جواب :دراصل ہم جس چیز کے پابند ہیں تو وہ اللہ کی کتاب اور اللہ کو رسول ﷺ کی سنت ہے اور یہی شریعت کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن اور سنت نے کسی اور شخص یا کسی اور چیز کی پیروی کرنے کی پابندی نہیں لگائی ۔لہذا شرعاً نہ امام ابو حنیفہ ؒ کی پیروی لازم ہے نہ امام بخاریؒ نہ امام مسلم ؒ کی نہ کسی اہل حدیث کے فقہ کی پیروی شرعاً لازم ہے
قرآن سنت کی پیروی لازم ہے لیکن ہر شخص قرآن و حدیث کا اتنا علم نہیں رکھتا کہ وہ ان کی صحیح پیروی کر سکے اس لئے جو علم نہیں رکھتا وہ مجبور ہے کہ وہ جاننے والوں سے پوچھے۔ علم جاننے والوں میں سے جس کے علم اور تقوٰی پر سب سے زیادہ اعتماد ہو جس کا علم اور تقویٰٰ اس درجہ کا ہو کہ آپ آنکھیں بند کر کے اس کی بات مان لیں۔
جب ائمہ فقہ اور ائمہ حدیث نے اپنے اپنے اجتہادات مرتب کئے تو بعض حضرات کے ارشادات کتابی شکل میں مرتب ہوگئے ان کے شاگردوں نے بڑی تعداد میں ان کے ارشادات اور فتاویٰ کو پھیلا دیا اس لئے ان کی بات پر عمل کر نا آسان ہوگیا۔ بقیہ فقہا کے اجتہادات اور اقوال مرتب نہیں ہوئے اس لئے ہم تک نہیں آئے ۔مثلاً امام بقی بن مخلد بہت بڑے محدث تھے ان کے خیالات کیا تھے وہ حدیث کی کیسے تعبیر کرتے تھے وہ آج ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں اس لئے ہم آج بقی بن مخلدکے اجتہادات پر عمل نہیں کرسکتے کہ وہ کیا مفہوم بیان کرتے تھے۔ لیکن امام مالک کے اقوال ہمارے سامنے موجود ہیں۔ امام بخاری ؒ کے فتاویٰ ہمارے سامنے ہیں اس لئے ان کے بارے میں یقین سے یہ کہنا آسان ہے کہ وہ کس حدیث کی کیاتعبیر کرتے تھے اس لئے جس کے علم اورتقویٰ پر آپ کو اعتماد ہو اختیار کرلیں لیکن ہر آدمی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جزوی مسائل میں پہلے یہ دیکھے کہ کیا چیز میرے لئے آسان ہے اس سے گمراہی اور افرتفری کا راستہ کھلتا ہے ۔
اگر صاحب علم دلائل کی بنیاد پر ثابت کر دے تو جائز ہے اور ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے آئندہ بھی ہوگا۔ لیکن جو عام آدمی قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا وہ صرف آسانیاں تلاش کرنا چاہتا ہے کہ کتاب کھول کر جو چیز آسان لگے اس کو اختیا ر کر لے اس سے شریعت کے تقاضے ٹوٹتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اس لئے اگر صاحب علم دلائل سامنے لاکر ایسا کرتا ہے تو وہ واقعی ایسا کرسکتا ہے ایک عام آدمی جس کو نہیں معلوم کہ حدیث ضعیف کیا ہے حدیث موضوع کیا ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ قرآن کی کس آیت کاکیا مفہوم ہے کون سی آیت پہلے نازل ہوئی کون سی بعد میں نازل ہوئی وہ اگر اپنی مرضی سے عمل کرنا شروع کردے تو شاید غلطی کو شکار ہو جائے۔ اس لئے غلطی سے بچنے کے لئے معتبر اور معتمد اصحاب علم پر اعتماد کرنا چاہیے ۔