برتن کو غلہ ناپنے کےلیے کیوں استعمال کیا گیا، لیکن اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ جہاں تک پینے کے برتن کے قیمتی ہونے کا تعلق تھا، اس کےلیے بعض اہلِ علم نے اس سے بھی استدلال کیا کہ قرآن کریم نے اسے معرفہ، السقایہ، کہا ہے، اور یہ اندازہ بھی اس کے حق میں جاتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھائی کے سامان میں قیمتی چیز ہی رکھی ہوگی۔ اسی طرح صواع کی نسبت چونکہ بادشاہ کی طرف کی گئی ہے، اس لیے اس کا قیمتی ہونا بھی یقینی ہے۔ تاہم عام طور پر قائم کیے گئے اس موقف سے بعض مفسرین اور بعض اہلِ لغت نے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا کہ صواع پینے کے برتن کو کہتے ہیں، جبکہ صاع ناپنے کا برتن ہوتا ہے۔ بعض نے یہاں تک تصریح کی کہ جس سے پیا جاتا ہے وہ اس سے الگ چیز ہے جس سے ناپا جاتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ان مفسرین اور اہلِ لغت کے نزدیک سقایہ اور صواع ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اور یہ ایک ہی برتن کے دو نام ذکر کیے گئے ہیں، لیکن صواع اور صاع الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس برتن سے غلہ ناپنے کا کام بھی لیا جاتا ہو۔ یہاں تک پہنچ کر نصف مسئلہ تو حل ہوگیا، لیکن یہ سوال باقی رہا کہ ایک ہی برتن کے دو الگ نام ذکر کرنے میں کیا حکمت تھی؟ اس سوال پر سوچنا شروع کیا، تو اللہ تعالیٰ کے کلام سے ایک اور مثال کی طرف ذہن گیا۔ قرآن کریم میں سمندر کےلیے ’بحر‘ کا لفظ بھی آیا ہے اور ’یمّ‘ کا بھی، لیکن یمّ کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، وہاں ذکر مصر، فرعون اور بنی اسرائیل کا ہے۔ کچھ عرصہ اس پر تحقیق کی، تو معلوم ہوا تھا کہ قبطی زبان میں، جو فرعون اور اہلِ مصر کی زبان تھی، سمندر کو یمّ کہتے ہیں۔ گویا قرآن کریم نے یہاں وہ لفظ استعمال کیا جو فرعون اور آلِ فرعون کے ہاں رائج تھا۔ قرآنی بلاغت کے ایسے نمونے بعض دیگر مقامات پر بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں جہاں بنی اسرائیل کے سیاق میں مکہ کا ذکر آیا ہے، وہاں اس کےلیے ’بکہ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ تورات اور زبور میں اسے بکہ کہا گیا ہے، جبکہ قریش کے ساتھ معاملے کے سیاق میں اسے ’مکہ‘ کہا گیا ہے کیونکہ ان کے ہاں مکہ کا لفظ ہی رائج تھا۔
تو کیا ’صواع‘ قبطی زبان کا لفظ ہے کیونکہ یہ لفظ مصری اہلکاروں کے کلام میں آیا ہے؟
یہ سوال ذہن میں ابھرا، تو اگلے مراحل بہت آسان ہوئے۔ معلوم ہوا کہ قبطی زبان میں ’صوع‘ پینے کو اور ’صواع‘ پینے کے برتن کو کہتے ہیں۔ گویا سقایہ اور صواع واقعی ایک ہی برتن کے دو نام تھے۔ اس کے بعد لغت کی کتابوں میں صوع اور صواع کے علاوہ صوغ اور صیاغت تک کئی اور الفاظ بھی سامنے آئے اور کئی نئے دریچے کھل گئے۔ یہ تفصیل کسی اور وقت سہی۔
اس وقت صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمانوں کی علمی روایت اتنی مضبوط اور قابلِ اعتماد ہے کہ یہ ماننا بہت ہی مشکل، بلکہ میرے لیے تو ناممکن، ہے کہ قرآن کے کسی لفظ کا کوئی ایسا مفہوم ہو جو پہلے کسی کی سمجھ میں نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ آج ہم پر اس کا انکشاف ہوا ہو۔ جب مفسرین اور اہلِ لغت کے ہاں کہیں بھی آپ کو سقایہ اور صواع کے متعلق یہ بات نہ ملے کہ یہ دو الگ چیزیں ہیں، تو انھیں ایک ہی مان لینا چاہیے اور اس کے بعد اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایک لفظ اور کہیں دوسرا لفظ کیوں استعمال ہوا؟ اس کے بعد ضمیر مذکر اور ضمیر مؤنث کا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ تحقیق کا شوق رکھنے والوں کو اپنے شوق کے ساتھ ساتھ اپنے ذوق کی بھی فکر کرنی چاہیے اور جب تک مسلمانوں کی علمی روایت میں تائید نہ ملے، قرآن مجید کے متعلق کوئی بات محض اپنی تحقیق کے بل بوتے پر نہیں کرنی چاہیے۔