قرآن دل ميں كيسے اترے

مصنف : محمد اكبر

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : مئی 2025

قرآنيات

قرآن دل ميں كيسے اترے

محمد اكبر

اکثر دوست کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں قرآن کریم ہماری روح کی گہرائیوں میں اترے، دل کی بنجر زمین پر محبت الہی کے قطرے بن کر ٹپکے تاکہ ہم زندہ ہو جائیں، ہمارا دل اور روح زندہ ہو جائے، لیکن ہم قرآن کو سمجھ نہیں پاتے کیونکہ عربی نہیں جانتے ہیں، الفاظ کے معانی سے ناواقف ہیں، ان کے پیچھے چھپے پیغام تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس کےلیے کیا کیا جائے؟

میں ان سے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ دیکھیں مدارس میں آٹھ سالہ عالم دین عربی کورس پڑھنے والوں میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو قرآن کو نہیں سمجھتی، انہیں آیات کا درست مفہوم، مختصر جملوں میں چھپا پیغامِ ہدایت ، فلسفہِ حیات اور روحِ زندگی کا علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے بس اتنا پڑھا ہوتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کو اپنے مذہب و مسلک کےلیے ریفرنس کے طور پر کیسے پیش کرنا ہے اور تفسیر کا امتحان کیسے پاس کرنا ہے، اس سے زیادہ قرآن جیسے بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زن ہو کر موتی ڈھونڈنے کی استعداد نہیں ہوتی۔ تو گویا کہ قرآن میں چھپی زندگی کو تلاش نہ کرنے میں ایک عام بندہ اور آٹھ سالہ عربی کورس پڑھنے والا برابر ہیں۔ اس لیے عام بندہ یہ سوچ کر کبھی بھی پیچھے نہ ہٹے کہ مجھے عربی نہیں آتی یا عربی نہیں پڑھی تو کیسے سمجھوں؟

اب آپ سوال کریں گے کہ عربی پڑھے بغیر ہم کیسے قرآن سمجھیں گے؟

تو جواب یہ ہے کہ قرآن سمجھنے کےلیے عربی ضروری ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ایک اور چیز ضروری ہے جس کے بغیر عربی سمجھنے والا بھی قرآن کو نہیں سمجھ پاتا اور وہ چیز ہے مقصد۔ یاد رکھیں! چاہت اور مقصد میں بڑا فرق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایلون مسک، بل گیٹس، مکیش امبانی کی طرح فل انجوائے منٹ والی لگژری لائف گزاروں ،دنیا میری انگلیوں کے اشاروں پر ناچے۔ میں چاہتا ہوں کہ جیف بیزوس کی طرح ٹاپ ای بزنس کا سی او بن جاؤں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس بوگاٹی لا ووئچر نوئر ، رولز رائس ، فراری ، مرسڈیز جیسی گاڑیاں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ دنیا کا مہنگا ترین آئی فون میرے ہاتھ میں ہوں، مہنگے ترین برینڈ کے کپڑے اور شوز پہنے ہوں، مہنگے ترین اپارٹمنٹ میں رہائش ہو، مہنگی ترین یونیورسٹیوں سے گریجویٹ بنوں۔ اس طرح کی میری ہزاروں چاہتیں ہیں لیکن یہ سب کچھ حاصل کرنے کےلیے جو محنت اور مقصدیت چاہیے، وہ مجھ سے نہیں ہو پاتی۔ جس وقت کوئی بزنس ٹائیکون اپنے کاروبار کی اسٹرٹیجی بنا رہا ہوتا ہے، میں سویا ہوتا ہوں، جس وقت مارکیٹ کا اینالسس کرنا ہوتا ہے، میں فلم دیکھ رہا ہوتا ہوں، جس وقت بزنس میٹنگ کرنی ہوتی ہے، میں موبائل پہ گیم کھیل رہا ہوتا ہوں۔ گویا میں جس مقام پر جانا چاہتا ہوں، اُس کےلیے درکار وقت اور راستے پر صبح و شام کمپرومائز کر دیتا ہوں اور وقت ضائع کر کے غلط راستے پر چل دیتا ہوں تو کیا میری چاہت پوری ہوگی؟ یقینا نہیں۔ بلکہ اس کو مقصد بنانا پڑے گا۔

ایسے ہی ہم قرآن سمجھنے کی صرف چاہت کرتے رہتے ہیں لیکن اسے مقصد نہیں بناتے۔ جب چاہت مقصد کا روپ دھار لے تو سمجھ جائیے کہ کامیابی کی طرف پہلا قدم اٹھ چکا ہے۔ چاہت پر کمپرومائز ہو سکتا ہے، مقصد پر نہیں۔ چاہت کو پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے، مقصد کو نہیں ، چاہت بوسیدہ اور پرانی ہو سکتی ہے، مقصد نہیں، چاہت سخت حالات کی وجہ سے بدل سکتی ہے، مقصد نہیں بدلتا، چاہت کرنے میں محنت نہیں چاہیے، مقصد حاصل کرنے میں پسینہ نکالنا پڑتا ہے۔ چاہت کی خوشی عارضی ہے، مقصد کی خوشی دائمی ہے، چاہت خیالی اور فرضی انسان بناتی ہے، مقصد حقیقی اور یقینی انسان بناتا ہے۔

اگر قرآن سمجھنے کو آپ نے چاہت سے نکل کر مقصدِ زندگی بنا لیا تو یقین کیجیے کہ ایک مہینے میں زندگی کا رخ بدل جائے گا۔ کیونکہ اب دنیا کی ہر مصروفیت قرآن کے بعد ہے۔ اگر ہر روز صرف دس منٹ یا آدھا گھنٹہ بھی قرآن کا ایک لفظ یا جملہ سیکھنے کو مقصد بنایا تو اِس وقت میں ہر مصروفیت کو تیاگ دیں۔ کسی دوست سے رابطہ نہ کریں، دکان بند کر دیں، موبائل بند کر دیں اور قرآن سیکھنے کےلیے جُت جائیں پھر دیکھیں کہ باطن میں کیا انقلاب برپا ہوتا ہے۔ اس کام کےلیے مستقل مزاجی چاہیے۔

جو قرآن سمجھنے کو مقصد بنائے گا ، اُس کے فری اوقات قرآن کے ساتھ گزرنے لگیں گے اور پھر قرآن اس کے سینہ میں اسرار و رموز کا ایک جہاں کھولے گا جس کی ہوائیں اور فضائیں، آبشاریں اور ندیاں، باغیچے اور گلستان اس دنیا سے یکسر مختلف ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب قرآن سمجھنے کو اہمیت دی جائے، کسی چیز کی اہمیت ہی اُس کو مقصد بناتی ہے۔ اگر میرے نزدیک بزنس کی اہمیت ہے تو وہ مقصد بن جائے گا، اگر تعلیم کی اہمیت ہے تو وہ مقصد بن جائے گی ، اگر اللہ کے الفاظ کو سمجھنے کی اہمیت ہوگی تو یہ خود بخود مقصد بن جائے گا۔

اب دیکھیں کہ قرآن کو کیسے مقصد بنایا جاتا ہے اور جب مقصد بن جائے تو پھر کیا ہوتا ہے؟

حضرت اوس بن حذیفہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بنو ثقیف ایک وفد کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آئے تاکہ آپ ﷺ ہمیں دین سکھائیں۔ رسول اللہ ﷺ ہر روز عشاء کے بعد ہمارے درمیان کھڑے ہوتے اور بیان کرتے۔ ایک دن متعین وقت میں رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے، ہم انتظار کرتے رہے۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! آج مقررہ وقت کے بعد آپ تشریف لائے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ہر روز قرآن کا ایک حصہ پڑھتا ہوں (جو شاید آج دن میں زیادہ مصروفیات کی وجہ سے رہ گیا تو) مجھے اچھا نہیں لگا کہ اُسے پڑھے بغیر آپ لوگوں کے پاس آ جاؤں۔ پہلے اسے مکمل کیا اور پھر آپ کے پاس آیا۔( مجمع الزوائد)

آپ ﷺ سے زیادہ مصروف انسان دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ قرآن کا متعین حصہ پڑھے بغیر بھی سو سکتے تھے کہ پورا دن تو قرآن ہی کی خدمت کی ہے لیکن نہیں ۔ جب ایک حصہ پڑھنے کےلیے متعین کر لیا ہے تو اب ہر حال میں پڑھنا ہے۔ یہ ہے مقصدیت کی اعلی مثال۔

اللہ تعالی ہمیں قرآن سمجھنے کو چاہت کے بجائے مقصد بنانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم عملی طور پر اس کی طرف قدم بڑھائیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ پوری زندگی سمجھتے اور عمل کرتے جائیں۔