ایوان صدر اور آفس میں موجود تمام گورے افسر اپنے پرانے عہدوں پر کام کریں گے’ کسی گورے کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا’
دوسرا آرڈر سیکیورٹی گارڈز سے متعلق تھا۔
اس نے حکم دیا میری سیکیورٹی کی ذمے داری انہی گورے افسروں کے پاس رہے گی جو انگریز صدر کی حفاظت کرتے تھے’
تیسرا آرڈر تھا ‘‘میں اپنے مہمانوں کو خود چائے بنا کر دوں گا’ کوئی ویٹر مجھے اور میرے مہمانوں کو سرو نہیں کرے گا’’
چوتھا آرڈر تھا میں اپنے ذاتی گھر میں رہوں گا اور شام کے وقت نائٹ اسٹاف کے سوا کوئی میری ڈیوٹی نہیں دے گا’
پانچواں آرڈر تھا ملک میں موجود تمام گورے جنوبی افریقہ کے شہری ہیں اور جو انھیں تنگ کرے گا اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی’
چھٹا آرڈر تھا آج سے میرا کوئی سیاسی اور ذاتی مخالف نہیں ہوگا’ میں اپنے تمام مخالفوں کے پاس گارڈز کے بغیر جاؤں گا’
ساتواں آرڈر تھا ۔
ملک کی سرکاری میٹنگ میں میرے خاندان اور میرے دوستوں میں سے کوئی شخص شامل نہیں ہوگا
اور آٹھواں حکم تھامیں اس ملک کا ایک عام شہری ہوں چنانچہ میرے ساتھ وہ قانونی سلوک کیا جائے جو عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ آٹھ احکامات تھے جنھیں جاری ہونے میں دس منٹ لگے اور بدترین خانہ جنگی کے شکار جنوبی افریقہ کا مستقبل پہلے ہی دن طے ہو گیا۔
1994ء تک ساؤتھ افریقہ دنیا کا خطرناک ترین ملک تھا مگرنیلسن منڈیلا کے اقتدار سنبھالنے کے محض ایک سال بعد 1995ء میں ساؤتھ افریقہ میں رگبی کا ورلڈ کپ اور 2003ء میں کرکٹ کا ورلڈ کپ منعقد ہوا اور یہ آج دنیا کے ترقی یافتہ اور مضبوط ممالک میں شمار ہوتا ہے۔نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے بانی تھے مگر یہ 5 سال کی صدارت کے بعد 2004ء میں سیاست سے ریٹائر ہو گئے اور 2014 میں اپنی وفات تک معمولی درجے کے چھوٹے سے گھر میں رہے۔
یہ درست ہے منڈیلا کے ابتدائی آٹھ احکامات سے جنوبی افریقہ میں نہ دیوار چین بنی’نہ یہ برطانیہ بنا’ نہ ہی یہ واشنگٹن بنا اور نہ ہی ان احکامات سے ان کا ریلوے’ اسٹیل مل’ ائیر لائین’ واپڈا اور معیشت ٹھیک ہوئی مگر ان آٹھ احکامات نے جنوبی افریقہ کو قوم بنا دیا اور چار سال بعد جنوبی افریقہ کے 80 فیصد مسائل حل ہوگئے یا پھر یہ حل ہوناشروع ہوگئے۔''
سیاستدان اگلے لیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر اگلی نسل کا سوچتا ہے۔۔