قرآنيات
قُرآن نے صرف چند (انبیاء کی ) دعوتوں کا کیوں ذکر کیا؟
سورہ ھود کا ایک حاشیہ
ابوالکلام آزاد
اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہے کہ قرآن نے اگرچہ یہاں اور دیگر مقامات میں چند خاص خاص دعوتوں اور قوموں ہی کا ذکر کیا ہے، لیکن اس کا دعویٰ عام ہے، اور اسی پر یہ استدلال مبنی ہے، اُس نے جا بجا یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہدائت وحی کا ظہور جمیعت بشری کا عالمگیر واقعہ ہے، اور کوئی قوم نہیں جس میں اللہ کے کسی رسول کا ظہور نہ ہوا ہو نیز یہ کہ بے شمار قومیں دنیا میں گزر چُکی ہیں جن کا حامل اللہ ہی کو معلوم ہے۔ چنانچہ سورہ یونس کی آئت(47) میں گذر چُکا ہے۔ ولکل امۃ رسول فاذا جاء رسولھم قضیٰ بینھم بالقسط و ھم لا ٰظلمون۔ اور دوسرے مقامات میں فرمایا انما انت مُنذر، و لکل قوم ھاد(7:13) ولقد بعثنا فی کل اُمۃ رسولاً، ان اعبدو اللہ و اجتنبوا الطاغوت(36:16) انا ارسلنک بالحق بشیراً و نذیرا، و ان من امۃ الا خلا فیھا نذیر (24:35) الم یاتکم نبوأ الذین من قبلکم قوم نوح و عاد و ثمود، الذین من بعدھم، لا یعلمھم الا اللہ!(9:14)
لیکن ساتھ ہی اُس نے یہ تصریح بھی کر دی ہے کہ قرآن میں تمام رسولوں کا ذکر نہیں کیا گیا صرف چند کا کیا گیا ہے
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ(سورہ غافر 78)
ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول مبعوث کئے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تمہیں سُنائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیں سُنائے
یہ ظاہر ہے کہ قومیں بے شمار گذر چُکی ہیں، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حسب تصریح قرآن ، ہر قوم میں دعوتِ حق کا ظہور ہوا ہے۔ پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ بے شمار قومیں اور بے شمار دعوتیں ہوئیں، جن میں سے صرف چند ہی کا ذکر قرآن نے کیا ہے باقی کا نہیں کیا۔ قرآن نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ قرآن کا مقصود ان سر گذشتوں کے بیان یہ نہیں تھا کہ تاریخ کی طرح تمام واقعات کا استقصا ٔء کیا جائے بلکہ صرف تذکیر و معظت تھا، اور تذکیر و موعظت کے لئے اس قدر کافی تھا کہ چند دعوتوں اور قوموں کی سر گذشتیں بیان کر دی جائیں۔ اور باقی کے لئے کہہ دیا جائے کہ اُن کا حال بھی انہی پر قیاس کر لو۔ چانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں اُس کا اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے۔ جا بجا اس طرح کی تعبیرات پائی جاتی ہیں کہ پچھلے قرنوں میں ایسا ہوا۔ پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا۔ پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پیش آئے۔ البتہ جہاں کہیں تخصیص کے ساتھ ذکر کیا ہے وہاں صرف چند قوموں ہی کی سرگزشتیں بیان کی ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سر گذشتیں پچھلی قوموں کے ایام و وقائع کا نمونہ سمجھی جائیں ، اور ان سے اندازہ کر لیا جائے کہ اس بارہ میں تمام اقوام عالم کی روئدادیں کیسی رہ چُکی ہیں؟
البتہ کہا جا سکتا ہے کہ کیوں خصوصیت کے ساتھ ان چند قوموں ہی کا ذکر کیا گیا جو ایک خاص خطۂ ارضی میں گُزر چُکی تھیں ۔ دوسرے خطّوں کی اقوام میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا؟تو اس کے وجوہ بھی بالکل واضح ہیں اگر تھوڑی سی دقت نظر کام میں لائی جائے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایّام و وقائع کے ذکر سے مقصود بعض مقاصد کے لئے استشہاد تھا، اور یہ استشہاد جب ہی موثر ہو سکتا تھا کہ جن ایام و وقائع کا ذکر کیا جائے، اُن کے وقوع سے بے خبر نہ ہوں۔ کم از کم اُن کی بھنک کانوں میں پڑ چُکی ہو۔ یا نہ پڑی ہو اپنے پاس کے آدمیوں سے حال پوچھ لے سکتے ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ لوگ کہ دیتے پہلے ان وقائع کا وقوع تو ثابت کر دو پھر اُن سے عبرت دلانا -اس طرح عبرت و تذکیر کا سارا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔ اب دیکھو قرآن نے جن ایّام و وقائع کا ذکر کیا ہے وہ تمام تر کن خطّوں میں واقع ہوئے تھے یعنی ان کی جغرافیائی حدود کیا ہیں؟ یہ تمام وقاع یا تو خود عرب میں ہوئے ہیں یا سر زمین دجلۂ و فرات میں یا پھر فلسطین اور مصر میں اور یہ تمام خطے ایک دوسرے سے متصل تھے، تجارتی قافلوں کے شاہراہوں سے باہمدگر پیوستہ تھے، آمد و رفت کے علائق کا قدیمی سلسلہ رکھتے تھے اور نسلی و لسانی تعلقات کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جیسا کہ آگے چل کر تمہیں معلوم ہو گا۔ پس قرآن نے انہی خطّوں کا ذکر کیا جو فی الحقیقت تاریخ اقوام کا ایک ہی وسیع خطّہ رہ چکا ہے۔ دوسرے خطّوں سے تعرض نہیں کیا۔ کیونکہ مخاطبین کے لئے ان خطّوں کا ذکر اُن کی شب و روز کی باتوں کا ذکر تھا، اور وہ جھٹلانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ عرب خود اُن کا ملک تھا۔ عراق سے ان کے تعلقات تھے، فلسطین کے کھنڈروں پر ہر سال گُزرتے رہتے۔ مصر ان کے تجارتی قافلوں کی منڈی تھی۔ ان ملکوں کا نام سُننا گویا اپنے چاروں طرف نظر اُٹھا کر دیکھ لینا تھا۔پھر جن قوموں کا ذکر کیا گیا اُن کے ناموں سے بھی وہ نا آشنا نہ تھے۔ قوم تُبع اور اصحاب اخدود یمن سے تعلق رکھتے تھے اور یمن عرب میں ہے۔ عاد و ثمود کی بستیاں بھی عرب ہی کے حدود میں تھیں۔ قبیلۂ مدین بالکل عرب کے پڑوس میں تھا۔ قوم لوط کے کھنڈر ان میں سے سینکڑوں اپنی آنکھوں سے دیکھ چُکے تھے۔ سرزمین دجلہ و فرات کی قوموں اور اُن کی روائتوں سے بھی نا آشنا نہیں ہو سکتے تھے مصر میں گو مصر کے فرعون اب نہیں رہے تھے لیکن مصر میں برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ فراعنہ کے نام ان کے لئے اجنبی نام نہیں ہو سکتے تھے۔علاوہ بریں یہودی اور عیسائی خود ان کے اندر بسے ہوئے تھے۔ انبیاء بنی اسرائیل کے نام ان لوگوں کی زبانوں پر تھے۔ تفصیلات ربیوں اور راہبوں کو معلوم تھیں۔ یہ ان سے پوچھ سکتے تھے اور پوچھا کرتے تھے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایّام و وقائع کے بیان و استدلال میں جا بجا اس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ جیسے ایک جانی بوجھی ہوئی بات کی طرف اشارہ کیا جائے۔ مثلاً جا بجا فرمایا: الم یاتکم نبؤا الذین من قبلکم؟(9:14) جو قومیں تم سے پہلے گُزر چُکی ہیں، کیا تم تک ان کی خبریں نہیں پہنچ چُکی ہیں؟ یا مثلاً جا بجا اس طرح کی تعبیرات پاؤ گے: اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم؟(44:35) کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے پچھلی قوموں کا کیسا انجام ہو چکا ہے! کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ وہ برابر چلتے پھرتے رہتے تھے۔ یعنے ہر موسم میں تجارت کے لئے نکلتے تھے، اور اثناء سفر میں کتنی ہی اُجڑی ہوئی بستیاں، مٹتے ہوئے نشان اور سُنسان کھنڈر اُن کی نظروں سے گُزرتے تھے، بلکہ بسا اوقات اُنہی میں منزل کرتے اور اُنہی کے سایوں میں دوپہر کاٹتے تھے اور پھر جا بجا اس طرح کی بھی تصریحات ہیں کہ یہ مقامات تم سے کچھ دور بھی نہیں کہ بُعد کی وجہ سے بالکل بے خبر رہے ہو۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ کیا علماء بنی اسرائیل سے یہ سر گزشتیں تم نے نہیں سُنیں؟ اور اگر بے خبر ہو تو علم والوں سے یعنے علماء اہل کتاب سے دریافت کر لو جو تم ہی میں بسے ہوئے ہیں۔
اور پھر بعض مقامات میں عرب کے حوالی و اطراف کی تصریح بھی کر دی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیان وقائع میں قصداً یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ سر زمین عرب اور اس کے اطراف و جوانب ہی کے وقائع ہوں مثلاً سورہ احقاف میں قوم عاد کے ذکر کے بعد فرمایا ولقد اھلکنا ما حولکم من القریٰ، و صرفنا الآیات، لعلھم یرجعون۔البتہ یہ ظاہر و معلوم ہے کہ ان واقعات کی تفصیلات سے لوگ نا آشنا تھے اور بعض وقائع ایسے تھے جن کی صرف کانوں میں بھنک پڑ چُکی تھی، لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ معاملہ کس طرح پیش آیا اور صحیح سرگزشت کیا ہے؟ نہ صرف عرب میں، بلکہ اُن خطوں میں بھی جہاں وہ پیش آئے تھے۔ جن وقائع کا ذکر تورات میں موجود تھا ، ان کی بھی بعض حقیقتیں محرّف ہو گئی تھیں، یا بُھلا دی گئی تھیں، اور خود اہل کتاب کو بھی خبر نہ تھی کہ اصلیت کیا رہ چُکی ہے۔ پس قرآن نے ان کی حقیقت ٹھیک ٹھیک واضح کر دی۔ ہر معاملہ اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہو گیا، بعض وقائع کی نسبت تصریح کر دی کہ اس سے باشندگانِ عرب بالکل نا آشنا تھے۔ یعنے نام تو سُن لیا تھا لیکن اس کی تفصیلات اور جزئیات کسی کو معلوم نہ تھیں۔ مثلاً اسی سورت میں حضرت نوح علیہ السلام کی سر گزشت و بیان کر کے آئت 49 میں تصریح کر دی کہ یہ باتیں نہ تو تجھے معلوم تھیں ، نہ تیری قوم کو۔