جواب: جی ہاں ،حضور ﷺ کبھی کبھی خاص طور پر گرمی کے شدید موسم میں سر اور داڑھی کے بالوں پر مہندی لگایا کرتے تھے رہی یہ بات کہ آپ کی داڑھی کی مقدار کتنی تھی اس کا کسی روایت میں کوئی متعین سائز نہیں ملتا صحابہؓ صرف اتنی روایت کرتے ہیں کہ کان کث اللحیۃ یعنی آپ کی داڑھی گھنی تھی ۔
جواب : رسول ﷺ کی خواہش تو یہ تھی کہ پوری انسانیت مسلمان ہو جائے آپ ﷺ کے بارے میں تو خود قرآن کے اندر یہ گواہی موجود ہے لعلک باخع نفسک الایکونو امؤمنین یعنی آپ ﷺ اس غم میں اپنے آپ کوفنا کیے دے رہے ہیں کہ لوگ مسلمان نہیں ہو رہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی جو عمومی حکمت اور مشیت ہے اس کے حساب سے کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہو تا ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ انک لاتھدی من احببت کہ تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے کیوں کہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے ۔
جناب ابوطالب کے قبول اسلام کے بارے میں مسلمانوں میں دو نقطہ نظر ہیں ایک نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے اپنی وفات سے چند لمحے قبل اسلام قبول کیا تھا دوسر ے نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا یہ تاریخ کا مسئلہ ہے عقیدہ یا دین کا مسئلہ نہیں ہے ۔
جواب : اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے اختلاف کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس سے خیالات کا تنوع اور وارئٹی سامنے آتی ہے جتنی وارئٹی ہو گی اتنا خیالات اور افکار پھیلیں گے اور تعلیمی سطح بلند ہو گی لیکن ان خیالات کو ایک دوسرے سے جھگڑنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ میں کئی معاملات میں اختلاف ہے ۔
لیکن امام مسلم ؒ امام بخاری ؒ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ انہوں نے امام بخاری سے کہا کہ آپ اجازت دیں کہ میں آپ کے پاؤں چوم لوں ۔لیکن امام مسلم نے خود اسی صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام بخاری پر اتنے احترام کے باوجود تنقید کی ہے تو احترام اپنی جگہ اور اختلاف اپنی جگہ دونو ں ہو سکتے ہیں
جواب : نماز میں کوئی فرق نہیں ہے ایک ہی طرح کی ہے سارے احکام ایک ہی جیسے ہیں ۔لیکن فقہا کا کہنا یہ ہے کہ جب خاتون سجدہ یا رکوع کی حالت میں جائے تو سجدہ ایسے کرے کہ اس کے جسم کے لئے زیادہ سے زیادہ ساتر ہو اور جسم کے جو خدوخال ہیں وہ نمایاں نہ ہو ں یہ بھی ایک حدیث سے استدلال کی بنیادپر ہے بعض لوگ کہتے ہیں کوئی ضرورت نہیں اسی طرح کرنی چاہیے جیسے آپ کا جی چاہے ویسے کرلیں۔
جواب : اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو ں گی اس لئے جوشخص علم نہ رکھتا ہو اسے اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہ حکم بالشریعہ نہیں ہو گا بلکہ حکم بالتشہی ہو گا یعنی اپنی شہوت کے مطابق آدمی پیروی کرے گا۔ جو چیز کاروبار میں مفید ہوگی تو تاجر کہے گا کہ یہ رائے اختیار کریں جس کو کسی اور چیز میں فائدہ ہو گا وہ کہے گا اس چیز کو اختیار کریں تو اس سے بڑی قباحت پیدا ہوگی۔
جواب: بدعت وہ ہے جس کی کسی حدیث یا سنت یا حدیث میں یا حدیث کی تعبیر و تشریح میں کوئی اساس نہ ہو لیکن اگر کوئی عمل کسی حدیث کی تعبیر کی وجہ سے ہے، وہ تعبیر تو کمزور ہو سکتی ہے اور آپ اس تعبیرکو غلط بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس عمل کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے اگر کوئی حدیث ایسی ہے جو کمزور ہے مثلاً اسی ترمذی میں ہے جو میرے سامنے ہے جس میں پندرہ شعبان کو عبادت کرنے کا ذکر ہے ۔لیکن ضعیف حدیث ہے اکثرمحدثین اس کو ضعیف سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ حدیث ضعیف ہے اور اس کا ضعف بڑے کمزور درجہ کا ہے جو حضرات سمجھتے ہیں کہ اس کا درجہ اتنا کمزور نہیں وہ اس پر عمل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اس لئے جو حدیث پر عمل کی نیت سے اس کام کو کررہے ہیں وہ بدعت نہیں ہے ۔
لہذا اگر کوئی پندرہ شعبان کی رات کو عبادت کرتا ہے یا دن کو روزہ رکھتا ہے تو نعوذ باللہ بدعت نہیں ہے لیکن جو پندرہ شعبان کو پھلجھڑی چلاتا ہے وہ یقیناًبدعت ہے جو سمجھتا ہے پندرہ شعبان کو حلوہ بنانا ضروری ہے وہ یقیناًبدعت ہے جو پندرہ شعبان کو چراغاں کرتا ہے وہ یقیناًبدعت کرتا ہے کیونکہ اس کو کوئی براہ راست یا بالواسطہ کسی کسی ضعیف حدیث میں بھی کہیں نہیں آیا۔ یہ فرق ہے بدعت اور غیر بدعت میں کسی چیز کا صحیح ہونایا نہ ہونا یہ الگ چیز ہے اور اس کا بدعت ہونا یا نہ ہونا الگ چیز ہے۔
جواب : ایک صحابیؓ نے اس یقین سے کہ اللہ کی کتاب میں شفا ہے( قرآن پاک میں اس کو شفا کہا گیا کہ فیہ شفاء لما فی الصدور )، پڑھ کر پھونک دیا اور اس قبیلہ کے سردار نے ہدیہ کے طور پر کچھ پیسے بھی دے دیئے اور انہوں نے لے لئے۔ یہ معاوضہ کی بات نہیں تھی کہ انہوں نے پہلے فیس مقرر کی ہو کہ پانچ سو روپے لیں گے اور پانچ سو روپے لیکر پھونک دیا یہ کسی صحابیؓ یا تابعی نے نہیں کیا ۔ اس لیے تحفتاً کوئی دے دے تو حرج نہیں لیکن معاوضہ طے کرنا ثابت نہیں۔
جواب : کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد سے پوچھئے بغیر اس کا نکاح نہ کرو الفاظ مجھے یاد نہیں لیکن مفہوم یہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب تم کسی بیٹی کی شادی کرو تو اس سے اجازت لے لو ۔ اس کی خاموشی اسکی اجازت ہے اور ایک ایسی مثال ہے کہ کسی صاحب نے اپنی زیر کفایت خاتون یا لڑکی کا نکاح کر دیا اور اس نے اعتراض کیا تو حضورﷺ نے اس نکاح کو ختم کروایا اور ان سے پوچھ کر ان کا نکاح کروایا اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ ایھا امرت نکحت بغیر اذن ولیھا فنکا حھا باطل باطلکہ جوخاتون اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ باطل ہے باطل ہے باطل ،اب بظاہر یہ دو احادیث ہیں اور ان دونوں میں تعارض ہے میں نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ علماء نے تعارض کو حل کرنے کے کم سے کم پچاس اصول مقرر کئے ہیں ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جن احادیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنے کا ذکر ہے ان احادیث کو ترجیح دی جائے گی اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جو ہوگا وہ باطل ہوگا ؛
امام ابوحنیفہ ؒ نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جہاں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنے کا ذکر ہے وہاں اس کے اخلاقی پہلو کوحضورﷺ نے بیان کیا ہے کہ اخلاقی طور پر ایک خاتون کو یہ حق نہیں دیتا کہ باپ سے پوچھے بغیر جہاں چاہیے نکاح کر لے اور باپ کو بعد میں پتا چلے وہ بیچارہ پریشان ہو اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط اخلاقی ہدایت ہے لیکن کیااگر کوئی خاتون نکاح کرے تو کیا وہ نکاح legally valid ہوا کہ نہیں ہوا؟یہ بڑا نازک سا معاملہ ہے فرض کریں ایک خاتون نے نکاح کرلیا اور گھروالوں کو اطلاع نہیں دی ان کو دس سال بعد پتا چلا میں ایک مثال دیتا ہوں ایک لڑکی یہاں سے پڑھنے کے لئے انگلستان گئی وہاں اپنے کلاس فیلو سے شادی کر لی ماں باپ کو پتہ نہیں چلا دس سال بعد آئی تو شوہر صاحب بھی ساتھ آئے اور تین بچے بھی ساتھ تھے اب بتایئے کہ جو فقہا کہتے ہیں کہ نکاح جائز نہیں ہے ان بچوں کو کیا کہیں گے ؟امام ابو حنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ یہ نکاح قانوناًجائز ہے لیکن ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کو سزا دیں جرمانہ کریں قید میں بھی ڈالیں تھپڑ بھی لگائیں اس لئے کہ اس نے ایک ایسا کام کیا ہے جس کی اجازت حدیث میں نہیں دی گئی ہے لیکن قانوناً آپ اس کو منسوخ نہیں کر سکتے یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن دونوں بیانات کا خلاصہ یہ ہے۔پاکستان میں عدالتیں اکثر امام ابوحنفیہ ؒ کے نقطہ نظر کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اس میں بھی عدالتیں کے بعض فیصلوں کے بارے میں مجھے بھی تامل ہے اس میں فیصلہ اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس موضوع پر ایک مفصل مرتب قانون ہونا چاہیے جب میں اسلامی کونسل کا رکن تھا تو وہاں میں نے یہ مسئلہ اٹھا یا تھا اور اس ضرورت کا اظہار کیا تھا کہ ایک مکمل اور جامع مسلم فیملی لا پاکستان میں تیار ہونا چاہیے جس میں اس طرح کے سارے مسائل کو مکمل طریقے سے بیان کردیا جائے اور جوکمزور پہلوہیں چھوٹے چھوٹے راستے ہیں ،ان کو بند کر دیا جائے ۔
جواب : جی ہاں ؛ امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انسؓ کو دیکھا تھا ۔امام صاحب اپنے والد کے ساتھ حج کیلئے گئے تھے اس وقت ان کی عمر 14;13سال تھی حضرت انسؓ مکہ مکرمہ میں تشریف لائے ہوئے تھے اور امام ابوحنیفہؒ بیان کرتے ہیں کہ جب میں حج کیلئے گیا تو مسجد حرام کے باہر ہجوم تھا بہت لوگ جمع تھے ۔ہر شخص لپک کر اس ہجوم کے مرکز تک پہنچنا چاہتاتھا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟انہوں نے کسی سے پو چھ کر بتایا کہ صحابی رسولﷺ حضرت انسؓ آئے ہیں اور لوگ ان کو دیکھنے کیلئے جمع ہو رہے ہیں۔ تو امام ابو حنیفہؓ کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے درمیان سے نکل کر ان تک پہنچ گیا اور میں نے ان کی زیارت کی ۔
ا
جواب:نہیں استخارے میں خواب کا آنا ضروری نہیں ہے۔ استخارے کے معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلب خیر کی جائے۔ جب آپکے سامنے دو کام ہیں دونوں جائز ہیں یہ نہیں ایک جائز ہواور دوسرا ناجائز کہ سودکھاؤں کہ نہ کھاؤں اور استخارہ کرنے لگے یہ استخارہ نہیں ہوگا استخارہ وہاں ہو گا جہاں دو جائز کا م درپیش ہوں اور انتخاب میں مشکل پیش آرہی ہو مثلاً مکان خریدنے کا پروگرام ہے اور دو مکان مل رہے ہیں اور آپ کے لئے دونوں میں سے ایک کا منتخب کرناہے کہ کون سا اچھا ہے تو استخارہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میرے لئے جو اچھا ہے اس کو میرے لیے آسان کر دے تو جو خیر ہوگی اللہ تعالیٰ اس کو آسان کر دے گا ۔خواب کا آنا کو ئی ضروری نہیں ہے
()
جواب: دیکھئے چہرے کے پردے کے بارے میں شروع سے ایک گفتگو چلی آرہی ہے جس میں صحابہ اور تابعین کے زمانے سے بحث ہورہی ہے قرآن پاک کی جس آیت میں آیا ہے کہ پردہ کرو اس میں آیا ہے کہ الا ماظھر منھا سوائے اس کے کہ جوظاہر ہو ۔ فقہا، محدثین، صحابہ،تابعین ، اور تبع تابعین کی ایک بہت بڑی کا کہنا ہے کہ الا ماظھر منھا یعنی سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے اس میں جسم کی ساخت اور قدوقامت شامل ہے جس کو نہیں چھپایا جاسکتا۔جب ایک خاتون نکل کر کہیں جائے گی تو لوگ دیکھ لیں گے کہ دبلی ہے پتلی ہے موٹی ہے بھاری ہے تو یہ ظاہر ہوجائے گا اور جسم کی ساخت کا بھی اندازہ ہوجائے گا تو یہ تو نہیں چھپایا جاسکتا اس لئے اس میں یہ شامل ہے باقی سب چیزیں چھپانی چاہیں ۔کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اس میں جسم کے وہ اعضاء بھی شامل ہیں جن کا بعض اوقات کھولناضروری ہو تا ہے ۔
مثلاًکسی کام کے لئے خاتون جارہی ہے سفر پر جارہی ہے تو ہاتھ کھلا ہوگا پاؤں کھلے ہوں گے کسی مزدوری کے لیے ضرورت پڑی تو ہاتھ کھولنا پڑے گا اس میں کچھ لوگ چہرے کھولنے کو شامل سمجھتے ہیں اس لئے کہ چہرے کا پردہ واجب ہے کہ اس میں اختلاف شروع سے چلا آرہا ہے اس لئے کچھ لوگ جو چہرے کے پردے کھولنے کو بھی شامل سمجھتے ہیں ان میں امام احمد بن حنبل ؒ اورسعودی علماء شامل ہیں وہ ہر حال میں چہرے کے پردے کو لازمی سمجھتے ہیں ۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چہرے کا پردہ عام حالات میں تو کرنا چاہیے لیکن اگر کسی خاتون کو کوئی ناگزیر ضرورت ایسی پیش آجائے جس میں وہ وقتی یا مستقل طور پر چہرے کھولنے پر مجبور ہو تو چہرہ ہاتھ اور پاؤں کھولنے کی اجازت ہے ۔
تیسرا نقطہ نظریہ ہے جو مجھے بھی ذاتی طور پر دلائل وغیرہ دیکھ کر درست معلوم ہوتاہے لیکن آپ کا جو جی چاہیے وہ آپ اختیار کریں وہ ہے کہ چہرے کا ڈھکنا تو افضل اور عزیمت ہے لیکن کھولنا کی اجازت ہے چہرہ کھولنا رخصت ہے اگر وہ خاتون یہ سمجھتی ہیں کہ چہرہ نہ کھولنا سے اس کے لئے مشکلات ہیں تو وہ کھول سکتی ہیں ۔
اور یہ مسائل بعض اوقات یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں پیش آتے ہیں جہاں ہماری بہت سی بہنوں کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور باہر جانا پڑتا ہے وہاں کے ماحول میں ان کو سر ڈھانکنے کی اجازت بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے تو چہرے کے ڈھانکنے کی پابندی بھی اگر لازم کر دی جائے تو ان کے لئے شاید مشکل ہو جائے اس لئے جہاں حالات ناگزیر یا مشکل ہوں تو میرے خیال میں چہرہ کھول سکتی ہیں ۔
جواب :دراصل ہم جس چیز کے پابند ہیں تو وہ اللہ کی کتاب اور اللہ کو رسول ﷺ کی سنت ہے اور یہی شریعت کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن اور سنت نے کسی اور شخص یا کسی اور چیز کی پیروی کرنے کی پابندی نہیں لگائی ۔لہذا شرعاً نہ امام ابو حنیفہ ؒ کی پیروی لازم ہے نہ امام بخاریؒ نہ امام مسلم ؒ کی نہ کسی اہل حدیث کے فقہ کی پیروی شرعاً لازم ہے
قرآن سنت کی پیروی لازم ہے لیکن ہر شخص قرآن و حدیث کا اتنا علم نہیں رکھتا کہ وہ ان کی صحیح پیروی کر سکے اس لئے جو علم نہیں رکھتا وہ مجبور ہے کہ وہ جاننے والوں سے پوچھے۔ علم جاننے والوں میں سے جس کے علم اور تقوٰی پر سب سے زیادہ اعتماد ہو جس کا علم اور تقویٰٰ اس درجہ کا ہو کہ آپ آنکھیں بند کر کے اس کی بات مان لیں۔
جب ائمہ فقہ اور ائمہ حدیث نے اپنے اپنے اجتہادات مرتب کئے تو بعض حضرات کے ارشادات کتابی شکل میں مرتب ہوگئے ان کے شاگردوں نے بڑی تعداد میں ان کے ارشادات اور فتاویٰ کو پھیلا دیا اس لئے ان کی بات پر عمل کر نا آسان ہوگیا۔ بقیہ فقہا کے اجتہادات اور اقوال مرتب نہیں ہوئے اس لئے ہم تک نہیں آئے ۔مثلاً امام بقی بن مخلد بہت بڑے محدث تھے ان کے خیالات کیا تھے وہ حدیث کی کیسے تعبیر کرتے تھے وہ آج ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں اس لئے ہم آج بقی بن مخلدکے اجتہادات پر عمل نہیں کرسکتے کہ وہ کیا مفہوم بیان کرتے تھے۔ لیکن امام مالک کے اقوال ہمارے سامنے موجود ہیں۔ امام بخاری ؒ کے فتاویٰ ہمارے سامنے ہیں اس لئے ان کے بارے میں یقین سے یہ کہنا آسان ہے کہ وہ کس حدیث کی کیاتعبیر کرتے تھے اس لئے جس کے علم اورتقویٰ پر آپ کو اعتماد ہو اختیار کرلیں لیکن ہر آدمی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جزوی مسائل میں پہلے یہ دیکھے کہ کیا چیز میرے لئے آسان ہے اس سے گمراہی اور افرتفری کا راستہ کھلتا ہے ۔
اگر صاحب علم دلائل کی بنیاد پر ثابت کر دے تو جائز ہے اور ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے آئندہ بھی ہوگا۔ لیکن جو عام آدمی قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا وہ صرف آسانیاں تلاش کرنا چاہتا ہے کہ کتاب کھول کر جو چیز آسان لگے اس کو اختیا ر کر لے اس سے شریعت کے تقاضے ٹوٹتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اس لئے اگر صاحب علم دلائل سامنے لاکر ایسا کرتا ہے تو وہ واقعی ایسا کرسکتا ہے ایک عام آدمی جس کو نہیں معلوم کہ حدیث ضعیف کیا ہے حدیث موضوع کیا ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ قرآن کی کس آیت کاکیا مفہوم ہے کون سی آیت پہلے نازل ہوئی کون سی بعد میں نازل ہوئی وہ اگر اپنی مرضی سے عمل کرنا شروع کردے تو شاید غلطی کو شکار ہو جائے۔ اس لئے غلطی سے بچنے کے لئے معتبر اور معتمد اصحاب علم پر اعتماد کرنا چاہیے ۔
جواب :ایک اعتبار سے تو ہر مسلمان اہل حدیث ہے۔ کیا ہم سب مسلمان جو ایک ارب بیس کروڑ کی تعداد میں دنیا میں بستے ہیں کیا ہم حدیث رسولﷺ پر عمل نہیں کرتے ؟سب حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لئے ہم سب اس مفہوم میں اہل حدیث ہیں لیکن اہل حدیث کے نام سے جو حضرات برصغیر میں مشہورو معروف ہیں یہ اصل میں وہ حضرات ہیں جو مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کے زمانے میں اور ان کے بعض فتاویٰ کی روشنی میں کچھ احادیث پر عمل کرنے لگے تھے ۔ ان حادیث پر عمل کرنے کی وجہ سے باقی لوگوں سے ان کا تھوڑا اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ یہ لوگ شروع میں تو کسی خاص نام سے مشہور نہ تھے لیکن جب سید احمد شہید ؒ کی سربراہی میں تحریک جہاد شروع ہوئی اور مولانا اسماعیل شہید اس میں شریک ہوئے تو وہ سارے کے سارے لوگ انگریزوں کی تحریروں میں وہابی کہلانے لگے۔ انگریزوں نے انکو وہابی کے نام سے مشہور کر دیا اور ایک طرح سے ان کا نک نام وہابی پڑ گیا۔ وہابی کے لفظ کو انگریزوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے غلط معنوں میں استعمال کیا تو جب یہ لوگ وہابی کے نام سے مشہور ہوئے ان کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
انگریزوں نے ان کو بڑا persecute کیا اور اس persecution کے بہت قصے مشہور ہیں اور بڑے دردناک اور سبق آموز ہیں ۔جب یہ سلسلہ بہت آگے بڑھا تو کچھ لوگو ں نے یہ چاہا کہ ہم وہابی کے بجائے کسی اور نام سے جانے جائیں تو بہت اچھا ہوگا ۔تو انہوں نے یہ طے کیا کہ ہمارا نام اہل حدیث ہونا چاہیے انہوں نے اہل حدیث کے لفظ کو رواج دے دیا تو وہ اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوگئے۔ اس میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جو مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کے فتاویٰ پر عمل کرتے تھے اور زیادہ تر وہ حضرات شامل ہیں جن کا سلسلہ تلمذحضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے ملتا ہے جو بعد میں حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ کے ارشادات اور طریقہ کار پر چلتے تھے۔ میاں صاحب اتنے بڑے انسان تھے کہ وہ اپنے زمانے کے شیخ الکل کہلاتے تھے۔ یعنی سب کے استاد پورے ہندوستان کے استاد اور واقعی وہ علم حدیث میں شیخ الکل تھے۔
جواب: بعض احادیث کی تعبیر و تشریح میں اور قرآن پاک کی آیات کی تعبیر و تشریح میں بھی ایک سے زائد رائے کا امکان موجود ہے ۔صحابہؓ کے زمانے سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔ رسولﷺ نے صحابہؓ کی ایک سے زائد تعبیروں اور ایک سے زائد توضیحات کو درست قرار دیا اور دونوں کو بیک وقت قابل قبول قرار دیا۔ اس سے پتا چلتاہے کہ اسلام میں بعض احکام ایسے دیئے گئے ہیں قرآن پاک میں بھی اور احادیث میں بھی جن کی تفسیریں اور تشریحات کی جاسکتی ہیں۔ یہ اجازت اس لئے دی گئی کہ مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف زمانے کے متنوع تقاضوں اور لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے علماء اور فقہااور محدثین اس کی نئے نئے انداز سے تشریح کرسکیں ۔مثلاً قرآن پاک کی آیات میں کہ علی الموسع قدرہ وعلی المقتدرہ قدرہ ۔؛جب شوہر بیوی کانفقہ ادا کرے گا تو دولت مند اپنی استطاعت کے لحاظ سے اور غریب اور نادار اپنی استطاعت کے لحاظ سے ادا کرے گا حالانکہ مثال کے طور پر قرآن پاک کہہ سکتا تھا کہ شوہر سو درہم نفقہ دیا کرے یا ایک من گندم دیا کرے گا اس حکم کو بیان کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا لیکن قرآن مجید میں اس طرح سے کوئی معین مقدار نہیں بتائی گئی بلکہ ایک عمومی بات بتائی جس کو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے لوگ سمجھیں اور اسکی تعبیر کریں۔
تعبیروں کا اختلاف اسلام کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہے اس لئے حضور ﷺ نے اجازت دی اس کی۔ قرآن پاک میں اس کی گنجائش رکھی گئی مختلف اہل علم نے مختلف تعبیریں کیں اور جو شخص جس فقیہ کے علم اورتقویٰ پر اعتماد کرتا ہے اسکی بات مان لیتا ہے۔ اس زمانے میں جبکہ یہ سارے محدثین اور فقہا موجود تھے اس وقت بھی جن حضرات کو امام شافعی ؒ کے علم اور تقویٰ پر اعتماد تھا وہ امام شافعیؒ کے اجتہادات کو سر آنکھوں پر تسلیم کرتا تھے امام شافعیؒ اتنے اونچے درجے کے انسان تھے کہ اگر آج وہ آئیں اور ہم میں سے کوئی ان کے پاؤں چومنے کی کوشش نہ کرے تو بڑا بدبخت ہوگا۔ امام احمدبن حنبلؒ سے ہر مسلمان کو محبت اور عقیدت ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ کے اجتہادات کو دنیائے اسلام میں بہت تھوڑے لوگ قبول کرتے ہیں مسلمانوں میں مشکل سے ایک فیصد لو گ ہوں گے جو فقہی معاملات میں امام احمد کی رائے اور اجتہا دپرعمل کرتے ہیں بقیہ ننانوے فیصد دوسرے فقہا کی پیروی کرتے ہیں لیکن امام احمد کے احترام میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ تقلید سے مراد صرف یہ ہے کہ کسی شخص کے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر اس کی بات مان کر عمل کر لیا جائے اس کو تقلید کہتے ہیں۔ امام احمد کی تقلید تھوڑے لوگوں نے کی لیکن احترام سب کرتے ہیں۔ تقلید کا تعلق احترام سے نہیں ہے احترام تو ہر صاحب علم کا ہوتا ہے۔ صحیح بخاری دنیائے اسلام میں ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے۔ اس وقت دنیائے اسلام میں امام ابو حنیفہ ؒ کی پیروی کرنے والے کم و بیش پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں۔پوراایشیاپورا افغانستان پورا ترکی پورا مشرقی یورپ پورا ہندستان پورا پاکستان پورا بنگلہ دیش پورا چین یہ دنیائے اسلام کے تقریباً ساٹھ فیصد پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں ۔یہ پیروی ان کے اجتہادات کی کرتے ہیں لیکن احترام سب کا کرتے ہیں۔تقلید صرف ایک صاحب علم کی رائے کو دوسرے سے بہتر جاننا ہے اس کا مطلب دوسرے صاحب علم کی توہین ہر گز نہیں۔