چھوٹے نام بڑے لوگ
بلڈ گروپ کی کہانی
ثاقب الرحمان
یہ 1881 کی بات ہے ڈاکٹر ولیم ہلسٹڈ کی بہن زچگی کے بعد خون کی کمی سے مرنے والی تھیں۔ تب ولیم نے اپنے بازو سے خون اپنی بہن کے بازو میں ڈالنا شروع کیا۔ حیرت انگیز طور پر بہن آدھے گھنٹے میں ٹھیک ہونے لگیں۔اس وقت تک بلڈ گروپ دریافت نہیں ہوئے تھے۔ یہ پورا تجربہ اتفاقی طور پر کامیاب ہوا تھا۔ وہ بہت خوش قسمت تھے۔اس سے پہلے 1667 میں ژاں بپٹسٹ نے اپنے مریض کو بھیڑ کا خون لگایا۔ جس سے وہ بہتر ہو گیا۔ البتہ دوسری بار ایسا کرنے سے مریض کی طبیعت بگڑ گئی، بخار ہوا، جسم بھر میں جلن ہوئی اور سیاہ کالے رنگ کا پيشاب urine نکلا۔ اس طرح کے کئی واقعات بیسویں صدی تک پیش آئے جس کے بعد پورے یورپ میں خون کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی۔
یہ کارنامہ 1901 میں آسٹرین ڈاکٹر کارل لینڈسٹینر نے سرانجام دیا۔ انہوں نے خون کے ان گنت نمونے لئے اور انہیں مائکروسکوپ پر آپس میں ملانے لگے۔ چار سال تک تجربات کر کے انہیں آٹھ قسم کے خون نظر آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ہر انسان میں کسی ایک قسم کا خون ہوتا ہے جو پیدائش سے موت تک یکساں رہتا ہے۔ ایک ہی قسم کے خون کو آپس ملایا جائے تو وہ نارمل رہتے ہیں لیکن اگر مختلف کو ملایا جائے تو وہ لوتھڑے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے ان آٹھ اقسام کو A, B, Ab, O میں تقسیم کیا اور ان کے نیگیٹو اور پازیٹو کی تفہیم کی۔اس کے دس سال تک یہ بات امریکہ و یورپ میں پھیل گئی اور طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ ہر مریض اور ڈونر دونوں کے سیمپل لے کر مائکروسکوپ پر چیک کیا جاتا۔ اگر وہ لوتھڑا بنتا تو دوسرا ڈونر چیک کیا جاتا اور یہ پوری ترتیب دہرائی جاتی۔ خون ہمیشہ ڈائریکٹ ڈونر سے مریض کو لگایا جاتا۔ سکریننگ اور دیگر ہیپیٹائٹس ٹیسٹ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ اس طریقے میں وقت بہت لگتا تھا لیکن ہزاروں لوگوں کی جان بچائی گئی۔ اب تک خون کی پیکنگ اور ترسیل کا کوئی نظام نہ تھا کیونکہ جسم سے نکل کر کھلی ہوا میں خون فوراً جم جاتا۔ اس کے بعد خون کو محفوظ کرنے کے لئے تجربات شروع ہوئے۔ آخرکار 1914 میں یہ معلوم کیا گیا کہ اگر سوڈیم سیٹریٹ sodium citrate خون میں ملایا جائے تو اسے بعد کے لئے بوتل میں محفوظ کیا جا سکتا ہے(یاد رہے کہ کوکاکولا کو 1892 سے بوتلوں میں بھرا جا رہا تھا)۔ سوڈیم سیٹریٹ کے بعد خون کو بڑی تعداد میں سٹور کیا جانا ممکن ہو گیا تھا۔ دو سال بعد 1916 میں امریکی ڈاکٹرز نے ایک اور کیمیکل ہیپرن heparin کی دریافت کی جو خون کو زیادہ وقت کے لئے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ یہ کیمیکل آج تک استعمال ہو رہا ہے۔ اس نئے طریقے نے پہلی جنگ عظیم کے زخمیوں کو بچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ یہی طریقہ کار اگلے کچھ سالوں میں بلڈ بینک کی بنیاد بنا۔
اس بات کو صدی گزر چکی ہے۔ اور خون کی ترسیل اب عام سی بات لگتی ہے۔ اس کا شکریہ جس نے بلڈ گروپ پہچانے، اس کا شکریہ جس نے اسے محفوظ کرنا سیکھا، ان سب کا شکریہ جنہوں نے اس کے لئے اپنا خون اور جان دی۔ کچھ لوگ ملک و قوم کے ہیرو ہوتے ہیں یہ مگر کچھ اور لوگ تھے۔ روئے زمین پر ان جیسے ہیرو پہلے کبھی نہیں آئے۔ اس لئے رہتی دنیا تک انسانیت ان کی مقروض ہے۔ ان کے نہ مزار ہیں نہ زیارت ہوتی ہے نہ مجاور ہیں جو ان کی شان بیان کریں۔ مگر واللہ ان سے بڑے ہیرو کوئی نہیں گزرے۔ نجانے بابا آدم کا بلڈ گروپ کیا تھا اور نجانے کس نکتے پر ان کی اولادیں ایسی تبدیل ہو گئیں۔ شاید بعد والا ارتقاء ہوا ہو۔ جن کا بابا وہی جانیں۔رہے نام محسنین کا