الہام کی رم جھم ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے
آیات کی جھرمٹ میں تیرے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
خورشید تیری رہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب تیرا ریزۂ نقشِ کف پا ہے
واللیل تیرے سایۂ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے تیرے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہرِ اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے
اِک بار تیرا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا تیرا حبشی
بے زر کو ابوزر تیری بخشش نے کیا ہے
ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر تیرے ہاتھوں پہ لکھا ہے
اُترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآں تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے
اے گنبدِ خضرا کے مکیں میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون مرا تیرے سوا ہے
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے