جواب : اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو ں گی اس لئے جوشخص علم نہ رکھتا ہو اسے اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہ حکم بالشریعہ نہیں ہو گا بلکہ حکم بالتشہی ہو گا یعنی اپنی شہوت کے مطابق آدمی پیروی کرے گا۔ جو چیز کاروبار میں مفید ہوگی تو تاجر کہے گا کہ یہ رائے اختیار کریں جس کو کسی اور چیز میں فائدہ ہو گا وہ کہے گا اس چیز کو اختیار کریں تو اس سے بڑی قباحت پیدا ہوگی۔
ج: دین کے بارے میں جو مسالک ، مکاتب فکر یا نقطہ ہائے نظر اس وقت موجود ہیں انہیں انسانوں ہی نے اپنے فہم کی روشنی میں قائم کیا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر مکتبہ فکر کی ہر بات صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات غلط ہو ۔ علم وفکر کے اعتبار سے کسی بھی انسانی کاوش کو بالکل صحیح نہیں کہا جا سکتا میں جودین آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، اس کے بارے میں یہ دعوی ہر گز نہیں کر سکتا کہ یہ سارے کا سارا لازماً صحیح ہو گا ۔ میں نے اپنی قائم کی ہوئی بہت سی آرا سے رجوع کیا ہے ۔ اب سے پہلے کسی رائے کو میں اپنے علم وعقل کے مطابق صحیح سمجھتا تھا اور پورے یقین کے ساتھ اس کو بیان کرتا تھا ، آج میں اپنے علم وعقل کی روشنی میں اس رائے کو غلط سمجھتا ہوں ۔ میرے ایمان ویقین کا معاملہ اصل میں میرے فہم کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنے دل ودماغ کو کھلا رکھنا چاہیے اور اپنی رائے کے تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ مکاتب فکر کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مکتبہ فکر حقیقت کے زیاد ہ قریب ہے ، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مکتبہ فکر حق ہے ۔ حق کی حتمی حجت صرف اور صرف اللہ کے پیغمبر کی بات کو حاصل ہے ۔ اس کو معیار بنا کر آپ کسی بات کے رد یا قبول کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)