قرآنيات
قرآن اور نظم قرآن
طفيل ہاشمي
قرآن کے ایک عام قاری کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ قرآن میں اس نوع کا نظم و ترتیب نہیں ہے جو بالعموم تالیفات کا متداول منہج ہے. اس ضمن میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تالیفات کا یہ منہج دور حاضر کی اپج ہے ورنہ جاحظ ایسا مایہ ناز ادیب اور انشا پرداز ایک بات کرتے کرتے "الشئ بالشئ یذکر" کا جملہ معترضہ لکھ کر نئي بات شروع کر دیتا ہے اور اس کی تکمیل کے بعد پہلی بات پر واپس آ جاتا ہے. ہمارے دور میں اسلوب تالیف کی تبدیلی کے باعث شاید نظم و ربط قرآن کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گئ. ماضی میں بھی اس عنوان سے تفسیری مباحث مختلف تفاسیر میں ملتی ہیں جن کا ذکر" تدبر قرآن" میں موجود ہے. مکتب فراہی نے اس عنوان سے مطالعہ قرآن پر بھر پور توجہ دی جو لائق تحسین ہے. مراغی نے اپنی تفسیر میں اور مولانا حسین علی نے "جواہر القرآن" میں ربط آیات کو بطور خاص موضوع سخن بنایا ہے. اس کے باوجود کیي ایک مقامات پر تفسیری ربط و نظم بیان کرنے میں تعسف اور تکلف بارد کا احساس ہوتا ہے. Bell & Montgomery Watt نے Introduction to Quran میں ان تمام مقامات کی نشان دہی کر دی جہاں ان کے خیال میں کوئی آیت، پیراگراف یا جملہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے. ایسی فہرست سے انہوں نے قیاسا نہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن جن تختیوں، ہڈیوں، پتوں اور پتھروں پر لکھا ہوا تھا ان کے مارجن یا بیک پر لکھی گئی آیات کو فرنٹ پر لکھی ہوئی سورت میں شامل کر دیا گیا جس سے ربط متاثر ہوا. اس کے جواب میں تمنا عمادی کے مکتب فکر نے ایک دوسری رائے اختیار کی جس میں مذکورہ بالا روایت کتابت پر بے اعتمادی کا اظہار کیا، روایت کے حاملین نے اس کا جواب دیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے. اس دوران مولانا مناظر احسن گیلانی کا عمر بھر کا حاصل مطالعہ" تدوین قرآن" کے نام سے شائع ہوا جو اب تک کی سب سے وقیع کاوش ہے.ماضی قریب میں مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی تالیف "قرآن کی تدوین، غلط فہمیوں کا ازالہ، اس موضوع پر ایک جامع اور مستند اضافہ ہے
تاہم ربط آیات کے مسئلے کو انور شاہ کاشمیری نے "مشکلات القرآن" میں جا بجا ڈسکس کیا ہے. ان کے بیانات کا ماحصل یہ ہے کہ قرآن کا اسلوب اصلا ًتالیف کا سا نہیں بلکہ وعظ و تذکیر کا سا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بکثرت تکرار ہے، بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک موضوع مکمل کسی ایک جگہ بیان کر دیا گیا ہو بلکہ اسے کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً بیان کیا گیا، نیز قرآن کہیں بھی آفاقی و انفسی حقائق، کلامی مباحث، فقہی مسائل، سماجی امور یا سائنسی اكتشافات کو ان علوم کی سپاٹ زبان میں بیان نہیں کرتا بلکہ وہ بیچ بیچ میں تذکیری آیات، جملوں اور پیراگرافس کا اضافہ کرتا رہتا ہے. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی کتاب اللہ کو تذکیر کے حوالے سے پانچ گروہوں میں تقسیم کیا ہے.
علامہ کاشمیری نے ربط آیات کے حوالے سے بعض عجیب باتیں بھی کیں مثلاً سورہ القیامہ کی مشہور غیر مربوط آیات لا تحرک بہ..... اور سورہ الاعلی کی آیت.. سنقرئک فلا تنسى کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سورتوں کا اصل موضوع یہی آیات ہیں، سیاق و سباق ان کی صداقت کے شواہد ہیں. کیونکہ قرآن کے منہج نزول اور بالخصوص اخبار مغیبات میں بین السطور قرآن کی صداقت کا جو چیلنج موجود ہے وہی سب سے اہم موضوع ہے اور اس پر ظاہری ربط کے بجائے بین السطور تحدی کے پیش نظر گفتگو کی جاتی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے متعدد مثالیں بھی ذکر کی ہیں.
بہت سال پہلے انجینئر رضوان حیدر ملنے آئے متعدد سوالات سے ان کے مطالعہ کی وسعت قابل رشک لگی ۔تفسیر تدبر قرآن پر بات ہوئ ۔نظم قرآن کے حوالے سے انہوں نے میری اس رائے سے اتفاق کیا کہ اس حوالے سے تفسیر میں جا بجا تکلف بارد کا احساس ہوتا ھے ۔میری رائے یہ ھے کہ قرآن میں اسی طرح کا نظم ہونا چاھئے جیسا کائنات میں ھے لیکن کائنات کو تقدس حاصل نہیں اس لئے سائنس دانوں نے نظم کی کئ پرتیں تلاش کر لیں قرآن کے تقدس کے باعث فہم قرآن کے اس درجے کے سائنسدان پیدا نہیں ہو سکے جس طرح کے نیچرل سائنسز میں پیدا ہوئے ۔البتہ تدبر کا اعزاز یہ ھے کہ اس نے تفسیر بالماثور کا التزام کرتے ہوئے تفسیری روایات سے پہلو تہی کر کے قرآن کو محدودیت سے نکال کر آفاقیت سے ھم کنار کر دیا جو اس کا حقیقی مقام ھے۔تفسبر بالماثور سے مراد یہ ھے کہ سنت کی متعین کردہ مصطلحات کے مطابق تفسیر کرنا نہ کہ اسرائیلیات، ضعیف اور موضوع روایات یا اخبار احاد کی بنیاد پر قرآن کی قطعی الثبوت قطعی الدلالات آیات کی تاویل کردینا.
ربط آیات و سور_نظم قرآن
قرآن کریم ایک وحدت ہے اس کی آیات و سور میں اسی طرح نظم و ارتباط ہے جیسے اس کائنات میں ہے. جیسے انسان میں ہے. قدیم دور سے مفسرین آیات و سور کا ربط تلاش کرتے رہے لیکن جس طرح اس کائنات کے تمام راز کبھی منکشف نہیں ہوتے اسی طرح قرآن کی تمام تہیں اور تمام پرت کبھی نہیں کھلتے. اسی کو لسان نبوت نے کہالا تنقضی عجائبہ
کچھ مفسرین کی رائے یہ رہی کہ قرآن شاہی فرامین کی طرح ہے جو ضروریات اور حالات سے ربط رکھتے ہیں، ان کا باہمی مرتبط ہونا ضروری نہیں ہوتا. اگر جمع و تدوین قرآن میں یہی پہلو پیش نظر ہوتا تو اسے ترتیب نزولی کے مطابق مدون کیا جاتا. یقیناً اسے مختلف ترتیب دینے میں کوئی دائمی اور ابدی حکمت پیش نظر تھی.یہ سمجھنا کہ قرآن بے ربط کتاب ہے. میرے خیال میں قرآن اور قرآن نازل کرنے والے کی توہین ہےوما قدروا اللہ حق قدرہ-یہ ٹھیک اسی طرح باہم مربوط ہے جیسے انسان کے بدن کے تمام تر نظام بایک دگر پیوست اور مرتبط ہیں. جس طرح انسان کا ڈی این اے، جینز اور مالیکیول پورے انسانی بدن کے ساتھ اٹوٹ تعلق رکھتے ہیں اسی طرح ہر ہر لفظ، ہر ہر آیت اور ہر ہر سورت بایک دگر مرتبط ہیں.
البتہ مفسرین میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا اختصاص تھا اسی اختصاص کے مطابق تفاسیر لکھی گئیں. جیسے اي این ٹی سپیشلسٹ کبھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ انسان کے نظام انہضام یا دوران خون کا اي این ٹی سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح مختلف مناھج پر تفاسیر لکھنے والوں کا یہ خیال نہیں تھا کہ قرآن ایک مربوط کتاب نہیں ہے.البتہ نظم قرآن کے منھج پر پوری تفسیر قلمبند کرنا خاصا محنت طلب کام تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مولانا حمید الدین فراہی کا سینہ کھول دیا اور ان کے افکار کو مولانا امین احسن اصلاحی نے قلم بند کر کے فہم قرآن کا ایک نیا دروازہ کھول دیا.میری رائے میں یہ اسی طرح کا ایک منھج تفسیر ہے جیسے تفسیر بالماثور، فقہی ،کلامی، بلاغی اور دیگر مناھج تفسیر ہیں البتہ اس اعتبار سے یہ مختلف ہے کہ یہ منھج اللہ کی پوری کتاب کو قاری کے سامنے مربوط شکل میں پیش کرتا ہے-رہی یہ بات یہ منھج حرف آخر ہے تو یہ دعویٰ بذات خود محل نظر ہے کیونکہ قرآن کے اعجاز کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور کی اعلی ترین عقلیت کو قرآن کا اعجاز چیلنج کرتا رہے گا اورلا تنقضی عجائبہ --ولا یخلق عن کثرۃ الرد--ولا یشبع منہ العلماء
ہمارے عہد کے جلیل القدر فلسفی جناب احمد جاوید نے منھج نظم قرآن کے بارے میں جن افکار کا اظہار کیا ہے اگر ان کی نسبت ممدوح کی طرف درست ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ افکار ان کے علمی مرتبے اور جلالت قدر سے ہم آہنگ نہیں ہیں.
فہم قرآن – نظم قرآن كے تناظر ميں
ہم اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے کہ قرآن حکیم کی کسی آیت یا کسی آیت کے ٹکڑے سے یہ جانے بغیر استدلال کر لیں کہ قرآن کی اس آیت کا سیاق و سباق کیا کہتا ہے. اس انداز استدلال سے بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جنہیں سلجھانے کے لیے مزید الجھاؤ پیدا کر دئیے جاتے ہیں. جبکہ اگر ہم نظم قرآن کو سامنے رکھیں تو وہ الجھنیں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتیں-
مثلاً1_سورہ البقرہ کی آیت نمبر 62 میں ہے-ان الذين آمنوا والذين ھادوا والنصارى والصابئین من آمن باللہ والیوم الآخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف عليهم ولا ھم یحزنون
جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی، نصرانی اور صابی ہوئے ان میں سے جو کوئی بھی اللہ اور قیامت پر ایمان لائے گا اور اچھے کام کرے گا تو اسے اس کے رب کی طرف سے اس کا اجر ملے گا، انہیں کوئی غم ہوگا نہ خوف-اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ان اقوام کے لیے رسول اللہ پر ایمان لانا ضروری نہیں. پھر آگے بڑھ کر وحدت ادیان کا نظریہ کشید کیا جاتا ہے-
جبکہ اس سے پہلے کی سورہ البقرہ کو دیکھا جائے تو وہ تمام تر قرآن اور نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کی تاکید بلکہ عہد کے ایفا کے تقاضے پر مشتمل ہے. اس آیت کو ماسبق اور مابعد سے الگ کرنے کے نتیجے میں ایک ایسا نظریہ جنم لیتا ہے جس سے پورا قرآن ابا کرتا ہے-
2_فان آمنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا--اگر وہ تمہاری طرح کا ایمان لائیں تو ہی راہ راست پر ہوں گے
کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟ یہود و نصاریٰ کا خیال یہ تھا کہ وہ الہامی کتب کے حامل ہونے اور پہلے انبیاء کرام پر ایمان لانے کے باعث راہ راست پر ہیں.پچھلی آیت میں ان کے اس قول کو نقل کیا گیا ہے کہ وقالوا کونوا ھودا او نصاری تھتدوا-یعنی ہدایت کے لئے نبی آخر الزمان پر ایمان لانا ضروری نہیں-جیسا کہ آج کے کچھ مسلم سکالرز بھی یہی رائے رکھتے ہیں-اس آیت میں ان کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح تم یعنی مسلمان ایمان لائے ہو یعنی پہلے انبیاء کے ساتھ نبی آخر الزمان پر بھی ایمان لائے ہو، اگر اہل کتاب بھی اسی طرح ایمان لائیں تو راہ راست پا جائیں گے.-اس آیت سے معیار حق کا نظریہ کشید کرنا درست نہیں-کیونکہ کوئی غیر صحابی کسی صحابی کی مثل صاحب ایمان نہیں ہو سکتا-نتیجتاً کوئی بھی راہ راست پر نہیں ہو گا-
3_سورہ النساء کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے-فما استمتعتم بھن فاتوھن اجورھن فریضہ -جن بیویوں سے تم لطف اندوز ہو ان کے مہر بطور فرض ادا کرو-اس ٹکڑے کو ہمارے شیعہ بھائی جواز متعہ کے لئے پیش کرتے ہیں جبکہ سیاق کلام اس سے ابا کرتا ہے قرآن یہ بتاتا ہے کہ اگر میاں بیوی کے تعلق سے پہلے علیحدگی ہو جائے تو نصف مہر اور لطف اندوز ہونے کے بعد ہو تو پورا مہرادا کرنا ہوگا-نیز احادیث رسول بھی جواز متعہ سے ابا کرتی ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ نے کسی بھی شخص کو جوانی کے جوش کو معتدل کرنے کے لیے فرمایا ہو کہ جاؤ متعہ کر لو. سنی اور شیعہ مآخذ میں جو روایات ہیں وہ رواۃ کا فہم ہے، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جاہلیت میں اس قسم کے نکاح کا رواج تھا.-نطم قرآن اور سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے قرآن کی کسی آیت کا مفہوم متعین کرنے کے بارے میں سورہ الحجر میں قرآن کو ٹکڑوں میں کاٹ کر اس سے استدلال کرنے کی ممانعت کی ہے-الذین جعلوا القرآن عضین پس ضروری ہے کہ قرآن کے صحیح مفہوم تک رسائی کے لیے نظم قرآن کو ملحوظ رکھا جائے-
قرآن کے ساتھ دوگونہ ظلم
قرآن شستہ عربی زبان،مروج محاورے اور بلیغ تعبیرات میں نازل ہوا، جو عربوں میں متداول تھیں . اگر قرآن کا اسلوب، زبان و بیان، معانی و مفاہیم مروج روزمرہ سے ہٹ کر ہوتے تو یہ چیلنج دینا ہی درست نہ ہوتا کہ اگر یہ انسانی ساختہ ہے تو تم بھی بنا کر لے آؤ.... کوئی ایک سورت ہی سہی
کسی نامانوس تخلیق کو پیش کر کے ایسا دعوی کہ یہ خدائی تخلیق ہے اور اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، چیلنج نہیں بنتا.الفاظ وہی تھے جو عرب استعمال کرتے تھے، لغت، گرامر، ادب، تراکیب، محاورے، ضرب الامثال سبھی کچھ اس سماج کے مطابق تھا جس میں قرآن نازل ہو رہا تھا.قرآن کریم کی حفاظت کا انتظام اللہ نے اپنے ذمے لے لیا تھا اس لیے اس میں من پسند تبدیلی کرنا ممکن نہیں تھی لیکن انسان تھا کہ الوہی پابندیوں سے آزادی کا خواہش منداس کے لئے دوراستے اختیار کئے گئے
پہلا راستہ ابتدائی صدیوں سے ہی متعارف کروا دیا گیا کہ قرآن کی قطعی الثبوت قطعی الدلالت نصوص کے بالمقابل احادیث وضع کرنے کی انڈسٹری لگا دی گئی. جب ایسی احادیث کے سدباب کے لیے جرح و تعدیل کا ہتھیار ایجاد ہوا تو متون وضع کرنے والوں نے اسناد بھی وضع کرنی شروع کر دیں. حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس طومار کو دیکھ کر ابن شہاب زھری کو یہ خدمت سپرد کی کہ صحیح احادیث کا مجموعہ تیار کریں لیکن امیرالمومنین وفات پا گئے اور ابن شہاب اتنے بہادر نہیں تھے کہ مشن جاری رکھتے، نتیجہ یہ ہوا کہ اخبار احاد کے ذریعے قرآن کی کئی ایک متواتر نصوص کے مفاہیم میں تبدیلی کر دی گئی .ضرورت ہے کہ ایسی تفسیری روایات کی نشاندہی کر کے ان سے استدلال کی خامیوں کو سامنے لایا جائے.
دوسری طرف ہمارے دور میں اس سے بھی باریک کاریگری کی گئی اور وہ یہ کہ بڑی بڑی ڈکشنریاں سامنے رکھ کر ایک ہی لفظ کے متعدد معانی میں سے کچھ من پسند معانی لے کر ان کے مطابق قرآن کی آیات کا مفہوم متعین کیا گیا جس کے نتیجے میں صلاۃ، زکوٰۃ، صوم اور حج ایسی اصطلاحات کا مفہوم بھی بدل دیا گیا . یہ کاریگری اس لئے بھی توجہ حاصل کر سکی کہ بڑے بڑے محققین نے یہ لکھا کہ تفسیر بالماثور کا وجود تقریباً عنقا ہے اور اس حوالے سے دو ایک مثالیں دے کر خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ تمام اسلامی اصطلاحات جو قرآن میں موجود ہیں ان کے مفاہیم کا تعین تفسیر بالماثور ہی تو ہے.تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کوششوں نے قرآن کے پیغام کو کوئی نقصان پہنچایا یا الوہی ہدایت کی تلاش مشکل ہو گئی. رسول اکرم ایک زندہ سماج کو قرآن کے قالب میں ڈھال کر دنیا سے تشریف لے گئے اس لئے قرآن کے طالب علم کو تلاش حق کی شاہراہ پر چلنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور وہی سماجی روایت سنت کہلاتی ہے.